85461 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
میری بھانجی نے عدالت کے ذریعے خلع لیا ہے اور خلع کو چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ خلع لینے کی وجہ ٍصرف یہ تھی کہ شادی کے پانچ ماہ بعد پتہ چلا کہ لڑکا نشہ کرتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے اسے بہت سمجھایا، اور اسی سلسلے میں ایک سال تک لڑکی کو اس کے گھر میں رکھا۔ میں نے اپنی بھانجی کواپنے گھر میں رکھا اوراس کا سامان بھی اپنے پاس رکھ لیا اور لڑکے کو ایک دو مواقع دیے، یہاں تک کہ اسے اپنے گھر میں بھی رکھا۔ مگر اس نے پھر بھی نشہ نہ چھوڑا،بلکہ ایک دن جب اسے کسی بات پر سمجھایا گیا تو اس نے پیٹرول ڈال کر گھر کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی، اس پر ہم نے اسے گھر سے نکال دیا۔
اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس لڑکے سے سائن کسی طرح کرائے جائیں کیونکہ لڑکا نشے میں ہوتا ہے اور کئی کئی دن گھر نہیں آتا۔ اس کے ماں باپ نہیں ہیں، اور بہن بھائی ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ اگر ہم مار پیٹ کے ساتھ اس سے سائن لے لیتے ہیں تو کیا یہ درست ہو گا؟ کیونکہ اسے تو اپنا ہوش نہیں ہوتا۔ یا ہم عدالت کے فیصلے کو معتبر سمجھ سکتے ہیں یا نہیں؟ ہمیں سائن کرانے کا حل بتایا جائے۔
نوٹ: عدالتی کاغذات میں مارپیٹ وغیرہ کا ذکر وکیل نے شامل کیا تھا کیونکہ یہ ان کے پاس پہلے سے تیار شدہ نکات میں شامل تھا۔ ہم نے وکیل کو نشہ کے بارے میں بتایا تھا تووکیل نے کہاتھا کہ عدالت میں حاضر ہو کر یہ بات شامل کر دیں گے، پروہ عدالت میں حاضر نہ ہوا اور عدالت نے یک طرفہ خلع دے دیااورنشہ والی بات رہ گئی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
منسلکہ یکطرفہ عدالتی خلع شرعی بنیاد پر مشتمل نہ ہونے کی وجہ سے شرعاً معتبر نہیں، لہٰذا اس سے مذکورہ نکاح فسخ نہیں ہوا۔ نشہ کرنا اگرچہ ایک حرام عادت اور کبیرہ گناہ ہے، لیکن صرف نشہ کرنے کو چاروں اماموں میں سے کسی نے بھی فسخ نکاح کا سبب قرار نہیں دیا۔ تاہم، اگر نشہ کرنے کی وجہ سے بیوی کا ایسا حق ضائع ہو رہا ہو جو فسخ نکاح کا سبب بن سکتا ہو (جیسے نشے کی عادت کے باعث نفقہ کی ادائیگی نہ کرنا، جیسا کہ مسئولہ صورت میں تحقیق سے ظاہر ہوا)، تو اس حق تلفی کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مطالبہ کرنا اور عدالت کا نکاح فسخ کرنا جائز ہوگا۔
لہٰذا مسئولہ صورت میں نکاح تاحال برقرار ہے، اور مذکورہ عدالتی ڈگری کافی نہیں ہے۔ چونکہ خاوند نشے کی وجہ سے بیوی کا نفقہ ادا نہیں کر سکتا، اس لیے اس بنیاد پر طلاق یا فسخ نکاح کا مطالبہ کرنا درست ہے۔ طلاق نشے کی حالت میں ہو جاتی ہے، لہذاشوہر اگر خود زبانی طلاق دے تو وہ نافذ ہوگی، اور اگر وہ اپنی رضا سے تحریری طلاق دے تو وہ بھی واقع ہو جائے گی۔ البتہ، زبردستی لی گئی تحریری طلاق نافذ نہیں ہوگی۔ ایسی صورت میں دوبارہ نفقہ کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر عدالت سے فسخ نکاح کی ڈگری حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ اگر عدالت دوبارہ نکاح فسخ نہ کرے، تو جماعت المسلمین سے بھی نکاح فسخ کرایا جا سکتا ہے۔
نفقہ کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر نکاح فسخ کرانے کے دو طریقے ہیں:
1. عدالت کے ذریعے فسخ نکاح:
خاتون نفقہ کی عدم ادائیگی کے مسئلے کو عدالت میں پیش کرے اور اپنی سچائی شرعی گواہوں (دو دیندار مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی) سے ثابت کرے۔ عدالت خاوند کو بلا کر نشہ چھوڑنے، بیوی کو بسانے، نفقہ دینے یا خلع پر راضی کرنے کی کوشش کرے۔ اگر خاوند نہ مانے تو نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرے۔ یہ فسخ بحکم طلاقِ رجعی ہوگا، اور عدت گزرنے کے بعد عورت آزاد ہوگی اور دوسری شادی کر سکے گی۔
2. جماعت المسلمین کے ذریعے فسخ نکاح:
خاتون نفقہ کی عدم ادائیگی کا معاملہ جماعت المسلمین کے سامنے پیش کرے۔ یہ جماعت کم از کم تین افراد پر مشتمل ہو، تمام ارکان عادل ہوں، علماء شامل ہوں، اور سب کا متفقہ فیصلہ ہو۔ یہ جماعت بھی پہلے خاوند کو نشہ چھوڑنے، بیوی کو بسانے یا نفقہ دینے پر راضی کرے۔ اگر خاوند نہ مانے تو نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرے، جو بحکم طلاقِ رجعی ہوگا۔ عدت گزرنے کے بعد خاتون آزاد ہوگی اور کہیں اور نکاح کر سکے گی۔
حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165):
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.
أحكام القرآن للجصاص ط العلمية (1/478):
"فأباح الأخذ منها بتراضيهما من غير سلطان. وقول النبي صلى الله عليه وسلم لامرأة ثابت بن قيس: "أتردين عليه حديقته؟ " فقالت: نعم، فقال للزوج: "خذها وفارقها" يدل على ذلك أيضا؛ لأنه لو كان الخلع إلى السلطان شاء الزوجان أو أبيا إذا علم أنهما لا يقيمان حدود الله لم يسألهما النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، ولا خاطب الزوج بقوله "اخلعها" بل كان يخلعها منه.".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار (3/ 439)
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
حاشية ابن عابدين (3/ 498)
قوله ( وإلا بانت بالتفريق ).... ( من القاضي إن أبى طلاقها ) أي إن أبى الزوج لأنه وجب عليه التسريح بالإحسان حين عجز عن الإمساك بالمعروف فإذا امتنع كان ظالما فناب عنه وأضيف فعله إليه
المبسوط للسرخسي (6/ 173)
(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.
وفی الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني (ج: ۵ ص: ۲۲۵ )
ومثل المفقود من علم موضعه وشكت زوجته من عدم النفقة يرسل إليه القاضي : وإما أن تحضر أو ترسل النفقة أو تطلقها ، وإلا طلقها الحاكم ، بل لو كان حاضرا وعدمت النفقة قال خليل : ولها الفسخ إن عجز عن نفقة حاضرة لا ماضية ، ثم بعد الطلاق تعتد عدة طلاق بثلاثة أقراء للحرة وقرأين للأمة فيمن تحيض ، وإلا فثلاثة أشهر للحرة والزوجة الأمة لاستوائهما في الأشهر .
الموسوعة الفقهية الكويتية (29/287):
"إذا عجز الزوج عما وجب عليه من النفقة، وطلبت الزوجة التفريق بينها وبين زوجها، فعند المالكية والشافعية والحنابلة يفرق بينهما، وذهب الحنفية إلى أنه لا يفرق بينهما بذلك، بل تستدين عليه، ويؤمر بالأداء من تجب عليه نفقتها لولا الزوج( والقانون الوضعي لباكستان عن التفريق بين الزوجين بسبب عدم دفع الزوج نفقتها إنما وُضع حسب قول الجمهور فهو رافع للخلاف).
فتاوی هندیہ:
طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط... ومن سكر من البنج يقع طلاقه ويحد لفشو هذا الفعل بين الناس وعليه الفتوى في زماننا كذا في جواهر الأخلاطي.
وفي الهندية: "
خلع السكران والمكره جائز عندنا وخلع الصبي باطل والمعتوه والمغمى عليه من مرض بمنزلة الصبي في ذلك، هكذا في المبسوط." (كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، 1/504، ط: رشيدية)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (3/ 264):
وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان
طالق لم يقع اهـ.
أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (2/ 169):
إذا ثبت أن الإسلام لا يختلف حكمه في الإكراه والطوع لمن يجوز إجباره عليه أشبه في هذا الوجه العتق والطلاق وسائر ما لا يختلف فيه حكم جده وهزله ثم لا يختلف بعد ذلك أن يكون الإكراه مأمورا به أو مباحا كما لا يختلف حكم العتق والطلاق في ذلك لأن رجلا لو أكره رجلا على طلاق أو عتاق ثبت حكمهما عليه وإن كان المكره ظالما في إكراهه منهيا عنه وكونه منهيا عنه لا يبطل حكم العتق والطلاق عندنا كذلك ما وصفنا من أمر الإكراه على الإسلام.
المبسوط للسرخسي (9/ 82)
وولاية المولى عليه فيما يتصل بالمالية فأما فيما يتصل بالبدن كأجنبي آخر، ألا ترى أن في طلاق زوجته جعل المولى كأجنبي آخر.
تاوى قاضي خان(1/416):
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة ههنا.
وفی "الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة" (ص: ١٥٩):
في البلاد التي لا يوجد فيها قاضٍ شرعي، يمكن عندئذٍ - وفق مذهب المالكية - أن تجتمع جماعة من المسلمين المتدينين كهيئة تحكيم، وبعد التحقيق الكامل وفق البيان المذكور، تصدر حكمًا شرعيًا. ويكون هذا الحكم في حكم قضاء القاضي، بشرط أن تكون هذه الهيئة مستوفية للشروط التي سبق ذكرها في المقدمة.
وفیھا أیضا( ص:١٤٨):
لهذه الجماعة أن تكون في مقام القاضي، ولكن يلزم توفر شروط معينة، وإذا لم تكن تلك الشروط موجودة فيها فلا تعتبر معتبرة شرعًا. ومن هذه الشروط:
١. أن تكون الجماعة مكونة من ثلاثة أشخاص على الأقل.٢. أن يكون جميع أعضاء الجماعة عدولًا.٣. أن تكون مشاركة العلماء في إصدار القرار لازمة وشرطًا أساسيًا.٤. أن يكون قرار جماعة المسلمين بالإجماع.
وفیھا أیضا (ص :١٤٨):
وفق مذهب الإمام مالك - الذي يجوز اتباعه عند الحنفية في حالات الضرورة الشديدة - فإن حكم جماعة من المسلمين يمكن أن يكون في مقام قضاء القاضي. وصورة ذلك أن يعرض الأمر على جماعة من المسلمين المتدينين والمؤثرين في المحلة أو البلدة، بشرط أن يكون عددهم ثلاثة على الأقل. تقوم هذه الجماعة بالتحقيق في الواقعة وإصدار حكم موافق للشريعة الإسلامية.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
14/5/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |