85697 | حکومت امارت اور سیاست | دارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل |
سوال
(الف)۔۔۔ اسلام کیا کہتا ہے کہ کس طرح کا طرزِ حکومت ہو؟ جمہوریت یا خلافت؟
(ب)۔۔۔ کیا اسلامی حکومت کے قیام کا واحد راستہ خلافت ہی ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ان سوالات کے جوابات سے پہلے ان بعض امور کی کچھ تفصیل بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جن جوابات کا سمجھنا موقوف ہے:-
(1)۔۔۔ سیاسی نظام کے حوالے سے اسلام کے عطا کردہ بعض اہم اصول:
اسلام نے سیاسی حوالے سے ہمیں چند بنیادی اصول دئیے ہیں جن کا خیال رکھنا ایک اسلامی طرزِ حکومت کے لیے ضروری ہے، ان میں سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ حاکمِ حقیقی اللہ جل جلالہ کی ذات ہے، لہٰذا نظامِ حکومت میں کوئی ایسا قانون بنانا یا انتظامی حکم دینا جائز نہیں جو شریعت سے متصادم ہو، عوام کے لیے بھی حکومت کے ایسے خلافِ شرع قوانین پر عمل جائز نہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ حاکم مسلمان، مرد، عالم، عادل، صحیح الحواس، سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا اور ملک و دین کی حفاظت کرنے والا ہو۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ اسلام حاکم کے انتخاب میں نہ تو بادشاہت اور وراثت (استخلاف الگ چیز ہے، وہ اپنی شرائط کے ساتھ شرعا جائز ہے) کا قائل ہے، نہ ہی مغربی جمہوریت میں رائج ہر کس و ناکس کو ووٹ کے ذریعے یہ اختیار دینے کا قائل ہے، بلکہ اسلام حاکم کے انتخاب کی ذمہ داری اہل حل و عقد کو دیتا ہے، اہلِ حل و عقد سے مراد اجتماعی معاملات اور نظامِ حکومت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اصحابِ علم و دانش اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے ذمہ دار افراد ہیں، وہ اپنے ما تحت لوگوں کی رائے معلوم کر کے مشاورت سے کسی اہل شخص کا انتخاب کریں گے، اس مشاورت کا کوئی خاص طریقہ اور شکل اسلام نے متعین کر کے نہیں بتایا، لہٰذا اس کے لیے کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس سے اصل مقصودحاصل ہو۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں حکومت ذمہ داری کا نام ہے، حق اور کاروبار کا نام نہیں۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ اسلام نے عام حالات میں خود حکومت طلب کرنے سے منع کیا ہے۔ چھٹا اصول یہ ہے کہ حاکم غیر منصوص امور (جن کے بارے میں قرآنِ کریم اور احادیثِ طیبہ میں کوئی صریح حکم وارد نہ ہو) میں اہلِ حل و عقد سے مشاورت کا اہتمام کرے۔
(2)۔۔۔ خلافت کی اقسام:
انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور اس کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دین اپنی ذات اور روئے زمین پر قائم کرے۔ اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کے دین کو نافذ کرنا انفرادی خلافت ہے، جبکہ روئے زمین پر اور معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرنا اجتماعی خلافت ہے، اصولِ سیاست میں خلافت سے مراد اجتماعی خلافت ہوتی ہے، اس کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
(3)۔۔۔ اجتماعی خلافت کا تصور، قرآن و سنت کی روشنی میں:
سیاست وحکومت کے اسلامی تصور کی بنیاد اور اصل الاصول یہ ہے کہ اس کائنات پر اصل حاکمیت اللہ تبارک وتعالی کو حاصل ہے، اور دنیا کے حکمران اللہ تعالی کی اس حاکمیت کے تابع بن کر ہی حکومت کرسکتے ہیں۔
اس بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعی خلافت کا مفہوم آسان اور مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفتِ حاکمیت کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کا کوئی نائب ہو۔ اللہ جل جلالہ اپنی صفتِ حاکمیت کو اس دنیا میں نافذ کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام بھیجتے رہے، ان سب کے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان پر نبوت و رسالت کا دروازہ بند کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے اس دنیا میں اللہ جل جلالہ کی صفتِ حاکمیت کو نافذ کرنے کے لیے مسلمان جس شخصیت کا انتخاب کریں، اس کو "خلیفہ"، "امیر" اور "امام" کہتے ہیں۔ اور اس شخصیت کے فرضِ منصبی یعنی اس دنیا میں اللہ جل جلالہ کی صفتِ حاکمیت کو اس کے دئیے ہوئے قانون (قرآن وسنت) کی روشنی میں نافذ کرنے کو "خلافت" اور "امامتِ کبریٰ" کہا جاتا ہے۔
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ} [ص: 26]
ترجمہ: اے داود! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلے کرو، اور نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادے گی۔
حکومت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا :
{الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ } [الحج: 41]
ترجمہ: یہ (جن کی صفات اس سے پہلے کی آیات میں بیان کی گئیں) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے حکومت کے مقاصد میں نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، ہر اچھائی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کا ذکر فرمایا ہے، جس میں شریعت کے دیگر تمام احکام کی تنفیذ خود بخود داخل ہے۔
صحیح بخاری کی روایت ہے:-
حدثني محمد بن بشار حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن فرات القزاز قال سمعت أبا حازم قال قاعدت أبا هريرة خمس سنين فسمعته يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء، فيكثرون ،قالوا: فما تأمرنا؟ قال: فوا ببيعة الأول فالأول، أعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم.
(صحيح البخاري: 4/ 169)
ترجمہ: حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہا، میں نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیائے کرام (علیہم السلام) فرماتے تھے (وہ خود حکمران ہوتے تھے یا ان کے حکم سے حکمران کا تقرر ہوتا تھا)، جب بھی کوئی نبی فوت ہوتے تو ان کے بعد دوسرے نبی آجاتے، اور بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، البتہ "خلفاء" ہوں گے اور زیادہ ہوں گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا (کہجب خلفاء زیادہ ہوں گے تو ایسی صورت میں) آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں (یعنی ہم ان میں سے کس کے ہاتھ پر بیعت کرلیا کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی خلافت سب سے پہلے منعقد ہو، اس کی بیعت کرنا اور اسے پورا کرنا، اور اللہ جل جلالہ ان سے پوچھیں
گے ان معاملات کے بارے میں جو اللہ تعالی نے ان کے ذمے لگائے ہیں۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال اور ان کی سیاسی قیادت کرنے والی شخصیات کو "خلفاء" کا لقب دیا۔ اس طرح سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "خلافت" کو امتِ مسلمہ کے سیاسی نظام کے طور پر بیان فرمایا ۔
چنانچہ اسلام کی نظر میں حکمران کی حیثیت و ذمہ داری کے پیشِ نظر اللہ تعالی کے قانون کو زمین پر نافذ کرنے والے نظامِ حکومت کا عنوان"خلافت" ٹھہرا۔
(3)۔۔۔خلافت کی تعریف، علمائے اسلام کے حوالے سے:
ذیل میں "خلافت" اور "خلیفہ" کی چند تعریفات مستند علمائے اسلام کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں:-
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی "ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء" میں فرماتے ہیں:
مسئله در تعریفِ خلافت: هي الریاسة العامة في التصدي لإقامة الدین بإحیاء العلوم الدینیة وإقامة أرکان الإسلام والقیام بالجهاد وما یتعلق به من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة وإعطاءهم من الفیئ والقیام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهی عن المنکر نیابةً عن النبي صلی الله علیه وسلم.
(إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء:1/13)
ترجمہ: خلافت وہ ریاستِ عامہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہونے کی حیثیت سے علومِ دینیہ کو زندہ رکھنے کے ذریعے، ارکانِ اسلام کو قائم کرنے کے ذریعے، جہاد اور متعلقاتِ جہاد (لشکروں کو ترتیب دینا، مجاہدین کو وظائف دینا، مالِ غنیمت کو ان پر تقسیم کرنا) کو بجالانے کے ذریعے، عہدۂ قضاء کے فرائض انجام دینے، حدود کو قائم کرنے، مظالم کو دور کرنے اور لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دینے اور برے کاموں سے منع کرنے کے ذریعے دین کو قائم و نافذ کرنے کے لیے وجود میں آئے۔
اس تعریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لفظِ "خلافت" شرعی اصطلاحی معنوں میں صرف اس حکومت کے لیے خاص ہے جو دنیاوی انتظامات کرنے کے ساتھ ساتھ دین کو قائم ونافذ کرنے کے لیے وجود میں آئے۔ اور جو حکومت ایسی نہ ہو اس پر اگرچہ عربی لغت کے اعتبار سے خلافت کے لفظ کا اطلاق کردیا جاتا ہے، لیکن شرعی اصطلاح کے اعتبار سے وہ خلافت نہیں کہلاتی۔
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ تعالیٰ نے "مقدمۂ ابنِ خلدون" میں حکومت کی تین قسمیں ذکر فرمائی ہیں۔ (1) ملک طبیعی (2) ملک سیاسی (3) خلافت۔ اور اس تقسیم میں انہوں نے لفظ "خلافت" کا اطلاق صرف اس حکومت پر فرمایا ہے جس کی بنیاد دین وشریعت پر ہو، باقی دو اقسام کے لیے انہوں نے ملک یا ملوکیت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ ان تینوں اقسام کی تعریفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"الملك الطبیعی" هو حمل الکافة علی مقتضی الغرض والشهوة، و "(الملك) السیاسی" هو حمل الکافة علی مقتضی النظر العقلي في جلب المصالح الدنیویة ودفع المضار، و "الخلافة" هي حمل الکافة علی مقتضی النظر الشرعي في مصالحهم الأخرویة والدنیویة الراجعة إلیها….. وإذ قد بينا حقيقة هذا المنصب، وأنه نيابة عن صاحب الشريعة في حفظ الدين وسياسة الدنيا به، تسمى "خلافة" و "إمامة"، والقائم به "خليفة" و "إماماً". (مقدمة ابن خلدون:1/663۔365)
ترجمہ: "(حکومت کی پہلی قسم) "طبیعی حکومت" لوگوں کو شہوت اور اغراضِ نفسانیہ کے تقاضوں کے مطابق چلانے کا نام ہے۔
(دوسری قسم) " سیاسی حکومت" تمام لوگوں کو دنیوی مصلحتیں حاصل کرنے اور دنیوی نقصانات سے بچانے میں عقل کے تقاضوں کے مطابق چلانے کا نام ہے۔
(تیسری قسم) "خلافت" لوگوں کو شرعی طرزِ فکر کے مطابق چلانے کا نام ہے، جس سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوں اور دنیوی مصلحتیں بھی پوری ہوں، جن کا نتیجہ بھی آخر کار آخرت ہی کی بہتری ہوتا ہے۔۔۔۔ جب ہم نے اس منصب کی حقیقت اور یہ بات بیان کردی کہ یہ منصب دین کی حفاظت اور دنیوی امور کے لیے تدابیر اختیار کرنے میں صاحبِ شریعت کی نیابت ہے تو (اب یہ بات سمجھنی چاہیے کہ) اس کو "خلافت" اور "امامت" کہاجاتا ہے، اور جو شخص اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے متعین ہو اس کو "خلیفہ"اور "امام" کہا جاتا ہے۔"
"خلافت" کے لیے دوسرا لفظ "امامت" اور "خلیفہ" کے لیے دوسرا لفظ "امام" یا "امیر" بھی استعمال ہوتا ہے، علامہ ابنِ خلدونؒ کی مذکورہ بالا عبارت میں اس کی صراحت ہے، نیز علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ"روضۃ الطالبین" میں فرماتے ہیں:
يجوز أن يقال للإمام "الخليفة" و "الإمام" و "أمير المؤمنين". (روضة الطالبين: 10/ 49)
ترجمہ: امام کو "خلیفہ"، "امام" اور "امیر المؤمنین" تینوں القاب سے یاد کیا جاسکتا ہے۔
علامہ محمد نجیب المطیعی "تکملۃ المجموع شرح المہذب للنوویؒ" میں فرماتے ہیں:
المراد بالإمام الرئيس الأعلى للدولة، والإمامة والخلافة وإمارة المؤمنين مترادفة، والمراد بها الرياسة العامة في شئون الدين والدنيا.
(تکملة المجموع شرح المهذب: 19/ 191)
ترجمہ: "امام" سے مراد حکومت کا سربراہِ اعلیٰ ہوتا ہے۔ اور "امامت"، "خلافت" اور "إمارة المومنین" تینوں ہم معنی الفاظ ہیں، ان سے مراد دینی اور دنیوی معاملات میں عمومی سربراہی ہوتی ہے۔
علامہ ماوردی رحمہ اللہ تعالیٰ "الأحکام السلطانیۃوالولایات الدینیۃ" میں فرماتے ہیں:
الإمامة موضوعة لخلافة النبوة في حراسة الدين وسياسة الدنيا.
(الأحكام السلطانية والولایات الدینیة:1/ 3)
ترجمہ: امامت کا مقصد اور مفہوم دین کی حفاظت اور دنیوی امور کی تدبیر میں نبوت (یعنی صاحبِ نبوت علیہ الصلاۃ والسلام) کی جانشینی ہے۔
خلاصہ:
خلاصہ یہ کہ "خلافت" اس نظامِ حکومت کا نام ہے جو اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے نظامِ شریعت کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے قائم کیا جائے۔
(4)۔۔۔ خلافت اور دیگر حکومتی نظاموں میں فرق:
سیاست کے حوالے سے اسلام کے بیان کردہ بنیادی اصولوں، قرآنِ کریم کی مذکورہ بالا آیات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ اور علمائے اسلام کی بیان کردہ خلافت کی تعریفات سے "خلافت" اور "دیگر حکومتی نظاموں" کے درمیان بنیادی فرق بھی بالکل واضح ہوکر سامنے آگیا ، اور وہ یہ کہ "خلافت" دنیوی مصالح کے ساتھ ساتھ دینی مصالح پر بھی مشتمل ہوتی ہے، خلیفہ لوگوں کو نماز، روزہ، زکوۃ اور دیگر احکامِ شرعیہ کا پابند بناتا ہے۔ ان کو بھلائی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ جبکہ "دیگر حکومتی نظاموں" کا مقصد صرف اور صرف دنیوی مصالح کی پاسداری ہوتا ہے۔
(5)۔۔۔ جمہوریت کا تصور، سیاسی اصطلاح کے اعتبار سے:
سیاسی اصطلاح کے اعتبار سے جمہوریت بنیادی طور پر اس طرزِ حکومت کا نام ہے جس میں امورِ مملکت
سے متعلق فیصلوں اور پالیسیوں میں عوام کا عمل دخل ہو۔ اس کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں، مثلا یونان کی شہری ریاستوں میں رائج جمہوریت بالکل سادہ جمہوریت تھی، لیکن اٹھارویں صدی کے بعد رائج ہونے والی آج کی جمہوریت منظم جمہوریت ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات درجِ ذیل ہیں:
(الف)۔۔۔ اسلامی نظامِ حکومت کا عنوان "خلافت" ہے، جس کا مقصد زمین پر اللہ تعالیٰ کے قانون کا نفاذ اور رعایا کے دینی و دنیوی دونوں قسم کے مصالح کا تحفظ ہوتا ہے، اس میں حاکم کا انتخاب جمہوری طریقے یعنی اہل حل و عقد کے مشورے سے ہوتا ہےاور اس انتخاب میں حاکم کے لیے شریعت کی نظر میں درکار صفات اور شرائط کا لحاظ کیا جاتا ہے۔
جہاں تک مروَّجہ جمہوریت کا تعلق ہے تو ہمارے سامنے اس کی دو شکلیں ہیں:
(1)۔۔۔ مغربی ممالک کی جمہوریت، جس کا مقصد صرف دنیوی مصالح کا تحفظ ہوتا ہے، دین اور شریعت کا نفاذ اس کے مقاصد میں شامل نہیں ہوتا، اس میں حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی ہوتی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے ملک کے نظمِ اجتماعی کی بنیاد یعنی آئین کی رو سے ہر قسم کی قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں، آئین انہیں شریعت کے مطابق قانون سازی کا پابند نہیں بناتا۔ یہ جمہوریت اپنی تاریخ، ارتقاء، حقیقت، طبیعت، بنیادوں، مقاصد اور ترجیحات کے اعتبار سے اسلامی نظامِ حکومت نہیں، بلکہ اسلام سے متصادم اور کفریہ نظام ہے۔
(2)۔۔۔ پاکستان میں رائج جمہوریت، اس میں اگرچہ ایک طرف عملی طور پر متعدد سنگین خرابیاں اور کمزوریاں موجود ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے، مثلاً عملا ًخلافِ شریعت قوانین بنتے ہیں اور نافذ ہوتے ہیں، پہلے سے رائج خلافِ شریعت قوانین کی اصلاح کا کام حسبِ وعدہ نہیں کیا جاتا، حاکم کے انتخاب میں مطلوبہ صفات کا خیال نہیں رکھا جاتا، عام حالات میں بھی نہ صرف خود حکومت طلب کی جاتی ہے، بلکہ اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے جائز، ناجائز طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن دوسری طرف مملکت کے دستور اور آئین ( جو ملک کے نظمِ اجتماعی کی بنیاد ہے) میں اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد اور اصل الاصول کا لحاظ رکھا گیا ہے، حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے، قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی اور معاشرے کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی ضمانت دی گئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کا جمہوری نظامِ حکومت، مغربی ممالک کے جمہوری نظامِ حکومت سے بہت مختلف ہے، ان دونوں نظاموں
کے درمیان فرق سمجھنے کے لیے آئینِ پاکستان کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:-
(1)۔۔۔ آئین کے دیباچہ (Preamble) میں قرار دیا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر حاکمِ مطلق ہے، اس لیے پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہوگی۔ دستور کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کو جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے گا۔ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح کہ قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔ (آئینِ پاکستان، صفحہ:1، مطبوعہ: قومی اسمبلی پاکستان، 7 جنوری، 2015ء)
(2)۔۔۔ آئین کے ابتدائیہ (Introductory) میں اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب قرار دیا گیا ہے، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان وضع کیا گیا ہے اور قرار دادِ مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیا گیا ہے۔ (آئینِ پاکستان، صفحہ:3، مطبوعہ: قومی اسمبلی پاکستان، 7 جنوری، 2015ء)
(3)۔۔۔ آئین میں درج " حکمتِ عملی کے اصول" (Principles of policy) کے تحت یہ بات لکھی گئی ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی طرح مملکتِ پاکستان قرآنِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینے، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے، اس کے لیے سہولت بہم پہنچانے، قرآنِ پاک کی صحیح طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنے، اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینے، زکوۃ، عشر، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنے کی کوشش کرے گی۔ (آئینِ پاکستان، صفحہ:17، مطبوعہ: قومی اسمبلی پاکستان، 7 جنوری، 2015ء)
(4)۔۔۔ آئین کے تیسرے حصے میں مجلسِ شوریٰ (Parliament ) کی رکنیت کے لیے اچھے کردار کا حامل ہونے، عام طور پر اسلام کے احکام سے انحراف میں مشہور نہ ہونے، اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھنے، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ہونے، کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے، سمجھدار، پارسا، ایمان دار، امین اور صحیح العقل ہونے اور فاسق نہ ہونے کو شرط قرار دیا گیا ہے۔ (آئینِ پاکستان، صفحہ:36، مطبوعہ: قومی اسمبلی پاکستان، 7 جنوری، 2015ء)
لہٰذا پاکستان کے لیے آئین میں وضع کردہ جمہوری نظامِ حکومت کو مغربی ممالک کے جمہوری نظامِ حکومت پر قیاس کر کے کفری نظام کہنا درست نہیں۔ البتہ عملی طور پر موجود خرابیوں کو ختم کرنا،ان کی اصلاح کرنا اور آئین پر کما حقہ عمل در آمد کو یقینی بنانا ہر شخص کی عمومی، جبکہ مقتدر طبقوں اور حکمرانوں کی خصوصی اور براہِ راست ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے جو بھی افراد، جماعتیں، تنظیمیں، حکومتیں اور ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کوتاہی سے کام لیں گے، وہ دنیا وآخرت میں پاکستان کے جمہور اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ مزید یہ کہ جب تک مثالی نظام وجود میں نہیں آتا، اس وقت تک میدانِ عمل خالی چھوڑنا درست نہیں، بلکہ ہر شخص پر اپنی استطاعت کے مطابق اسلامی قانون کے نفاذ اور ملک و ملت کے لیے بہتر سے بہتر حاکم کے انتخاب کی ہر ممکن کوشش کرنا لازم ہے۔
(ب)۔۔۔ اسلام کے نظامِ حکومت کا عنوان خلافت ہے، جس کی تفصیل اوپر گزرچکی ہے، لیکن اگر کسی دوسرے عنوان سے ایسا سیاسی نظام میں وجود میں آئے جس میں حکومت کے لیے اسلام کے مقرر کردہ اصولوں اور مقاصد کا خیال رکھا جائے تو وہ بھی اسلامی نظامِ حکومت ہوگا، اگرچہ اس کا ظاہری عنوان خلافت نہ ہو؛ کیونکہ الفاظ اور اصطلاحات کی اثر انگیزی مسلَّم ہونے کے باوجود احکام کا دار و مدار حقیقت پر ہوتا ہے، نہ کہ الفاظ پر ۔
کتب برائے مطالعہ:
اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے قدیم علمائے اسلام کی کتابوں کے ساتھ: (1) حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی جواہر الفقہ :5/471 تا 527 (2) حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی احسن الفتاوی:6/143 تا 192 (3) اور حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ کی تکملۃ فتح الملہم (شرح صحیح مسلم) کی کتاب الإمارة:3/224 تا 249 اور "اسلام اور سیاسی نظریات" کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔
حوالہ جات
۔
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
24/جمادی الاولیٰ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |