85590 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میری خالہ خورشید بیگم کا تقریبا چھ (6) سال پہلے انتقال ہوا ہے، وہ شادی شدہ تھیں، لیکن ان کی اولاد کوئی نہیں تھی، جبکہ شوہر کا انتقال ان سے پہلے ہوچکا تھا، اسی طرح ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال بھی ان سے پہلے ہوا تھا۔ خالہ کے بھائی اور چچا سرے سے تھے ہی نہیں، ان کی صرف پانچ بہنیں تھیں جن میں سے تین کا انتقال ان سے پہلے ہوا تھا، جبکہ دو ابھی زندہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ میری اس خالہ کا اپنے والد (میرے نانا) کی جائیداد میں جو حصہ بنتا ہے، وہ کس کو ملے گا اور اس کی تقسیم کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو آپ کی خالہ (خورشید بیگم مرحومہ) نے انتقال کے وقت والد سے ملنے والے حصۂ میراث سمیت اپنی ملکیت میں جو منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ،نقد رقم، سونا چاندی، مالِ تجارت غرض ہر طرح کا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے یا اگر مرحومہ کا کسی شخص یا ادارے کے ذمے کوئی قرض واجب تھا، وہ سب اس کا ترکہ ہے۔
اس میں سےسب سے پہلے مرحومہ کی تجہیز و تکفین كےمتوسط اخراجات نکالے جائیں گے،البتہ اگر یہ اخراجات اسی وقت ان کے مال سے کیے گئے تھے یا کسی نے اپنی طرف سے بطورِ احسان کیے تھے تو پھر یہ ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر دیکھیں اگر مرحومہ کے ذمہ کسی کا قرض واجب الادا ہو تو وہ ادا کریں، اس کے بعد دیکھیں اگر مرحومہ نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال میں سے ایک تہائی (3/1) تک اس پر عمل کریں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کو کُل دو (2) حصوں میں تقسیم کر کے ان کی دو زندہ بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیدیں۔
حوالہ جات
السراجي فی المیراث (8):
ترتیب تقسیم الترکة: فیبدأ بأصحاب الفرائض، وهم الذین لهم سهام مقدرة في کتاب الله تعالیٰ، ثم بالعصبات من جهة النسب، والعصبة: کل من یأخذ ما أبقته أصحاب الفرائض، وعند الانفراد یحرز جمیع المال، ثم بالعصبة من جهة السبب، وهو مولی العتاقة، ثم عصبته علی الترتیب، ثم الرد علی ذوي الفروض النسبیة بقدر حقوقهم، ثم ذوي الأرحام.
أیضاً الصفحة (25):
أحوال الأخوات لأب وأم: وأما للأخوات لأب وأم فأحوال خمس: النصف للواحدة، والثلثان للاثنتین فصاعدة….. الخ
أیضاً الصفحة (70-68):
باب الرد: الرد ضد العول، ما فضل عن فرض ذوي الفروض، ولامستحق له، یرد علی ذوي الفروض بقدر حقوقهم، إلا علی الزوجین…………. ثم مسائل الباب علی أقسام أربعة: أحدها أن یکون في المسألة جنس واحد ممن یرد علیه، عند عدم من لایرد علیه، فاجعل المسألة من رؤوسهم، کما لو ترك بنتین أو أختین أو جدتین، فاجعل المسألة من اثنین.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
22/جمادی الاولیٰ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |