85529 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
زیدنے عمر کو ایک لاکھ روپے مال خریدنے کے لیے دیے، عمر نے مال خرید کر اپنی دکان میں رکھ دیا،پھر بعد میں زید نے وہ مال دس ہزارروپے نفع کے ساتھ عمر کو ہی فروخت کردیا۔عمرنے وہ مال آ گے فروخت کرکے ایک لاکھ دس ہزار روپے زید کو دے دیے،کیا شرعا یہ درست ہے؟اگر نہیں تواس کوکس طرح درست کیاجاسکتا ہے؟
تنقیح :سائل نے استفسار پر وضاحت کی کہ زید نے بطورِ قرض نہیں بلکہ مال خریدنے کے لیے ہی رقم دی تھی، جبکہ دوسرے معاملے کی پیشگی کوئی شرط بھی نہیں تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکوہ صورت میں چونکہ عمر زید کا وکیل ہے،لہٰذاوکیل کے قبضہ سے موکل کا قبضہ(جوعقد کے لیے ضروری تھا) پایا گیا،اس بناء پر زید کا اپنے وکیل عمر سے مرابحہ کا معاملہ کرنااور پھر عمر کا حکمی قبضہ کے بعد یہ مال آگے فروخت کرنا جائز ہے، البتہ آئندہ اگر کوئی منقولی چیز خرید کر آگےبیچنی ہوتو بہتر یہ ہے کہ حقیقی قبضہ کے بعد ہی اسے فروخت کیا جائے تاکہ قبضہ کی شرط پر عمل میں کوئی ابہام باقی نہ رہے ،اور اگر کوئی وکیل موکل کے لیے خریدی ہوئی منقولی چیز اس سے اپنے لیے خریدلےتو وکیل کوبھی اس پر دوبارہ بحیثیتِ خریدار حقیقی طور پر جدید قبضہ کرنا چاہیے،نیزاس بات کا بھی خیال رکھا جائےکہ اگرکسی خریدار نے کوئی چیز خریدنے کا مطالبہ کیا ہوتو اس خریدار کو وہ چیز بیچنے سے پہلے خود اپنے لیے اسی چیزکی خریداری کا حتی الامکان وکیل نہ بنایا جائے۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 140):
"فإن هلك المبيع في يده قبل حبسه هلك من مال الموكل ولم يسقط الثمن"؛ لأن يده كيد الموكل، فإذا لم يحبسه يصير الموكل قابضا بيده.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 244-248):
(وأما) تفسير التسليم والقبض، فالتسليم والقبض عندنا هو التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له، وكذا تسليم الثمن من المشتري إلى البائع...(ولنا) أن التسليم في اللغة عبارة عن جعله سالما خالصا يقال: سلم فلان لفلان أي خلص له، وقال الله تعالى :ورجلا سلما لرجل [الزمر: 29] أي سالما خالصا لا يشركه فيه أحد فتسليم المبيع إلى المشتري هو جعل المبيع سالما للمشتري أي: خالصا له بحيث لا ينازعه فيه غيره، وهذا يحصل بالتخلية فكانت التخلية تسليما من البائع، والتخلي قبضا من المشتري، وكذا هذا في تسليم الثمن إلى البائع؛ لأن التسليم واجب، و من عليه الواجب لا بد وأن يكون له سبيل الخروج عن عهدة ما وجب عليه، والذي في وسعه هو التخلية ورفع الموانع، فأما الإقباض فليس في وسعه؛ لأن القبض بالبراجم فعل اختياري للقابض، فلو تعلق وجوب التسليم به لتعذر عليه الوفاء بالواجب، وهذا لا يجوز...وجملة الكلام فيها أن يد المشتري قبل الشراء إما أن كانت يد ضمان، وإما أن كانت يد أمانة فإن كانت يد ضمان فإما أن كانت يد ضمان بنفسه، وإما أن كانت يد ضمان بغيره...وإن كانت يد المشتري يد أمانة كيد الوديعة و العارية لا يصير قابضا إلا أن يكون بحضرته، أو يذهب إلى حيث يتمكن من قبضه بالتخلي؛ لأن يد الأمانة ليست من جنس يد الضمان فلا يتناوبان، والله عز وجل أعلم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:5/ 694):
(وملك) بالقبول (بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له) ولو بغصب أو أمانة؛ لأنه حينئذ عامل لنفسه،والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه.
المعاییر الشرعیۃ(معیار رقم:8ص:163،164):
۳/١/٣ الأصل أن تشتري المؤسسة السلعة بنفسها مباشرة من البائع، ويجوز لها ذلك عن طريق وكيل غير الآمر بالشراء، ولا تلجأ لتوكيل العميل الأمر بالشراء) إلا عند الحاجة الملحة. ولا يتولى الوكيل البيع لنفسه، بل تبيعه المؤسسة بعد تملكها العين، وحينئذ يراعى ما جاء في البند (٥/١/٣) .
٥/١/٣ يجب الفصل بين الضمانين: ضمان المؤسسة، وضمان العميل الوكيل عن المؤسسة في شراء السلعة لصالحها، وذلك بتخلل مدة بين تنفيذ الوكالة وإبرام عقد المرابحة من خلال الإشعار من العميل بتنفيذ الوكالة والشراءثم الإشعار من المؤسسة بالبيع، ينظر الملحق (ا) والملحق (ب).
امداد الفتاوی جدید مع جدیدمطول حاشیہ( 6/,332331مکتبہ نعمانیہ):
سوال(1645) عمرو نے زید کو مبلغ ستانوے روپے خرید مال کے دساور (*) سے دیئے، اور مبلغ تین روپے اجرت خریداری کے زید کو دیدیئے ، زید نے دساور سے مال جفت پاپوش کا قیمتی ستانوے روپے کا لا کر جوڑ وادیا، اور مال اپنے ہی مکان پر لا کر اتارا عمرو کے مکان یا دُکان پر نہیں اُتارا ،عمرو نے قبل منگوانے مال کے یہ شرط کر لی تھی کہ جس وقت تم مال ہمارا جوڑ واردو گے ہم کو اختیا ر ہو گا خواہ ہم تم کو دیدیں گے یا اپنی دوکان یا مکان پر لے جائیں گے اور تم کو نہیں دیں گے،عمرو نے بعد جوڑ لینے کے زید سے دریافت کیا کہ تم یہ مال کس طریقہ سے لیتے ہو،زید نے کہا کہ پانچ ماہ کے لیے لیتا ہوں اور مبلغ اٹھارہ روپے منافع کے دوں گا، اور زراصل و منافع دونوں مل کر جو رقم ہوگی کے (مثلا صورتِ موجودہ میں ستانوے اصل اور اٹھارہ منافع کے کل مبلغ ایک سو پندرہ روپے ہوئے ) اس کو پانچ روپے بارہ آنہ ہفتہ کے
حساب سے ادا کروں گا ؟(*) پردیس سعید احمد پالن پوری
الجواب: یہ بیع مرابحہ بتا جیل الثمن ہے اور بقیود مذکورہ سوال درست ہے۔ ۲۰ محرم الحرام ۱۳۳۰ھ ( تتمہ اولی ص ۱۶۵)
محمدعبدالمجیدبن مریدحسین
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
17/جمادی الاولیٰ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدعبدالمجید بن مرید حسین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |