03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنا حق بتائے بغیر وصول کرنے کا حکم
85449خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

ایک شخص نے ماضی میں ایک پولیس افسر  کے لیے مکان تعمیر کیا۔ مکان کی تعمیر کے دوران اس شخص کو 50 ہزار روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا، لیکن دوستی کی وجہ سے وہ یہ نقصان پولیس افسر کے سامنے ظاہر نہیں کر سکا اور نہ ہی اس نقصان کی رقم کا مطالبہ کر سکا۔اب وہی پولیس افسر ایک اور مکان تعمیر کروا رہا ہے، اور اتفاقاً اسی شخص کو اس گھر کی تعمیر کا کام ملا۔ یہ شخص سوچتا ہے کہ کیا وہ اس بار مکان کی تعمیر کے اخراجات میں 50 ہزار روپے شامل کر کے، جو اس نے پہلے نقصان کے طور پر برداشت کیے تھے، اس نقصان کی تلافی کر سکتا ہے؟ اس کا ارادہ ہے کہ یہ اضافی رقم تعمیراتی سامان (جیسے بلاک سیمنٹ وغیرہ) کے خرچ میں ظاہر کرے تاکہ پولیس افسر سے یہ رقم وصول کی جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح نقصان کی تلافی کا یہ طریقہ شریعت کے مطابق درست ہوگا یا نہیں؟ برائے  کرم اس معاملے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ پہلے معاملے میں پولیس افسر کے خوف کی وجہ سے وہ اپنے پیسے طلب نہیں کر سکا، کیونکہ اگر پیسے مانگتا تو پولیس افسر کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتا تھا یا بلاوجہ کسی جھوٹے مقدمے میں ملوث کر سکتا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے نقصان کے ازالے کا مطالبہ صاف گوئی اور دیانتداری کے ساتھ متعلقہ پولیس افسر کے سامنے پیش کرے۔ اگر پولیس افسر اس مطالبے کو پورا نہ کرے، تو شریعت اس شخص کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے حق کی وصولی کے لیے، پولیس افسر کی اجازت کے بغیر، اس کے مال میں سے اپنا حق وصول کرے۔ تاہم، اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اپنے حق سے زیادہ نہ لیا جائے، کیونکہ ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ مزید برآں، ایسی تدبیر سے بھی اجتناب کیا جائے جو قانونی طور پر چوری یا غیر قانونی عمل شمار ہو۔

حوالہ جات

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) : (4/ 95)

"وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس للمجانسة في المالية. قال في المجتبى وهو أوسع فيعمل به عند الضرورة.

(قوله: وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفاً. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع، فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة، كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا: إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري: أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق، والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان، لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق:عفاء على هذا الزمان فإنه ... زمان عقوق لا زمان حقوق وكل رفيق فيه غير مرافق ... وكل صديق فيه غير صدوق".

محمد ادریس

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

15/جماد الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن محمدغیاث

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب