85530 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
اگر زید کے اپنے خریداری کےوکیل عمر کو مال فروخت کرنے سے پہلے زید کا مال پر قبضہ ضروری ہے تو قبضہ کا طریقہ کیا ہوگا؟ مثلا اگر مال موبائل اسیسریز ہوں تو زید اس پر قبضہ کیسے کرے گا؟ عمر کی دکان پر مال ہوگا تو کیا اس کی دکان پر مال کے سامنے کھڑا ہوجائے یا مال ہاتھ میں اٹھا لے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ کوئی بھی منقولی چیز خرید کر قبضہ کیے بغیر اسے آگےفروخت کرناجائز نہیں ہے،البتہ بذریعہ وکیل خریداری کی صورت میں چونکہ موکل کا حکما قبضۂِ ضمان ثابت ہوجاتا ہے،اس لیے موکل کا اس چیز پر خود قبضہ کیے بغیر اسی وکیل یا اس کے علاوہ کسی اور کو بیچنا جائز ہے،جس میں غیر وکیل خریدارکااس چیز پر قبضہ کرنا جبکہ وکیل خریدار کادوبارہ بحیثیتِ خریدارقبضہ کرناضروری ہو گا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کے اپنے خریداری کےوکیل عمر کو مال فروخت کرنے سے پہلے زید کا اس پر قبضہ کرنا تو ضروری نہیں ، البتہ عمر کا اس مال (موبائل اسیسریز ) پر دوبارہ بحیثیتِ خریدار قبضہ کرنا ضروری ہے،جس کی بہتر صورت یہ ہےکہ عمر یہ مال پہلے زید کے حوالہ کردے اور پھر اس سے جدید قبضہ کے ساتھ خرید لے،لیکن اگرزید وہ مال عمر کی دکان میں موجود ہونے کی صورت میں عمر کو بیچ کر اسے تصرف کا مکمل اختیار دے دے تو اس کے بعد عمر کا حکمااس مال پر جدید قبضہ سمجھا جائے گا۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 59):
"ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه"؛لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض؛ ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 244-248):
(وأما) تفسير التسليم والقبض ،فالتسليم والقبض عندنا هو التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له...وإن كانت يد المشتري يد أمانة كيد الوديعة و العارية لا يصير قابضا إلا أن يكون بحضرته، أو يذهب إلى حيث يتمكن من قبضه بالتخلي؛ لأن يد الأمانة ليست من جنس يد الضمان فلا يتناوبان، والله عز وجل أعلم.
محمدعبدالمجیدبن مریدحسین
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
17/جمادی الاولیٰ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدعبدالمجید بن مرید حسین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |