23551.46 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
مجھےکافی عرصہ سے وہم کی بیماری ہے،لیکن اب کچھ عرصہ سے مجھے طلاق کا وہم ہونے لگا ہے ،ہر وقت طلاق کا وہم ہوتا ہے کام کرتے ہوئے ،کھانا کھاتے ہوئے وغیرہ لیکن زبان سے طلاق کا تلفظ نہیںکرتا ،اور کبھی کبھار جب طلاق کا وہم ہوتا ہے تو لکھ لیتا ہوںکہ وہ محض وہم تھا حقیقت میںکچھ نہ تھا،اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ نیزیہ بھی بتائیں کہ نفسیاتی کی طلاق کب واقع ہوتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ طلاق کے وقوع کےلیے زبان سے طلاق کے الفاظ کا ادا ہونا ضروری ہے، یا الفاظ کے قائم مقام کوئی چیز ہوجو الفاظ اور ارادہ پر دلالت کرے، تو اس سے طلاق واقع ہوتی ہے، جیسے کوئی تحریر وغیرہ، دل میں محض طلاق کا خیال آنے کی وجہ سے یا محض وہم کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی؛ لہذ اصورتِ مسئولہ میں اگر آپ کو صرف دماغ میں طلاق کا خیال آیا ہو یا وہم ہواہو، تو اس طرح خیال اور وہم سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،آپ ان وساوس کی طرف توجہ نہ دیں، جب وسوسے آئیں تو اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کردیں فارغ نہ بیٹھیں، یا کسی اور موضوع پر گفتگو شروع کردیں، نیز کچھ صدقہ کرنے کا اہتمام کریں اور ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت کریں تاکہ یہ وساوس ختم ہوں ۔
حوالہ جات
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 135):
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «إن الله تجاوز عن أمتي ما وسوست به صدورها، ما لم تعمل به، أو تتكلم» " متفق عليه
«الخواطر إن كانت تدعو إلى الرذائل فهي وسوسة ۔۔۔۔۔۔ أى ما خطر في قلوبهم من الخواطر الرديئة۔۔۔۔۔( ما لم تعمل به):أى ما دام لم يتعلق به العمل إن كان فعليا (أو تكلم) : أي: ما لم تتكلم به إن كان قوليا كذا في الأزهار.
وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: «وشرعا (رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص) هو ما اشتمل على الطلاق ۔۔۔(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية ۔۔۔وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس۔۔۔ الخ.)الدرالمختار:3/ 230)
وقال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل موسوس لأنه يحدث بما في ضميره وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس قال: يعني المغلوب في عقله . (الدرالمختار:4 / 224)
السماع شرط فيما يتعلق بالنطق باللسان ۔۔۔۔ حتى لو أجرى الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لا يقع وإن صحح الحروف . (مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح: 84 )
فقد أفاد أن ركنه (اى الطلاق ) شرعا اللفظ الدال على إزالة حل المحلية.( البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 3/ 252)
(و) أدنى (الجهر إسماع غيره، و أد نى المخافتة إسماع نفسه) ومن بقربه۔۔۔(ويجري ذلك) المذكور (في كل ما يتعلق بنطق، كتسمية على ذبيحة ۔۔۔وعتاق وطلاق الخ .(الدرالمختار : 1/ 535)
عبدالوحید طاہر
دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
15جمادی الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالوحید بن محمد طاہر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |