03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک عالمِ دین سے بیان میں ہونے والی تعبیر کی غلطی کو گستاخی کہنے کا حکم
85499ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

پچھلے دنوں ایک معروف عالم دین نے کینیڈا میں بیان کے دوران ایک بات کہی جس کا حاصل یہ بنتا ہے کہ قرآن کریم میں گرامر کے لحاظ سے ظاہری طور پر غلطیاں ہیں، کیونکہ جن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو لفظ جیسا لکھا، وہ آج تک ویسا ہی لکھا چلا آرہا ہے، اور چونکہ نبی کریم ﷺ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، اس لیے نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ کی تصحیح نہیں فرمائی اور وہ الفاظ قرآن کریم میں آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔

 موصوف کا یہ بیان نبیﷺ کی نبوت اور قرآن کی صداقت پر تھا، اور مقصد یہ تھا کہ قرآن کی کتابت توقیفی ہے، اِس میں کسی کی رائے کا دخل نہیں، نبی کریم ﷺ کے دور میں جس طرح لکھا گیا، اِس میں عقل اور رائے کی بنا پر کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی گئی۔  لیکن اِس مضمون کو بیان کرنے کے لیے موصوف نے مذکورہ الفاظ استعمال کیے۔

اِس بیان میں موصوف نے سورۃ العلق سے ایک لفظ "لنسفعاً" کی مثال بھی دی۔ اِن سب باتوں سے اُن کا مقصد قرآن کریم کی تعظیم ہی بیان کرنا تھا۔     

ان کا یہ بیان جب وائرل ہوا تو اس پر بہت زیادہ تنقیدیں ہوئیں، چنانچہ اس عالم دین نے فوری طور پر اپنا رجوع اور معذرت نامہ ریکارڈ کروایا، اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا اور اپنے ان الفاظ سے رجوع بھی کیا۔ لیکن بعض حضرات کا دعوی ہے کہ موصوف کے یہ الفاظ پیغمبر ﷺ اور قرآن کی گستاخی کے الفاظ ہیں، جس پر 295-Cکے مطابق قتل کی سزا بنتی ہے۔ پاکستان کے اِس قانون کے مطابق  اگر کوئی شخص نبی ﷺ کی (معاذاللہ) گستاخی کرتا ہے تو دنیا میں اِس کی توبہ قبول نہیں۔ اِس فریق کا حکومت پر دباؤ ہے کہ موصوف کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے اور ان کو گستاخی کی سزا دی جائے۔  

سوال یہ ہے کہ:

 کیا اُن کی یہ بات شرعی اعتبار سے گستاخی کہلائے گی؟ پاکستان میں گستاخی سے متعلق 295-C کے قانون کا اطلاق ان کی اِس بات پر ہوسکتا ہے؟ اِس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ:

(1)۔۔۔ قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس کی طرف ظاہری اعتبار سے بھی غلطی کی نسبت کرنا جائز نہیں۔ یہ کہنا کہ "قرآنِ مجید لکھنے والے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو لفظ جیسا لکھا وہ آج تک ویسا ہی لکھا چلا آرہا ہے، اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کی تصحیح نہیں فرمائی اور وہ الفاظ قرآنِ پاک میں آج بھی اسی طرح موجود ہیں" ہرگز درست نہیں، بلکہ غلط اور خلافِ واقعہ ہے۔

کتابتِ قرآن کا کام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اتفاقی طور پر صادر نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور توقیفی تھا۔ قرآنِ کریم کے رسم (طرزِ تحریر) کا اکثر حصہ قیاسی یعنی عام عربی طرزِ تحریر اور جدید املائی خط کے مطابق ہے، البتہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو رسمِ قیاسی کے مطابق نہیں ہیں، لیکن وہ غلطی یا اتفاق سے ایسی نہیں لکھی گئیں، بلکہ وہ توقیفی یعنی من جانب اللہ ہیں اور قرآنِ کریم کا امتیاز ہے، قرآنِ کریم جس طرح لکھا گیا ہے، اس کی اتباع ہم پر واجب ہے۔ رسمِ عثمانی کا اندازِ تحریر جہاں رسمِ املائی سے ہٹ کر ہے، اس کی کیا حکمتیں ہیں؟ اس سلسلے میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت ہمیں معلوم ہے، جبکہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت ہمیں معلوم نہیں۔ (کتابتِ قرآنِ کریم کے مختلف مراحل اور ان کا تاریخی پسِ منظر، صفحہ: 248-247، مؤلفہ: مولانا قاری خلیل الرحمن صاحب، استاذ ونگران شعبۂ تخصص فی القراءات جامعہ دار العلوم کراچی)

قرآنِ کریم لکھوانے کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کیا تھا؟ اس کو کاتبِ وحی حضرت زید بنِ ثابت رضی اللہ عنہ نے خود بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قرآن مجید املاء کراتے تھے اور میں لکھتا تھا، جب میں لکھنے سے فارغ ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرماتے کہ لکھے ہوئے کو پڑھیں، چنانچہ میں اس کو پڑھتا، اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصحیح فرماتے، اس کے بعد پھر وہ لوگوں کو دیتے۔ یہ روایت معجمِ طبرانی میں منقول ہے اور واضح طور پر بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ کریم کی کتابت کی باقاعدہ نگرانی فرماتے تھے اور اگر اس

میں کوئی کمی بیشی ہوتی تو اس کی تصحیح  فرماتے تھے۔

(ملاحظہ فرمائیں عبارت: 1 تا 5)

(2)۔۔۔ اللہ تعالیٰ، قرآنِ کریم، ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ، سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام اور تمام شعائرِ اسلام کا ادب و احترام انتہائی ضروری اور ان کی ادنیٰ سے ادنیٰ بے ادبی  بھی بہت خطرناک ہے، لہٰذا ان موضوعات پر بات کرتے ہوئے بات کی صحت، الفاظ کے چناؤ اور اسلوبِ کلام پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ بغیر قصد و ارادہ کے بھی بے احتیاطی کی وجہ سے کوئی غلط یا نامناسب بات زبان سے نہ نکلے۔  

(3)۔۔۔ جس طرح شعائرِ اسلام کے تقدس، قرآنِ کریم کی حفاظت اور رسول اللہ ﷺ کے ناموس کے تحفظ میں کوتاہی کرنا جائز نہیں، اسی طرح کسی مسلمان کو بلاوجہ گستاخِ رسول ﷺ یا گستاخِ قرآن کہنا بھی جائز نہیں، سخت حرام ہے۔  

(4)۔۔۔ علمائے اسلام نے اصولِ تکفیر میں یہ قاعدہ ذکر فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی بات کرے جس سے کفر لازم آتا ہو، مگر اس کو اس کا اندازہ نہ ہو، نہ ہی اس بات کا تعلق ضروریاتِ دین سے ہو، نہ ہی اس کا کفر ہونا بالکل واضح ہو، پھر جب اس کو اس بات سے کفر لازم آنے کا علم ہوجائے تو وہ اس کفریہ معنی کے لزوم کا انکار کرے اور کہے کہ میری مراد یہ نہیں تھی، یعنی کفریہ معنی کا التزام نہ کرے  تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا اگر کوئی بات شرعاً غلط ہو، لیکن اس سے کفر لازم نہ آتا ہو تو اس کے قائل کی بدرجۂ اولیٰ تکفیر نہیں کی جائے گی۔ (ملاحظہ فرمائیں عبارت: 6 اور 7)

 (5)۔۔۔ گستاخی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص (معاذ اللہ) رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ گھٹانے اور توہین و تنقیص کرنے کی نیت سے کوئی غلط بات، کام یا اشارہ کرے۔ گستاخی کی اس تعریف کی دلیل اس موضوع سے متعلق قرآنِ کریم کی آیات، احادیثِ کریمہ، فقہائے کرام کی عبارات، عرف، عقل اور خود "295-C" کا قانون ہے۔ لہٰذا اگر صحیح مقصد سے بات کرتے ہوئے کسی انسان سے تعبیر میں کمی بیشی ہوجائے اور ایسی بات زبان سے نکلے جو شرعا درست نہ ہو تو اس تعبیر کی اصلاح ضروری ہوگی، لیکن اس کو گستاخی کہنا اور بات کرنے والے کو گستاخ قرار دینا جائز نہیں ہوگا۔  

(ملاحظہ فرمائیں عبارت: 8 تا 11)

(6)۔۔۔ شرعاً کسی شخص کی بات کا مقصد و مراد متعین کرنے میں جس طرح اس کے بیان کو دیکھا جاتا ہے، اسی طرح (1) عرف میں اس بات کے مطلب اور مفہوم (2) گفتگو کے الفاظ (3) گفتگو کے سیاق و سباق (4) بات کرنے والے کی حالت اور اس کی سوچ و فکر (5) اور گفتگو کے مقام اور محل کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ ان پانچ اسباب کی وجہ سے بات کا معنی، مفہوم اور حقیقت تبدیل ہوتی ہے، جس کی تفصیل اصولِ فقہ میں "ما یترك به حقائق الألفاظ" کی بحث میں دیکھی جا سکتی ہے۔  

(ملاحظہ فرمائیں عبارت: 12)

اصل سوال کا جواب:

آپ نے سوال میں اس عالم کے بیان کا جو حاصل اور پسِ منظر بیان کیا ہے، اس کے مطابق ان کے بیان میں تعبیر کی غلطی اور کمی بیشی موجود تھی، قرآنِ کریم میں جن کلمات کا رسم اور اندازِ تحریر عام اندازِ تحریر سے ہٹ کر ہے، ان کو خلافِ قیاس اور توقیفی کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ کہنا کہ "قرآنِ کریم میں ظاہری اعتبار سے گرامر کی غلطیاں ہیں" ہرگز درست نہیں، جس کی تفصیل اوپر نمبر (1) کے تحت گزر چکی ہے۔ سوال نامہ کی روشنی میں اس عالم نے خلافِ قیاس کی تعبیر "ظاہری طور پر غلطیوں" سے کی ہے جو ہرگز درست نہیں۔

جہاں تک ان کی بیان کردہ مثال " لَنَسْفَعًا " کا تعلق ہے (کہ اس میں نون خفیفہ کو الف کی شکل میں لکھا گیا ہے) تو یہ ان مقامات میں سے نہیں جن کا رسم خلافِ قیاس اور توقیفی ہے، بلکہ یہ عربی زبان کے قواعد کے مطابق ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ صرف و نحو (عربی زبان کی گرامر) کے ماہرین نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ جب نون خفیفہ وقف کی حالت میں آجائے اور اس سے پہلے فتحہ یعنی زبر ہو تو اس کو الف کی شکل میں لکھا جائے گا، چوٹی کے عرب شعراء کے متعدد اشعار اس طرح منقول ہیں۔ سورۂ علق کی مذکورہ آیت کے ذیل میں بھی علومِ قرآنی کے ائمہ اور مفسرینِ عظام رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ " لَنَسْفَعًا " میں اس قاعدے کے مطابق وقف کی تقدیر پر نون خفیفہ کو الف کی شکل میں لکھا گیا ہے، کہ اگر یہاں وقف کیا جائے یا اگر یہاں وقف ہوتا تو نون خفیفہ اس طرح الف کی شکل میں لکھا جاتا، علمِ قراءت کے امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ اپنی کتاب " المقنع في رسم مصاحف الأمصار " میں فرماتے ہیں:

       "نون خفیفہ کو الف کی شکل میں لکھنے پر قرآنِ کریم کے تمام کاتبین کا اتفاق ہے، قرآنِ کریم میں ایسے مقامات کل دو ہیں، ایک سورۂ یوسف میں "ليكونًا من الصاغرين" اور دوسرا سورۂ علق میں " لنسفعًا بالناصية "، اور یہ وقف مراد لینے کی تقدیر پر ہے۔۔۔۔۔۔ جبکہ "أي" کا کلمہ جہاں آیا ہے وہاں اس کو وصل کی تقدیر پر نون کے ساتھ " كأيّن " لکھا گیا ہے۔ رسم میں یہ دونوں مذاہب نون خفیفہ کو دونوں طرح (نون کی شکل میں اور الف کی شکل میں) لکھنے کے جواز پر دلالت کی غرض سے استعمال کیے جاتے ہیں۔"

امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ فنِ قراءت کے دو بڑے امام امام حمزہ اور امام کسائی رحمہما اللہ "لَيَكُونًا" اور " لَنَسْفَعًا " کو وقف کے ساتھ پڑھتے تھے۔

خلاصہ یہ کہ " لَنَسْفَعًا " کو عربی زبان کے قواعد کے اعتبار سے "ظاہری طور پر غلط" کہنا یا قاعدے اور قیاس سے ہٹ کر کہنا درست نہیں۔

(ملاحظہ فرمائیں عبارت: 13 تا 30)

تاہم سوال میں ذکر کردہ اس عالم کے بیان کے سیاق و سباق سے بالکل واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد قرآنِ کریم یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کم کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کی عظمت بیان کرنا تھا، البتہ رسمِ قرآنی کے علم سے ناواقفیت کی بنیاد پر ان سے تعبیر میں غلطی ہوگئی، اور جب ان کو اس کا ادراک ہوا تو انہوں نے اپنی غلطی سے رجوع کر کے اس کی تصحیح کرلی ، اس سے لازم آنے والی بات کا التزام نہیں کیا، اس لیے تعبیر کی یہ غلطی اور کمی بیشی شرعا گستاخی کے زمرے میں نہیں آئے گی، نہ ہی اس پر توہینِ رسالت کے قانون "295 سی" کا اطلاق ہوگا۔ پاکستانی قانون کے مطابق توبہ قبول نہ ہونے کی بات گستاخی کرنے اور ثابت ہوجانے کے بعد لاگو ہوتی ہے، صورتِ مسئولہ میں جب گستاخی نہیں ہوئی ہے تو اس عالمِ دین پر گستاخی کا حکم لگانا اور ان کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کے لیے دباؤ ڈالنا شرعا جائز نہیں، صحیح حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے شخص پر ایسے گناہ یا کفر کا الزام لگاتا ہے جو اس میں موجود نہ ہو تو اس کا وبال الزام لگانے والے پر ہی لوٹ کر آتا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر:31)

حوالہ جات

(1) مناهل العرفان في علوم القرآن للزرقاني(1/ 377):

هل رسم المصحف توقيفي؟ للعلماء في رسم المصحف آراء ثلاثة:

الرأي الأول : أنه توقيفي لا تجوز مخالفته. وذلك مذهب الجمهور. واستدلوا بأن النبي صلى الله عليه وسلم كان له كتاب يكتبون الوحي وقد كتبوا القرآن فعلا بهذا الرسم وأقرهم الرسول على كتابتهم ومضی عهده صلى الله عليه وسلم والقرآن على هذه الكتبة لم يحدث فيه تغيير ولا تبديل، بل ورد أنه صلى الله عليه وسلم كان يضع الدستور لكتاب الوحي في رسم القرآن وكتابته. ومن ذلك قوله لمعاوية وهو من كتبة الوحي: "ألق الدواة وحرف القلم وأنصب الباء وفرق السين ولا تعور الميم وحسن الله ومد الرحمن وجود الرحيم وضع قلمك على أذنك اليسرى فإنه أذكر لك" .

ثم جاء أبو بكر فكتب القرآن بهذا الرسم في صحف ثم حذا حذوه عثمان في خلافته فاستنسخ تلك الصحف في مصاحف على تلك الكتبة وأقر أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عمل أبي بكر وعثمان رضي الله عنهم أجمعين وانتهى الأمر بعد ذلك إلى التابعين وتابعي التابعين فلم يخالف أحد منهم في هذا الرسم ولم ينقل أن أحدا منهم فكر أن يستبدل به رسما آخر من الرسوم التي حدثت في عهد ازدهار التأليف ونشاط التدوين وتقدم العلوم. بل بقي الرسم العثماني محترما متبعا في كتابة المصاحف لا يمس استقلاله ولا يباح حماه.

وملخص هذا الدليل أن رسم المصاحف العثمانية ظفر بأمور كل واحد منها يجعله جديرا بالتقدير ووجوب الاتباع. تلك الأمور هي إقرار الرسول صلى الله عليه وسلم عليه وأمره بدستوره، وإجماع الصحابة وكانوا أكثر من اثني عشر ألف صحابي عليه ثم إجماع الأمة عليه بعد ذلك في عهد التابعين والأئمة المجتهدين…………. الخ

(2) المعجم الأوسط للطبراني(2/ 257):

حدثنا أحمد بن محمد بن نافع قال حدثنا أبو الطاهر بن السرح قال وجدت في كتاب خالي حدثني عقيل بن خالد عن بن شهاب قال حدثني سعيد بن سليمان عن أبيه سليمان بن زيد بن ثابت عن جده زيد بن ثابت قال : كنت أكتب الوحي لرسول الله، وكان إذا نزل عليه أخذته برحاء شديدة وعرق عرقا شديدا مثل الجمان، ثم سري عنه، فكنت أدخل عليه بقطعة الكتف أو كسرة، فأكتب وهو يملي علي، فما أفرغ حتى تكاد رجلي تنكسر من ثقل القرآن، وحتى أقول لا أمشي على رجلي أبدا، فإذا فرغت قال: اقرأه، فأقرأه، فإن كان فيه سقط أقامه، ثم أخرج به إلى الناس.

(3) محاضرات في علوم القرآن - غانم قدورى (ص: 53):

وكانت كتابة القرآن في زمن النبي صلى الله عليه وسلم تخضع للمراجعة والتدقيق في مرحلتين: الأولى عند كتابة الآيات التي ينزل بها جبريل على النبي صلى الله عليه وسلم، والثانية مراجعة القطع التي كتب عليها القرآن وترتيبها. روى سليمان بن زيد بن ثابت عن أبيه زيد أنه قال: «كنت أكتب الوحي عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يملي عليّ، فإذا فرغت قال: اقرأه، فأقرؤه، فإن کان فيه سقط أقامه، ثم أخرج به إلى الناس». ومعنى قوله: (فإن كان فيه سقط أقامه) إن وجد في الكتابة نقصا أصلحه.

(4) جمع القرآن الكريم حفظا وكتابة (ص: 30-27):

لقد وردت أدلة كثيرة تدل على كتابة القرآن الكريم في عهده صلى الله عليه وسلم ومبادرته بالأمر بكتابته أذكر منها ما يلي :… ……. السابع: مراجعته صلى الله عليه وسلم للكُتَّاب بعد كتابتهم لما ينزل، فقد أخرج الطبراني عن زيد بن ثابت أنه قال: « كنت أكتب الوحي عند رسول الله وهو يملي عليَّ، فإذا فرغت، قال: اقرأه، فأقرأه، فإن كان فيه سقط أقامه ».

(5) جمع القرآن - دراسة تحليلية لمروياته (ص: 39):

وكانت كتابة القرآن تخضع للمراجعة والتدقيق، حتى لا يتطرق احتمال الخطأ والنقصان إلى كتاب الله تعالى. فقد ورد عن زيد بن ثابت أنه قال: (كنت أكتب الوحي عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يملي علي، فإذا فرغت قال: اقرأه، فأقرؤه، فإن كان فيه سقط أقامه، ثم أخرج به إلى الناس). فكان زيد رضي الله عنه من أكثر الصحابة كتابة…. الخ

(6) إکفار الملحدین في ضروریات الدین (ص:73):

 والحاصل في مسألة اللزوم والالتزام أن من لزم من رأیه کفر لم یشعر به، وإذا وقف علیه أنکر اللزوم، وکان في غیر الضروریات، وکان اللزوم غیر بین فهو لیس بکافر. وإن سلم اللزوم وقال: إن اللازم لیس بکفر، وکان عند التحقیق کفرا فهو إذن کافر.

(7) جامع العلوم في اصطلاحات الفنون (1/ 113):

التزام الكفر كفر دون لزومه، نعم لزوم الكفر المعلوم كفرأيضا؛ لأنه في الحقيقة التزام الكفر، كما بينا في الأقنوم .

(8) القرآن الکریم،:

{إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا}  [الأحزاب: 57]

 (9) صحيح البخاري (3/ 142):

حدثنا علي بن عبد الله حدثنا سفيان قال عمرو سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لكعب بن الأشرف؟ فإنه قد آذى الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، فقال محمد بن مسلمة: أنا………. الحدیث

(10) الخراج للإمام أبي يوسف (ص: 182):

قال أبو يوسف: وأيما رجل مسلم سب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو كذبه أو عابه أوتنقصه فقد كفر بالله وبانت منه زوجته.

(11)Pakistan Penal Code(page: 103):

[295-C.] Use of derogatory remarks, etc., in respect of the Holy Prophet:

Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation

or by any imputation, innuendo, or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) shall be punished with death, and shall also be liable to fine.

(12) أصول الشاشي (ص: 85):

فصل فيما يترك به حقائق الألفاظ: وما يترك به حقيقة اللفظ خمسة أنواع: أحدها دلالة العرف……  والثاني قد تترك الحقيقة بدلالة في نفس الكلام…… والثالث قد تترك الحقيقة بدلالة سياق الكلام  والرابع قد تترك الحقيقة بدلالة من قبل المتكلموالخامس وقد تترك الحقيقة بدلالة محل الكلام.

(13) شرح الأشمونى على ألفية ابن مالك (1/ 292):

(وَأَبْدِلَنْهَا بَعْدَ فَتْحٍ ألِفَا وَقْفاً) أي واقفاً، ويحتمل أن يكون مفعولاً له أي لأجل الوقف، وذلك لشبهها بالتنوين (كَمَا تَقُولُ فِي قِفَنْ قِفَا)، ومنه «لنسفعاً وليكوناً» وقوله:  1021 ــــ وَلاَ تَعْبُدِ الشَّيطَانَ وَاللَّه فَاعْبُدَا، وقوله: 1022 ــــ فَمَنْ يَكُ لَمْ يَثْأرْ بِأعْرَاضِ قَومِهِ ٭ فَإنِّي وَرَبِّ الرَّاقِصَاتِ لأَثْأَرَا.

(14) شرح قطر الندى (ص: 327):

يجب في الوقف قلب النون الساكنة الفا في ثلاث مسائل:

 إحداها: إذا هذا هو الصحيح وجزم ابن عصفور في شرح الجمل بأنه يوقف عليها بالنون وبنى على ذلك أنها تكتب بالنون وليس كما ذكر، ولا تختلف القراء في الوقف على نحو ولن تفلحوا إذا أبدا أنه بالألف. الثانية: نون التوكيد الخفيفة الواقعة بعد الفتحة كقوله تعالى "لنسفعًا" و "ليكونًا" وقف الجميع عليها بالألف، قال الشاعر: وإياك والميتات لا تقربنها ٭ ولا تعبد الشيطان والله فاعبدا،أصله أعبدن…….. لما ذكرت الوقف على هذه الثلاثة ذكرت كيفية رسمها في الخط استطرادا فذكرت أن النون في المسائل الثلاث تصور ألفا على حسب الوقف۔

(15) شرح ألفية ابن مالك للشاطبي (5/ 572):

ثم قال: "وأبدلنها بعد فتحٍ ألفًا وقفًا"، يريد أنك إذا وقفت على النون الخفيفة، وكان ما قبلها مفتوحا، فلابد من إبدالها ألفًا، ولا يجوز الوقف عليها وهي على حالها، فلا تقول: يا زيد قفن، وإنما يقال: يا زيد قفا. وكذلك: يا زيد ارضيا، وهل تقضيا؟ وهل تدعوا؟ في (ارضين، وهل تقضين؟ وهل تدعون؟ ) ووجه ذلك: شبهها بالتونين، فكما أنهم يبدلونه في الوقف إذا تبع المفتوح ألفًا، فتقول: رأيت زيدًا، وأكرمت عمرا، فكذلك هنا، فهما متساويان في الوقف هنا، يحذفان مع المضموم والمكسور، ويبدلان ألفًا مع المفتوح. ومن مثل هذه المسألة قوله تعالى: {ليسجنن وليكونًا من الصاغرين}. وقوله: {كلا لئن لم ينته لنسفعًا} القراء كلهم على إبدالها في الوقف ألفًا. وقال الشاعر، أنشده سيبويه: "يحسبه الجاهل ما لم يعلما "، وأنشد أيضًا قول الآخر:  "ولا تعبد الشيطان والله فاعبدا "، وأنشد أيضا قول الآخر: متى تأتنا تلمم بنا في ديارنا ... تجد حطبًا جزلًا ونارًا تأججا………….الخ

(16) المقنع في رسم مصاحف الأمصار للإمام أبي عمرو الداني(ص: 13)

فصل: قال أبو عمرو: واجتمع أيضا كُتَّابُ المصاحف على رسم النون الخفيفة ألفاً، وجملة ذلك موضعان: في يوسف " وليكونًا من الصاغرين " وفي العلق " لنسفعًا بالناصية "، وذلك على مراد الوقف. وكذلك رسموا النون ألفاً لذلك في قوله " وإذاً لا يلبثون " و " فإذًا لا يؤتون الناس " و " وإِذًا لأذقناك " و " قد ضللت إذًا " ….  وكذلك رسموا نوناً في قوله " وكأيّن " حيث وقع، وذلك على مراد الوصل. والمذهبان قد يستعملان في الرسم دلالةً على جوازهما فيه.

(17) الإتقان في علوم القرآن للإمام السیوطي(1/ 520):

96 - النون  على أوجه : اسم، وهي ضمير النسوة، نحو "فلما رأينه أكبرنه وقطعن أيديهن وقلن"، وحرف، وهي نوعان: نون التوكيد، وهي خفيفة وثقيلة، نحو ليسجنن، وليكونا، و لنسفعا بالناصية، ولم تقع الخفيفة في القرآن إلا في هذين الموضعين.

قلت: وثالث في قراءة شاذة، وهي فإذا جاء وعد الآخرة ليسوءا وجوهكم،  ورابع: في قراءة الحسن ألقيا في جهنم، ذكره ابن جني في المحتسب.

(18) إتحاف فضلاء البشر فى القراءات الأربعة عشر (ص: 136):

تتمة: من أحكام الوقف المتفق عليه في القرآن إبدال التنوين بعد فتح غير هاء التأنيث ألفا، وحذفه بعد ضم وكسر، ومنه إبدال نون التوكيد الخفيفة بعد فتح ألفا، نحو ( ليكونا ولنسفعا ).

(19) التبيان في إعراب القرآن لأبي البقاء العکبري(2/ 290):

    قوله تعالى "لنسفعًا" إذا وقف على هذه النون أبدل منها ألفا؛ لسكونها وانفتاح ما قبلها.

(20) غرائب القرآن ورغائب الفرقان (6/ 533):

(وقد كتب ) "لنسفعا"  في المصحف بالألف على حكم الوقف؛ لأن النون الخفيفة المؤكدة يوقف عليه بالألف.

(21) العميد في علم التجويد (ص: 15):

الفرق بين النون الساكنة والتنوين: والفرق بين النون الساكنة والتنوين يكون من خمسة أمور تظهر بتأمل التعريفين السابقين، وهى:………….. الرابع: النون الساكنة تكون فى الأسماء، والأفعال، والحروف، والتنوين لا يكون إلا فى الأسماء دون الأفعال والحروف.

ويستثنى من ذلك نون التوكيد الخفيفة التى لم تقع إلا فى موضعين فى القرآن، وهما " وَلَيَكُوناً

مِنَ الصَّاغِرِينَ" بيوسف و "لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ" بالعلق؛ فإنها نون لاتصالها بالفعل لا تنوين، وإن كانت غير ثابتة خطا ووقفا كالتنوين، فهى إذا نون ساكنة شبيهة بالتنوين.

(22) تفسير البيضاوي (ص: 511):

{ كلا } ردع للناهي { لئن لم ينته } عما هو فيه { لنسفعا بالناصية } لنأخذن بناصيته ولنسحبنه بها إلى النار والسفع القبض على الشيء وجذبه بشدة وقرئ لنسفعن بنون مشددة و لأسفعن، وكتابته في المصحف بالألف على حكم الوقف.

(23) تفسير الطبري (16/ 86):

وأما قوله:(وليكونًا) فإن الوقف عليه بالألف، لأنها النون الخفيفة، وهي شبيهة نون الإعراب في الأسماء في قول القائل:"رأيت رجلا عندك"، فإذا وقف على"الرجل" قيل:"رأيت رجلا" ، فصارت النون ألفا. فكذلك ذلك في:"وليكونا" ، ومثله قوله:( لنسفعا بالناصية ناصية کاذبة)، [سورة العلق: 15، 16] الوقف عليه بالألف لما ذكرت ; ومنه قول الأعشي: "وصل على حين العشيات والضحى... ولا تعبد الشيطان والله فاعبدا"، وإنما هو:"فاعبدن" ، ولكن إذا وقف عليه كان الوقف بالألف.

(24) الجامع لأحكام القرآن للقرطبي(9/ 184)

{وَليَكُوناً مِنَ الصَّاغِرِينَ} أي الأذلاء. وخط المصحف "وليكونا" بالألف، وتقرأ بنون مخففة للتأكيد ؛ ونون التأكيد تثقل وتخفف، والوقف على قوله : "ليسجنن" بالنون؛ لأنها مثقلة ، وعلى "ليكونا" بالألف لأنها مخففة، وهي تشبه نون الإعراب في قولك : رأيت رجلا وزيدا وعمرا ، ومثله قوله : {لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ} ونحوها الوقف عليها بالألف ، كقول الأعشى : ولا تعبد الشيطان والله فاعبدا، أي أراد فاعبدن، فلما وقف عليه كان الوقف بالألف.

(25) تفسير الرازى (ص: 2515):

قوله : {وَلَيَكُونًا} كان حمزة والكسائي يقفان على {وَلَيَكُونًا} بالألف، وكذلك قوله : {لَنَسْفَعَا } (العلق : 15) والله أعلم.

(26) التحرير والتنوير (30/ 450):

وجملة ( لنسفَعَنْ ) جواب القسم ، وأما جواب الشرط فمحذوف دل عليه جواب القَسَم ……..والنون نون التوكيد الخفيفة التي يكثر دخولها في القسم المثبَت ، وكتبت في المصحف ألِفاً رعياً للنطق لها في الوقف؛ لأن أواخر الكلِم أكثر ما ترسم على مراعاة النطق في الوقف.

(27) اللباب في علوم الكتاب (11/ 94):

قوله : ( وَلَيَكُوناً ( قرأ العامة يتخفيف نون " وليَكُوناً " ، ويقفون عليها بالألف ؛ إجراءً لها مجرى التنوين ، ولذلك يحذفونها بعد ضمةٍ ، أو كسرةٍ ، نحو : هل تقومون ؛ وهل تقومين ؟ في : هل

تقومن ؟ والنونُ الموجودة في الوقف ، نونُ الرفع ، رجعوا بها عند عدم ما يقتضي حذفها ،

وقد تقرر فيما تقدَّم أنَّ نون التوكيدِ تثقَّلن وتخفف، والوقفُ على قوله : " ليُسْجَنَنَّ " بالنُّونِ ؛ لأنَّها  مشددةٌ ، وعلى قوله : " وليَكُوناً " بالألف ؛ لأنها مخففةٌ ، وهي شبيهةٌ بنون الإعراب في الأسماءْ؛ كقولك : رأيتُ رجلاً ، وإذا وقفت قلت : رجلا ، بالألف ، ومثله : (لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ) [ العلق : 15 ]

(28) المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز (3/ 251)

واللام في قوله " ليسجنن " لام القسم واللام الأولى هي المؤذنة بمجيء القسم والنون هي الثقيلة والوقف عليها بشدها و " ليكونا " نونه هي النون الخفيفة والوقف عليه بالألف وهي مثل قوله " لنسفعا " ومثلها قول الأعشى:  ( وصل على حين العشيات والضحى ٭ ولا تعبد الشيطان والله فاعبدا ) " الطويل " أراد فاعبدن.

(29) التفسير المظهرى (ص: 1882):

   وَلَيَكُوناً بنون التأكيد الخفيفة تنقلب الفا وقفا؛ لشبهها بالتنوين، نظيره "لنسفعًا".

(30) التفسير المنير للزحيلي (30/ 322):

لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ، ناصِيَةٍ كاذِبَةٍ خاطِئَةٍ نون نسفعن نون التوكيد الخفيفة، وتكتب بالألف عند البصريين كالتنوين، وبالنون عند الكوفيين، وهي مكتوبة في المصحف بالألف، كمذهب البصريين، مثل: وَلَيَكُوناً مِنَ الصَّاغِرِينَ [يوسف 12/ 32] وليس في القرآن لهما نظير.

 (31) صحيح البخاري (8/ 15):

عن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لايرمي رجل رجلا بالفسوق ولا يرميه بالكفر إلا ارتدت عليه إن لم يكن صاحبه كذلك.

عبداللہ ولی 

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی پاکستان

15/جمادی الاولی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب