85633 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
سوال:ایک پلازہ بن رہا ہے جو تقریباً 2 یا 3 سال کہ عرصے میں مکمل بن جاے گا ۔اس پلازہ کا مالک کہتا ہے کہ اس میں دکان کی قیمت 20 لاکھ ہے۔ اگر کوی نقد لے تب بھی 20لاکھ اور اگر کوئی قسطوں پر لے تب بھی 20 لاکھ ہے۔ مالک کا یہ کہنا کہ اگر آپ نقد 20 لاکھ دیتے ہیں تو ہم جب تک یہ پلازہ یا دکان مکمل تیار نہیں ہوجاتا، آپ کو ماہانہ کرایہ 15000 دیں گے، نقد ادائیگی کی وجہ سے ، وہی اگر قسطوں میں 20 لاکھ دیا جائے تو دکان /پلازہ تیار ہونے تک پلازہ کے مالک کی طرف سے کوئی کرایہ نہیں دیاجائے گا۔ جناب آپ سے درخواست ہے اس بارے میں فتویٰ جاری کیجیے کہ جو دکان/پلازہ بننے تک ملنے والا کرایہ ہے دکان نقد رقم میں خریدنے والے کےلیے جائز/حلال ہے ؟ اور اسی طرح دکان/پلازہ بنانے والے مالک کے لیے نقد رقم پر دکان/پلازہ بننے تک یہ کرایہ جائز/حلال ہے یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب تک دکان تعمیر کرکےخریدار کے حوالے نہیں کی جا ئے گی، اس وقت تک اس کا کرایہ لینا جائز نہیں۔ صورت مسئولہ میں ماہانہ15000روپے خا لص سودہے جوکہ ناجائز وحرام ہے۔
حوالہ جات
في الھندیۃ:وفي الإجارة الفاسدة يشترط حقيقة استيفاء المنفعة لوجوب الأجر،وبعدما وجب الاستيفاء حقيقة، إنما يجب الأجر إذا وجد التسليم من المستأجر من جهة المؤجر .أما إذا لم يوجد التسليم لا يجب الأجر. بيانه :فيما ذكر في الجامع :رجل اشترى من آخر عبدا ،فلم يقبضه ،حتى آجره من البائع شهرا كانت الإجارة باطلة ،فإن استعمله البائع بحكم الإجارة، لا يلزمه الأجر. ( الفتاوى الهندية : 4/ 414)
قال العلامۃ برھان الدین رحمہ اللہ :والوجه في ذلك أن المنفعة معدومة في الحال ،واتخاذها ليس في وسع البشر، والمعدوم لا يصلح محلا لإضافة العقد إليه .( المحيط البرهاني : 7/ 394)
محمد مجاہد
دار الافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
23 /جمادی الاولی، 6144ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مجاہد بن شیر حسن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |