03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشر کے متفرق مسائل

ٹھیکے پر دی گئی زمین کے عشر کا حکم:

اگر زمین کے مالک نے زمین اجرت مٕثل سے کم پر اجارہ پر دی ہو تو عشر مستاجر کے ذمے لازم ہوگا اور اگر اجرت مثل یا اس سے زیادہ پر دی ہو تو پھر مؤجر پرلازم ہوگا،آج کل عمومی رجحان اجرت مثل سے کم اجرت پر دینے کا ہے،اس لیے عام طور پر فتوی یہی دیا جاتا ہے کہ عشر مستاجر کے ذمے لازم ہوگا۔"الدر المختار " (2/ 334)

بٹائی پر دی گئی زمین میں عشر کا حکم:

اگر تخم یعنی بیج کاشتکار کا ہو تو ہرایک کے ذمے اپنے حصے میں سے عشرادا کرنالازم ہے اور اگر تخم بھی زمیندار کا ہو تو پھر سارا عشر زمیندار پر ہوگا۔"الدر المختار " (2/ 335)

عاریت پر دی گئی زمین کے عشر کا حکم:

اگر کسی نے اپنی زمین بغیر کسی معاوضے کے کسی کو دے دی اور اس  نے اس سے پیداوار حاصل کی تو اس پیداوار کا عشر زمین کے مالک پر نہیں ہوگا،بلکہ جسے زمین عاریت پر دی گئی ہے اس کے ذمے لازم ہوگا۔"بدائع الصنائع " (2/ 56)

فصل کاٹنے سے پہلے بیچنے کی صورت میں عشر کا حکم:

1۔فصل اگنے کےبعد پکنے سے پہلے بیچی اور مشتری نے پکنے سے پہلے کاٹ دی تو عشر بائع پرلازم ہوگا۔

2۔فصل اگنے کے بعد پکنے سے پہلے بیچی،لیکن مشتری نے پکنے کے بعد کاٹی تو عشر مشتری پر لازم ہوگا۔

3۔فصل پکنے کے بعد بیچی تو عشربائع کے ذمے لازم ہوگا۔"الفتاوى الهندية" (1/ 187):

مقروض کے ذمے عشر کا حکم:

قرض وجوبِ عشر سے مانع نہیں ہے،لہذا مقروض کے ذمے بھی اپنی کل پیداوار میں سے عشر کی ادائیگی لازم ہے،کل پیداوار میں سے قرض و دین کی مالیت نکال کر بقیہ کا عشر ادا کرنا درست نہیں۔

مذکورہ  بالا حکم امام صاحب کے اس قول پر مبنی ہے جو ظاہر الروایہ ہے،البتہ غیر ظاہر الروایہ کے مطابق امام صاحب کے نزدیک قرض ودین کو عشر میں سے منہا کیا جائےگا اور جس پر کوئی قرض وغیرہ ہو وہ اس مقدار کو نکال کر باقی پیداوار کا عشر ادا کرے گا،چاہے وہ دین اس کے ذمے اس فصل کی وجہ سے لازم ہوا ہویا کسی اور وجہ سے واجب ہوا ہو۔

جدہ کی فقہ اکیڈمی نے غیر ظاہر الروایہ قول کے مطابق قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فصل اگانے کی مد میں لازم ہونے والے دین کو کل پیداوار میں سے منہا کرکے عشر دیا جائے گا،بشرطیکہ وہ دین اپنے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے لازم ہواہو۔

لہذا جو شخص قرض و دین منہا کئے بغیر بسہولت عشر اداء کرسکتا ہواسے ظاہر الروایہ والے قول پر عمل کرتے ہوئے ضرور اداء کرنا چاہیے اور جسے مالی تنگی کا سامنا ہو اور کل پیداوار سے عشر نکالنے  میں دقت پیش آرہی ہو وہ دوسرے قول کے مطابق قرض دین منہا کرکے بقیہ کا عشر اداء کرےتو اس کی بھی گنجائش ہے۔"الدر المختار " (2/ 326)

خودروگھاس اور درختوں میں عشر کا حکم:

ایسی خودرو گھاس اور درخت جو بغیر اگائے اگ جاتے ہیں ان میں عشر لازم نہیں۔"البحر الرائق " (2/ 256)

شہد میں عشر کاحکم:

شہد میں عشر لازم ہے،چاہے اپنی مملوکہ زمین میں لگے درختوں سے حاصل کیا گیا ہویا جنگل اور پہاڑوں میں لگے درختوں سے حاصل کیا گیا ہو۔"الدر المختار " (2/ 325)

ذاتی استعمال کے لیے لگائی گئی سبزیوں میں عشر کاحکم:

کھیت میں لگائی گئی سبزیوں میں عشر لازم ہے،چاہے انہیں ذاتی استعمال کے لیے لگایا گیا ہویا منڈی میں فروخت کرنے کے لیے،البتہ گھروں کی کیاریوں میں لگی سبزیوں میں عشر لازم نہیں۔"رد المحتار" (2/ 330)

ٹیکس کی ادائیگی سے عشر ادا نہیں ہوگا:

حکومت زمین کے مالکان سے جو سرکاری ٹیکس وصول کرتی ہے،نہ وہ اسے عشر وخراج کے اصولوں کے مطابق وصول کرتی ہے اور نہ حکومت اسے عشر کے مصارف میں خرچ کرنے کا خود کو پابند سمجھتی ہے،اس لیے حکومت کو زمین کا ٹیکس دینے سے عشر ادا نہیں ہوگا،بلکہ علیحدہ سے نکالنا لازم ہوگا۔

عشرمعاف کرنے کا حکم:

اس مسئلے کا حاصل درج ذیل چار صورتیں  ہیں:

1۔سلطان شرعی حکم سے جہالت یا غفلت کی وجہ سے رعایا میں سے کسی سے بھی عشر وصول نہ کرے،یعنی کوئی انتظام ہی نہ کیا ہو تو اس صورت میں رعایا پر ازخود ادائیگی لازم ہوگی۔

2۔ایک آدھ ایسے شخص کو معاف کرے جو نہ عشر کا مصرف ہو اور نہ خراج کاتو اس صورت میں سلطان کے ذمے اپنے ذاتی مال میں سے اتنی رقم صدقہ کے بیت المال میں جمع کرانا لازم ہوگا۔

3۔ایسے شخص کو معاف کرے جو خراج کا مصرف ہو،لیکن عشر کا مصرف نہ ہو تو سلطان کے ذمے لازم ہوگا کہ اتنا مال خراج کے خزانے سے نکال کر صدقہ کے خزانے میں جمع کرادے۔

4۔ایسے شخص کو معاف کرے جو عشر کا بھی مصرف ہو تو اس صورت میں سلطان کے زمے کچھ لازم نہ ہوگا۔

نیز دوسری اور تیسری صورت میں اگر سلطان نے صدقہ کے بیت المال میں رقم جمع نہ کرائی تو صاحب ارض کے ذمے  اتنی رقم کا تصدق لازم ہوگا۔

"الفتاوى الهندية "(2/ 240):
"قال محمد - رحمه الله تعالى - السلطان إذا جعل العشر لصاحب الأرض لا يجوز، هذا بلا خلاف، وذكر شيخ الإسلام أن السلطان إذا ترك العشر على صاحب الأرض، فهو على وجهين: الأول أن يترك إغفالا منه بأن نسي، ففي هذا الوجه كان على من عليه العشر أن يصرف قدر العشر إلى الفقير والثاني إذا تركه قصدا مع علمه به وأنه على وجهين أيضا إن كان من عليه العشر غنيا كان له ذلك جائزة من السلطان، ويضمن السلطان مثل ذلك من مال بيت مال الخراج لبيت مال الصدقة، وإن كان من عليه العشر فقيرا محتاجا إلى العشر، فترك ذلك عليه جائز وكان صدقة عليه، فيجوز كما لو أخذ منه، ثم صرفه إليه كذا في الذخيرة".
"رد المحتار" (4/ 193):
"(قوله معزيا للبزازية) وذلك حيث قال: وفي البزازية السلطان إذا ترك العشر لمن هو عليه جاز، غنيا كان أو فقيرا، لكن إن كان المتروك له فقيرا فلا ضمان على السلطان، وإن كان غنيا ضمن السلطان العشر للفقراء من بيت مال الخراج لبيت مال الصدقة. اهـ. قلت: وينبغي حمله على ما إذا كان الغني من مستحقي الخراج، وإلا فينبغي أن يضمن السلطان ذلك من ماله تأمل".

نوٹ:

مذکورہ بالا عبارات کے بالمقابل شامیہ میں مذکور سراج کےدرج ذیل  جزئیہ  سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کو عشر معاف کرنے کا اختیار حاصل نہیں:

الدر المختار (4/ 193)
 (ولو ترك العشر لا) يجوز إجماعا ويخرجه بنفسه للفقراء سراج،قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله لا يجوز إجماعا) لعل وجهه أن العشر مصرفه مصرف الزكاة لأنه زكاة الخارج، ولا يكون الإنسان مصرفا لزكاة نفسه بخلاف الخراج، فإنه ليس زكاة ولذا يوضع على أرض الكافر هذا ما ظهر لي تأمل

 بظاہر اس جزئیہ اور ہندیہ و بزازیہ کی مذکورہ بالا عبارات میں باہم تضاد معلوم ہوتا ہے،ا ن میں حضرت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ  نے دو طرح تطبیق دی ہے:

1۔سراج کا جزئیہ اس شخص سے متعلق ہے جو مصرف نہ ہو،جبکہ بزازیہ کا اس شخص سے متعلق ہے جو مصرف ہو۔

2۔سراج کے جزئیہ میں موجود لفظ لایجوز سے مراد سلطان پر ضمان کا لزوم ہے،چاہے اپنے مال سے ہویا پھر خراج کے بیت المال سے  اور بزازیہ کے جزئیہ میں موجود لفظ جاز سے مراد حلال ہونا ہے،نہ سلطان کے ذمے ضمان کا عدم لزوم۔

"الدر المختار " (2/ 337):
"ولو ترك العشر لا يجوز إجماعا ويخرجه بنفسه للفقراء سراج خلافا لما في قاعدة: تصرف الإمام منوط بالمصلحة من الأشباه معزيا للبزازية فتنبه. اهـ.
قلت: والذي في الأشباه عن البزازية إذا ترك العشر لمن عليه جاز غنيا كان أو فقيرا لكن إن كان المتروك له فقيرا فلا ضمان على السلطان وإن كان غنيا ضمن السلطان العشر للفقراء من بيت مال الخراج لبيت مال الصدقة اهـ.
قلت: وما في الأشباه ذكر مثله في الذخيرة عن شيخ الإسلام بقوله: لو غنيا كان له جائزة من السلطان، ويضمن مثله من بيت الخراج لبيت الصدقة ولو فقيرا كان صدقة عليه فيجوز كما لو أخذه منه ثم صرفه إليه ولذا قالوا بأن السلطان إذا أخذ الزكاة من صاحب المال فافتقر قبل صرفها للفقراء كان له أن يصرفها إليه كما يصرفها إلى غيره".

مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی