سحری کھانا سنت ہے:
سحری کھانا سنت ہے اور سحری کے کھانے میں برکت ہے، اور سحری صبح صادق سے پہلے آخری وقت میں کھانا مستحب ہے ،اگر بھوک نہ ہو اور کھانا نہ کھائے تو کم سے کم دو تین چھوارے ہی کھالے یا کوئی اور چیز تھوڑی بہت کھالے، کچھ نہ سہی تو تھوڑا سا پانی ہی پی لے۔(ردالمحتار: ۲/۴۱۹) ۔الہندیۃ(۱/۲۰۰)
سحری میں آنکھ نہ کھلی:
اگر رات کو سحری کھانے کے لیے آنکھ نہ کھلی، سب کے سب سوتے رہے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہے، سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑ دینا بڑی کم ہمتی کی بات ہے اور بڑا گناہ ہے۔
مشتبہ وقت میں سحری کھانا:
اگر اتنی دیر ہوگئی کہ صبح ہو جانے کا شبہہ پڑگیا تو اب کچھ کھانا مکروہ ہے اور اگر ایسے وقت کچھ کھا پی لیا تو برا کیا اور گناہ ہوا۔ پھر اگر معلوم ہوگیا کہ اس وقت صبح ہوگئی تھی تو اس روزہ کی قضاء رکھے اور اگر کچھ معلوم نہ ہو، شبہہ شبہہ ہی رہ جائے تو قضاء رکھنا واجب نہیں۔(ردالمحتار: ۲/ ۴۱۹) ۔الہندیۃ (۱/۱۹۴)
روزہ کس چیز سے افطار کیا جائے:
کھجور یاچھوارے سے روزہ کھولنا بہتر ہے، اگر کھجور یا چھوارہ نہ ہو، کوئی میٹھی چیز ہو اس سے کھولے، وہ بھی نہ ہو تو پانی سے افطار کرے۔ (تبیین الحقائق:فصل فی العوارض : ۱؍۳۴۳)
بعض لوگ نمک کی کنکری سے افطار کرتے ہیں اور اس میں ثواب سمجھتے ہیں، یہ غلط عقیدہ ہے۔(بہشتی زیور)
افطار کرانے والے کو ثواب:
جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا اسے بھی روزہ دار جتنا ہی اجر ملے گا، لیکن روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہ آئے گی۔ (ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ)
جن وجوہ سے روزہ نہ رکھنا جائز ہے
جان جانے یابیماری بڑھ جانے کا خوف:
مسئلہ: اگر ایسا بیمار ہے کہ روزہ سے نقصان ہوتا ہے اور یہ ڈر ہے کہ روزہ رکھے گا تو جان جاتی رہے گی یا بیماری بڑھ جائے گی یا بیماری طویل ہوجائے گی، صحت یاب ہونے میں زیادہ دن لگ جائیں گے تو روزہ نہ رکھے، جب صحت ہو جائے تو اس کی قضاء رکھ لے، لیکن فقط اپنے دل سے ایسا خیال کرلینے سے روزہ چھوڑنا درست نہیں، بلکہ جب کوئی مسلمان دین دار حکیم، طبیب کہہ دے کہ روزہ تمہیں نقصان دے گا تب چھوڑنا چاہئے۔ (درمختار: ۲/۴۴۲)
مسئلہ: اگر حکیم یا ڈاکٹر کافر ہے یا شرع کا پابند نہیں ہے تو اس کی بات کا اعتبار نہیں، فقط اس کے کہنے سے روزہ نہ چھوڑے۔(ردالمحتار: ۲/۴۲۲) (الہندیۃ: ۱/۲۰۷)
مسئلہ: اگر حکیم نے تو کچھ نہیں کہا لیکن خود اپنا تجربہ ہے، کچھ ایسی علامات موجود ہیں جن کی وجہ سے دل گواہی دیتا ہے کہ روزہ نقصان دے گا تب بھی روزہ نہ رکھے اور اگر خود تجربہ کار نہ ہو اور اس بیماری کا کچھ حال معلوم نہ ہو تو فقط خیال کا اعتبار نہیں۔ اگر دیندار حکیم کے بتائے بغیر اور تجربہ کیے بغیر اپنے خیال ہی خیال سے رمضان کا روزہ رکھ کر پھر درمیان میں توڑے گا تو اس روزہ کی قضاء بھی لازم ہوگی اور کفارہ بھی دینا پڑے گااور اگر صبح سے روزہ ہی نہ رکھے گا تو گنہگار ہوگا، توبہ و استغفار اور قضاء واجب ہوگی، کفارہ واجب نہ ہوگا۔ (ردالمحتار مع الدر: ۲/۴۲۲)
مسئلہ: اگر بیماری سے صحت یاب ہوگیا لیکن ابھی ضعف باقی ہے اور یہ قوی اندیشہ ہے کہ اگر روزہ رکھا تو پھر بیمار ہو جائے گا تب بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔الدرالمختار(۲/۴۲۲)
حاملہ اور دودھ پلانے والی کو کب رخصت ہے؟
حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو جب اپنی جان کا یا بچے کی جان جانے یا شدید بیمار ہونے کا خوف ہو تو وہ روزہ نہ رکھے، پھربعد میں قضاء رکھ لے، لیکن اگر اپنا شوہر مالدار ہے کہ کوئی دایہ رکھ کر دودھ پلواسکتا ہے تو دودھ پلانے کی وجہ سے ماں کو روزہ چھوڑ دینا درست نہیں،البتہ اگر بچہ سوائے اپنی ماں کے کسی اور کا دودھ نہ پیتا ہو تو ایسے وقت میں ماں کوروزہ نہ رکھنا درست ہے۔(درمختار: ۲/۴۲۲)
مسافر کے لئے روزہ کے احکام :
مسئلہ: اگر کوئی مسافر سفر میں ہو تو اس کے لیے بھی جائزہے کہ روزہ نہ رکھے، پھر بعد میں اس کی قضاء رکھ لے۔ (درمختار: ۲/۴۲۱)
مسئلہ: مسافر کو روزے سے اگر کوئی تکلیف نہ ہو، جیسے ریل پر سوار ہے اور یہ خیال ہے کہ شام تک گھر پہنچ جاؤں گا یا اس کے پاس سب راحت و آرام کا سامان موجود ہے تو ایسے سفر میںروزہ رکھ لینا بہتر ہے اور اگر روزہ نہ رکھے بلکہ بعد میں قضاء رکھ لے تب بھی کوئی گناہ نہیں۔ ہاں رمضان شریف کے روزے کی جو فضیلت ہے اس سے محروم رہے گا اور اگر راستہ میں روزہ کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی ہو تو ایسے وقت میں روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔ (ردالمحتار: ۲/۴۲۱ ۔ ۴۲۳)
مسئلہ: اگر بیماری سے اچھا نہیں ہوا، اسی میں مرگیا یا ابھی گھر نہیں پہنچا، سفر ہی میں مرگیا تو جتنے روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے چھوٹے ہیں آخرت میں ان کا مواخذہ نہ ہوگا اور نہ ان کے لیے فدیہ کی وصیت لازم ہے، کیونکہ اسے قضاء رکھنے کی مہلت نہیں ملی۔ (درمختار: ۲/۴۲۴)
مسئلہ: اگر راستہ میں پندرہ دن رہنے کی نیت سے ٹھہرگیا تو اب روزہ چھوڑنا درست نہیں کیونکہ اب وہ مسافر نہیں رہا، اگر پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو روزہ نہ رکھنا درست ہے، مگر روزہ رکھنے میں کوئی دقت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے۔(درمختار: ۲/۴۳۱)
جن وجوہ سے روزہ توڑ دینا جائز ہے
بیماری بڑھ جانے یا جان جانے کا خوف:
اچانک ایسا بیمار پڑگیا کہ اگر روزہ نہ توڑے گا تو جان پر بن آئے گی یا بیماری بہت بڑھ جائے گی تو روزہ توڑدینا درست ہے، جیسے اچانک پیٹ میں ایسا درد اٹھا کہ بیتاب ہوگیا یا سانپ نے کاٹ کھایا تو دواپی لینا اور روزہ توڑدینا درست ہے، ایسے ہی اگر ایسی پیاس لگے کہ ہلاکت کا ڈر ہو تو بھی روزہ توڑ ڈالنا درست ہے۔ (ھندیۃ: ۱/۲۰۷)
مسئلہ:حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت نے روزہ رکھا تھا، مگر کوئی ایسی بات پیش آگئی جس سے اپنی جان کا یا بچہ کی جان کا ڈر ہے تو روزہ توڑ ڈالنا درست ہے۔ الھندیۃ (۱/۲۰۷)
مسئلہ: کوئی سخت کام کرنے کی وجہ سے بے حد پیاس لگ گئی اور اتنی بے تابی ہوگئی کہ اب جان کا خوف ہے تو روزہ توڑدینا درست ہے اور بعد میںقضاء لازم ہے،لیکن قصداً بلا ضرورت ایسا سخت کام کرنا گناہ ہے، البتہ اگر محتاج ہے، نفقہ کا کوئی اور انتظام نہیں اور ایسا کام کرنے پر مجبور ہو تو گناہ بھی نہ ہوگا۔(درمختار: ۲/۴۲۰)
جن صورتوں میں روزہ واجب نہ ہونے یا فاسد ہوجانے کے باوجود کھانا پینا منع ہے:
کسی نے رات کے گمان میں سحری کھائی حالانکہ صبح ہوچکی تھی یا غروب کے گمان میں افطار کرلیا حالانکہ دن ابھی باقی تھا یا مسافر دن میں سفر سے لوٹ آیا یا عورت دن میں حیض و نفاس سے پاک ہوگئی یا مجنون کو دن میں افاقہ ہوگیا یا کسی کا روزہ ٹوٹ گیا، خواہ جبراً تڑ وادیا گیا یا غلطی سے پانی وغیرہ حلق میں اتر گیا یا کافر دن میں مسلمان ہوگیا یا نا بالغ بالغ ہو گیا تو ان تمام صورتوں میں دن کا بقیہ حصہ بغیر کھائے پئے روزہ داروں کی طرح گذارنا واجب ہے اور آخر کے دو شخصوں (نو مسلم، نو بالغ) کے سوا بقیہ تمام لوگوں پر ا س روزہ کی قضاء بھی واجب ہے، اگر بچے نے بلوغ کے بعد نصف النہار سے پہلے روزہ کی نیت کرلی، جبکہ ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہوتو اس کا نفل روزہ ہوجائے گا، اگر عورت صبح صادق کے بعد حیض یا نفاس سے پاک ہو، اس کے بعد روزہ کی نیت کرلے یا کافر صبح صادق کے بعد مسلمان ہونے کے بعد نیت کرلے تو ان دونوں کا روزہ نہ ہوگا نہ فرض نہ نفل۔ عورت پر اس کی قضاء لازم ہوگی، کافر پر نہیں۔(البحر: ۲/۲۸۸ ۔ ۲۸۹)
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی