03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جانوروں کی زکوۃ کا بیان

جانوروں پر زکاۃ کے وجوب کی شرائط:

جانوروں میں زکاۃ کے وجوب کے لیے درج ذیل دو شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

          1۔سال گزرنا

          2۔سائمہ ہونا ، سائمہ سےمرادوہ جانور ہیں جن میں درج ذیل دو شرائط پائی جائیں:

          ا۔سال کا اکثر حصہ گھر سے باہر مفت کا چارہ کھاتے ہوں،مالک کو انتظام نہ کرنا پڑتا ہو،لہذا وہ جانور جن کے چارے کا انتظام چھ مہینے یا اس سے زیادہ مالک کو کرنا پڑتا ہو،سائمہ نہیں کہلائیں گے۔

          ۲۔دودھ حاصل کرنے،نسل میں اضافے یا صحت مندکرنے کے لیے رکھے گئے ہوں،لہذا وہ جانور جو دودھ کے حصول،نسل میں اضافے یا موٹااورصحت مند کرنے کی غرض سے نہ رکھے گئے ہوں،بلکہ گوشت کے حصول یا دیگر کاموں کے لیے رکھے گئے ہوں سائمہ نہیں کہلائیں گے۔"الدر المختار " (2/ 275)

بکریوں کی زکاۃکا نصاب:

چالیس سے کم میں کوئی زکوۃ نہیں،چالیس ہوجانے پر ایک  سالہ ایک بکری لازم ہے،اس کے بعد ایک سو بیس تک کوئی اضافہ نہیں،ایک سو اکیس ہوجانے پر دوبکریاں لازم ہیں،اس کے بعد دوسو تک کوئی اضافی بکری لازم نہیں،دوسو ایک ہونے پر تین بکریاں لازم ہوں گی،پھر تین سو ننانوے تک کوئی اضافہ نہیں،چار سو مکمل ہوجانے پر چار بکریاں لازم ہوں گی،اس کے بعد ہر سینکڑے کے مکمل ہونے پر ایک بکری کا اضافہ ہوگا،یعنی پانچ سو میں پانچ بکریاں،چھ سو میں چھ،سو سے کم اضافے پر کوئی اضافی بکری لازم نہیں ہوگی۔

نیز زکاۃ کے باب میں بھیڑ اور بکریوں کے نصاب میں کوئی فرق نہیں،دونوں کا نصاب یکساں ہے۔(الدر المختار2/ 281)

گائے کی زکاۃ کا نصاب:

تیس سے کم میں کچھ نہیں،تیس ہونے پر  ایک تبیعہ) گائے کا ایک سالہ نر یا مادہ بچہ (لازم ہے،پھر انتالیس تک کوئی اضافہ نہیں ،چالیس ہونے پر مسنہ) گائے کا دو سالہ نر یا مادہ  بچہ (لازم ہوگا،پھر اکتالیس سے انسٹھ تک کوئی اضافہ نہیں،ساٹھ مکمل ہونے پر  دو تبیعے لازم  ہوں گے،پھر انہتر تک اضافہ پر کچھ لازم نہیں،ستر ہونے پر ایک مسنہ اور ایک تبیعہ لازم ہوں گے،اسی طرح ہر تیس پر ایک تبیعہ اور ہر چالیس پر ایک مسنہ لازم ہوگا اور جو عدد تیس اور چالیس دونوں پر تقسیم ہوجائے اس میں اختیار ہے کہ تیس کے حساب سے ادائیگی کرے یا چالیس کے حساب سے،مثلا ایک سو بیس  میں  تیس کے حساب سے چار تبیعے) گائے کے ایک سالہ نر یا مادہ بچے( لازم ہوں گے،جبکہ چالیس کے حساب سے تین مسنہ) گائےکے دو سالہ نر یا مادہ  تین بچے( لازم ہوں گے۔المختار " (2/ 280)

اونٹوں کی زکاۃ کا نصاب:

پانچ سے کم اونٹوں میں کچھ نہیں،پانچ اونٹوں میں ایک بکری لازم ہوگی،دس میں دو،پندرہ میں تین اوربیس میں چار ،کم از کم ایک سالہ بکریاں لازم ہوں گی،چاہے نر ہوں یا مادہ،درمیان میں اضافے پر کچھ نہیں،پھر پچیس سے پینتیس تک  اونٹوں پر ایک سالہ اونٹنی لازم ہوگی،چھتیس سےپینتالیس تک دوسالہ اونٹنی لازم ہوگی،پھرچھیالیس سے ساٹھ تک تین سالہ اونٹنی لازم ہوگی،پھر اکسٹھ سے پچھتر تک چار سالہ اونٹنی لازم ہوگی،چھہتر سے نوے تک دو سالہ دو اونٹنیاں لازم ہوں گی،اکیانوے سے ایک سو بیس تک تین سالہ دواونٹنیاں لازم ہوں گی۔

ایک سو بیس کے بعد نیا حساب شروع ہوگا،لہذا ہر پانچ اونٹوں کے اضافے پر ایک بکری کا اضافہ ہوتا جائے گا ایک سو چوالیس تک،یعنی ایک سو پچیس میں تین سالہ دو اونٹنیوں کے ساتھ ایک بکری دینا پڑے گی،ایک سوتیس پر تین سالہ  دواونٹنیوں کے ساتھ دو بکریاں دینا پڑیں گی،ایک سو پینتیس پر تین سالہ دو اونٹنیوں کے ساتھ تین بکریاں  دیناپڑیں گی،ایک سو چالیس پر تین سالہ دو اونٹنیوں کے ساتھ چار بکریاں دینا پڑیں گی ،پھر ایک سو پینتالیس ہوجانے پر بکری کے بجائے ایک سالہ اونٹنی کا اضافہ ہوگا،لہذا ایک سو پینتالیس سے ایک سو اننچاس تک تین سالہ دو اونٹنیوں کے ساتھ ایک سالہ اونٹنی لازم ہوگی  اور ایک سو پچاس پر تین سالہ تین اونٹنیاں لازم ہوں گی۔

اس کے بعد نئے سرے سے حساب شروع ہوگا،لہذابیس اونٹوں کے اضافے تک  ہر پانچ اونٹوں کے اضافے پر تین سالہ تین اونٹنیوں کے ساتھ  ایک بکری کا اضافہ ہوگا،لہذا ایک سو پچپن پر  تین سالہ تین اونٹنیوں کے ساتھ ایک بکری،ایک سو ساٹھ پر تین سالہ تین اونٹنیوں کے ساتھ دو بکریاں،ایک سو پینسٹھ پر تین سالہ تین اونٹنیوں کے ساتھ تین بکریاں اور ایک سو ستر پر تین سالہ تین اونٹنیوں کے ساتھ چار بکریاں لازم ہوں گی،اس کے بعد ایک سو پچھتر ہونے پر تین سالہ تین اونٹنیوں کے ساتھ ایک سالہ ایک اونٹنی کا اضافہ ہوگا ایک سو پچاسی تک،اس کےبعد ایک سو چھیاسی  سے ایک سو پچانوے تک تین سالہ اونٹنی کے ساتھ  ایک دو سالہ اونٹنی لازم ہوگی اور ایک سوچھیانوے ہونے کے بعد تین سالہ چار اونٹنیاں لازم ہوں گی۔

دو سو کے بعدہر پچاس  کا حساب ویسے ہی ہوگا جیسا کہ ڈیڑھ سو کے بعد دوسو تک  ذکر کیا گیا ہے،یعنی شروع میں بیس تک ہر پانچ اونٹوں کے اضافے پر ایک بکری،پھر پچیس سے پینتیس تک ایک سالہ اونٹنی کا اضافہ ہوگا،پھر چھتیس سے پینتالیس تک دوسالہ اونٹنی کا اور پھر چھیالیس سے پچاس تک تین سالہ اونٹنی کا۔"الدر المختار " (2/ 277)

گھوڑوں میں زکاۃ کا حکم:

گھوڑوں پر زکاۃکے وجوب اور عدم وجوب کے حوالے دو قول ہیں:

1۔ صاحبین کے نزدیک گھوڑوں میں زکاۃ لازم نہیں ،یہی موقف ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃلازم نہیں ہے۔

2۔ امام صاحب کا موقف یہ ہے کہ اس حدیث میں گھوڑے سے مراد مجاہد کا گھوڑا ہے،اس کے علاوہ اگر گھوڑے سائمہ ہوں اور نرومادہ مخلوط ہوں تو ان میں زکاۃ لازم ہو گی، لہذااگر سائمہ نہ ہوں یا صرف نر ہوں تو ان کی زکاۃ اداء کرنا لازم نہیں اور اگر صرف مادہ ہوں تو راجح قول کے مطابق ان میں بھی زکاۃ لازم ہوگی،چونکہ گھوڑوں کا کوئی نصاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ،اس لیے کم ہوں یا زیادہ زکوۃ کا حکم یکساں ہے،گھوڑوں کی زکاۃ کا حساب دو طرح لگایا جاسکتا ہے:

ا ۔ ہر گھوڑے کے بدلے ایک دینار یعنی پونے تین تولہ چاندی یا اس کی قیمت ادا کرے۔

۲۔ جتنے گھوڑے ہوں سب کی قیمت لگاکراس کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد اداکردے۔

فقہ کی کتابوں میں درج بالا دونوں اقوال کی تصحیح منقول ہے،اس لیے احتیاطاً امام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنا چاہیے۔"الدر المختار " (2/ 282)

گدھوں اور خچروں کی زکاۃ کا حکم:

گدھوں اور خچروں میں زکاۃ لازم نہیں ہے،بشرطیکہ وہ تجارت کے لیے نہ ہوں،اگر تجارت کی نیت سے رکھے گئے ہوں تو پھر سال گزرنے پر دیگر اموال تجارت کے ساتھ ان کی بھی زکاۃ دی جائے گی۔"الدر المختار " (2/ 282)

ایک جنس کے مخلوط جانوروں کی زکاۃ کا حکم:

زکاۃ کے باب میں گائے اور بھینس ایک جنس شمار ہوتے ہیں،اسی طرح بھیڑ اور بکری بھی ایک ہی جنس شمار ہوتے ہیں،لہذا گائے، بھینس اور بھیڑ، بکری میں سے اگر ہر ایک کا نصاب الگ الگ پورا ہو تو دونوں میں سے زکاۃ ادا کی جائے گی اور اگر ہر ایک کا الگ الگ نصاب پورا نہ ہو،لیکن دونوں کو ملاکر نصاب پورا ہورہا ہو تو دونوں کو ملایا جائےگا اور جو جانور تعداد میں زیادہ ہوں گے زکاۃ میں اسی میں سے جانوردیا جائے گا،مثلا اگر تیس بکریاں ہوں اور دس دنبے ہوں تو زکاۃ میں ایک بکری دی جائے گی اور اگر دونوں تعداد میں برابر ہوں تو مالک کو اختیار ہوگا جس کے ذریعے چاہے ادائیگی کردے۔"رد المحتار" (2/ 280)

جانوروں کے بچوں کی زکاۃ کا حکم:

بکری،گائے،اونٹ اور ان کے ہم جنس دیگر جانوروں کےصرف بچے ہوں تو ان بچوں میں زکاۃ واجب نہیں،بشرطیکہ ان کے ساتھ ان کی جنس کا کوئی بڑا جانور نہ ہو،ایسی صورت میں بڑے جانور کے تابع ہوکر ان کی زکاۃ بھی فرض ہوجائے گی اور زکاۃ میں  بڑا جانور دیا جائے گا،لیکن اگر سال پورا ہونے سے پہلے یا پورا ہونے پر بڑا جانور مرجائے تو زکاۃ ساقط ہوجائے گی۔"الدر المختار " (2/ 282)

تجارت کی نیت سے رکھے گئےجانوروں کی زکاۃ کا حکم:

تجارت کی نیت سے رکھے گئے جانوروں کا حکم دیگر اموالِ تجارت جیسا ہے،یعنی سال گزرنے کے بعد دیگر اموالِ تجارت کے ساتھ ان کا بھی حساب لگایا جائے گا اور ان کی کل قیمت کااڑھائی فیصد زکاۃ میں دینا لازم ہوگا۔"الدر المختار " (2/ 275)

ڈیری فارمز کے جانوروں کی زکاۃ کا حکم:

چونکہ فارم میں رکھے گئے جانوروں کے چارے کا انتظام مالک کو خود کرنا پڑتا ہے،اس لیے ان پر سائمہ جانوروں کا اطلاق نہیں ہوتا،لہذا ان میں سے زکاۃ کی ادائیگی لازم نہیں،البتہ اگر دودھ بیچنے کے ساتھ ساتھ فارم میں موجود جانوروں کی تجارت  کی بھی نیت ہو تو پھر سال گزرنے کے بعد بقیہ اموال تجارت کے ساتھ ان جانوروں کی قیمت کا بھی حساب لگایا جائے گااور ان کی کل قیمت کا اڑھائی فیصد زکاۃ میں دینا لازم ہوگا۔"الدر المختار " (2/ 282)

کھیتی بھاڑی یا کام کاج کے لیے رکھے گئے جانوروں کی زکاۃ کا حکم:

جو جانور کام کاج مثلا کھیتی بھاڑی،بار برداری یا رہٹ وغیرہ کے لیے رکھے گئے ہوں ان میں شرعا زکاۃ واجب نہیں۔"الدر المختار " (2/ 282)

ان جانوروں کی زکاۃ کا حکم جن کے چارے کا انتظام خود کیا جائے:

چونکہ جن جانوروں کے چارے کا انتظام سال کا اکثر حصہ یا نصف سال مالک کو خود کرنا پڑتا ہو وہ سائمہ نہیں کہلاتے،اس لیے ان کی زکاۃبھی لازم نہیں۔"البحر الرائق " (2/ 229)

کرائے کی زمین میں چرنے والے جانوروں کی زکاۃکا حکم:

جانوروں میں زکاۃ لازم ہونے کے لیے ان کا سائمہ ہونا شرط ہے،لہذاجو جانور ایسی زمین میں چرتے ہوں جس کا مالک کو معاوضہ دینا پڑتا ہوان میں زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔"الدر المختار " (2/ 275)

اپنی مملوک زمین میں خودرو چارہ چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا حکم:

ایسے جانور جو مالک ہی کی زمین میں موجود خودرو چارہ چرنے پر سال کا اکثر حصہ اکتفاء کرتے ہوں سائمہ کہلائیں گے،لہذا سال گزرنے پر ان کی زکاۃ لازم ہوگی۔(امداد الاحکام:2/ 32)

سرکاری یا کسی زمیندار کی زمین میں مفت چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کاحکم:

ایسے جانور جو کسی سرکاری زمین یا کسی زمیندار کی زمین میں چرتے ہوں اور مالک کو اس کے بدلے کوئی معاوضہ نہ دینا پڑتا ہو وہ بھی سائمہ کہلائیں گے،لہذا سال گزرنے پر ان کی زکاۃلازم ہوگی۔(امداد الاحکام:2/ 32) "البحر الرائق " (2/ 229)

وقف کیے گئے جانوروں کی زکاۃکا حکم:

زکاۃ اس مال کی لازم ہوتی ہے جو مکمل طور پر کسی کی ملکیت میں ہو،چونکہ وقف کیے گئے جانور منتظم کی ملک نہیں ہوتے ،اس لیے ان کی زکاۃ بھی لازم نہیں ہوگی۔"الدر المختار " (2/ 277)

جنگلی جانوروں کی زکاۃ کا حکم:

سائمہ جانوروں میں زکاۃ تب لازم ہوتی ہے جبکہ وہ ایسی جنس سے تعلق رکھتے ہوں جن کی قربانی جائز ہے،مثلا اونٹ،گائے،بھینس اور بکری وغیرہ،لہذا ان کے علاوہ دیگر اجناس کے جتنے بھی جانور ہیں ،مثلا ہرن،خرگوش،خچر ،گدھاوغیرہ پر سائمہ ہونے کی حیثیت سے زکاۃ لازم نہیں ہوگی،بشرطیکہ تجارت کی نیت سے نہ رکھے گئے ہوں،اگر تجارت کی نیت سے رکھے گئے ہوں تو پھر ان میں مالِ تجارت ہونے کی وجہ سے زکاۃ لازم ہوگی۔

مخلوط النسل جانوروں کی زکوۃکا حکم:

نیز جو جانور مخلوط النسل ہوں،مثلا بکرے اور ہرنی یا کتے اور بکری کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ، ان میں ماں کا اعتبار ہوگا،اگر ماں ان جانوروں کی جنس میں سے ہوجن کی قربانی جائز ہے تو پھر ایسے جانوروں پر سائمہ ہونے کی حیثیت سے زکاۃ لازم ہوگی،ورنہ نہیں۔الموسوعة الفقهية الكويتية "(23/ 250)۔’’الفتاوى الهندية" (1/ 178)

قربانی کی نیت سے پالے گئے جانوروں کی زکاۃ کا حکم:

چونکہ سائمہ جانوروں کا اطلاق ان جانوروں پر ہوتاہے جو دودھ حاصل کرنے،نسل میں اضافے یا صحت مندکرنے کے لیے رکھے گئے ہوں،اس لیے قربانی کی نیت سے پالے گئے جانوروں پر سائمہ کا اطلاق نہیں ہوگا اور ان کی زکاۃبھی لازم نہیں ہوگی۔الدر المختار " (2/ 275)

مویشیوں کے دودھ پر زکاۃکا حکم:

دودھ کے حصول کے لیے جو جانور ڈیری فارم  یا گھروں میں رکھے جاتے ہیں ان پر زکاۃ کا حکم اوپر تفصیل سے گزرچکا،ان مویشیوں کے دودھ پر کوئی زکاۃ لازم نہیں،البتہ دودھ بیچ کر جو رقم حاصل ہو ،سال  گزرنے کے بعد بقیہ اموالِ زکاۃ کے ساتھ اس کا بھی حساب لگایاجائے گا،اور کل مجموعہ کا اڑھائی فیصد زکاۃ میں دیا جائے گا۔

زکاۃ میں جانور کے بجائے اس کی قیمت دینا:

جس جانور کا زکاۃ میں دینا لازم ہواس کے بجائے اس کی قیمت دینا بھی جائز ہے،کیونکہ مقصود غرباء اور مساکین کی ضرورت پوری کرنا ہے اور وہ قیمت کی ادائیگی کے ذریعے بھی پوری ہوجائے گی،بلکہ بسا اوقات جانور کے بجائے قیمت دینے میں اسے سہولت زیادہ ہوتی ہے۔"الفتاوى الهندية "(1/ 181)

قیمت کس جگہ کی معتبر ہوگی؟

جانور کے بجائے اس کی قیمت دینے کی صورت میں اس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہوگا جہاں جانور موجود ہیں اور اگر جانور کسی جنگل یا صحراء میں ہوں تو پھر اس جگہ کے قریب جو شہر ہو اس کی قیمت کا لحاظ رکھا جائے گا۔"الدر المختار " (2/ 285)

زکاۃ میں کس قسم کا جانور دیا  جائے گا؟

جس عمر کے جانور کی ادائیگی زکاۃمیں لازم ہے اس عمر کے جانوروں میں سے درمیانے قسم کا جانور زکاۃ میں دیا جائے گا،نہ زیادہ عمدہ اورموٹا اور نہ بالکل کمزور اور لاغر،البتہ اگراس عمرکے سارے جانور ہی عمدہ ہوں تو پھر عمدہ جانور ہی دیا جائے گا اوراگر اس عمر کا جانور موجود نہ ہو تو مالک کو اختیا ر ہے کہ اس سے قیمتی جانور دے کر اضافی قیمت واپس لے لے،یا کم قیمت جانور دے کر اضافی قیمت دے دے،یا اس جانور کی قیمت دے دے۔"الدر المختار " (2/ 286)

ان جانوروں کی زکاۃ کا حکم جن کا سال کے درمیان میں اضافہ ہو:

اگر کسی کی ملک میں ان جانوروں کی جنس میں سے کسی قسم کے جانور وں کا نصاب ہو جن کی قربانی جائز ہے اور پھر سال کے دوران ان میں اضافہ ہوجائے،چاہے توالد وتناسل کے ذریعے،چاہے خریدنے یا ہبہ وغیرہ کے ذریعےتو سال پورا ہونے پر ان بڑھنے والے جانوروں کی بھی ان جانوروں کے ساتھ زکاۃ ادا کی جائے گی جو پہلے سے موجود تھے،بشرطیکہ وہ انہی کی جنس میں سے ہو،اگر علیحدہ جنس کے ہوں تو ان کاحساب الگ ہوگا،مثلا کسی کے پاس سال کے شروع میں پچیس اونٹ تھے،پھر سال کے دوران ان میں اضافہ ہوتا گیا اور سال کے آخر میں ان کی تعداد چھتیس ہوگئی تو ان کے مالک کو زکاۃ چھتیس اونٹوں کے حساب سے ادا کرنا پڑے گی اور اگر سال کے دوران اونٹوں کے بجائے بھینسوں یا بکریوں کا اضافہ ہوا تو انہیں ان اونٹوں کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا،بلکہ علیحدہ سے حساب ہوگا،کیونکہ ان کی جنس الگ ہے۔"الدر المختار " (2/ 288)

مواشی میں سال کے دوران نیت بدلنے کا حکم:

اگر کسی کی ملک میں سائمہ جانوروں کا نصاب موجود ہو،لیکن سال گزرنے سے پہلے اس کی نیت بدل جائے اور وہ ان جانورں کی تجارت کی نیت کرلے تو جس دن اس کی نیت بدلے گی اس دن سے نیا سال شمار ہوگا اوراس کے بعدایک سال پورا ہونے پر اس کے ذمے زکاۃلازم ہوگی، سابقہ سال کی ابتداء کاجس دن وہ سائمہ جانوروں کے نصاب کا مالک بنا تھا اب اعتبار نہیں رہے گا۔

اسی طرح اگر کسی نے تجارت کی نیت سے نصاب کے بقدر جانور خریدے،لیکن پھر سال گزرنے سے پہلے اس کی نیت بدل گئی اور اس نے انہیں سائمہ بنادیا تو جس دن اس کی نیت بدلے گی اس دن سے نیا سال شمار ہوگا اور اس دن کے بعد سال پورا ہونے پر اس کے ذمے ان جانوروں کی سائمہ ہونے کی حیثیت سے زکوۃ لازم ہوگی،سابقہ سال کی ابتداء کا جس دن وہ ان جانوروں کا مالِ تجارت ہونے کی حیثیت سے مالک بنا تھا،اب کوئی اعتبار نہیں رہے گا۔"الدر المختار " (2/ 276)

مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی