وکیل کے پاس زکوٰۃ کی رقم ضائع ہوگئی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی:
زید نے خالد کو زکوٰۃ کی رقم کسی مسکین کو ادا کرنے کے لیے دی جو خالد کے پاس سے ضائع ہوگئی، ایسی صورت میں زید کے ذمہ جو زکوٰۃ واجب الاداء تھی وہ اداء نہیںہوئی،دوبارہ اداء کرنا لازم ہے۔ اگر خالد نے حفاظت میں غفلت نہیں برتی بلکہ جیسے اپنے مال کی حفاظت کا اہتمام کرتا ہے ویسا ہی اہتمام زکوٰۃ کی رقم کی حفاظت کا کیا تھا تو خالد کے ذمہ اس رقم کاواپس کرنا لازم نہیں، ورنہ لازم ہے۔
وکیل کا زکوٰۃ کی رقم میں ردو بدل کرنا:
ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو زکوٰۃ یا صدقات واجبہ کی مد سے کچھ رقم مساکین کو دینے کے لیے دی، اس وکیل نے وہ رقم بدل دی،مثلاً دس دس روپے کے دس نوٹ اس میں سے لیے اور سو روپے کا نوٹ اس میں رکھ دیاتوزکوٰۃ بہرحال اداء ہوجائے گی،بشرطیکہ زکوۃ کے لیے دئیے گئے پیسے بھی اس کے پاس موجودہوں،اگر وہ زکوٰۃ اداء کرنے سے پہلے ضائع ہو گئے ہوںیا خرچ کر دئیے ہوں تو جتنے ضائع ہوگئے یا خرچ ہو گئے اتنے روپوں کے بقدر زکوٰۃ اداء نہیں ہوئی، وہ مؤکل کو لوٹانا ضروری ہے تاکہ وہ بنیت ِ زکوٰۃ کسی کو دیدے۔ البتہ اس صورت (صدقات) میں چونکہ رقم متعین ہو جاتی ہے،لہٰذاتبدیل کرنے کا جواز اس پر موقوف ہے کہ موکل کی طرف سے تبدیل کرنے کی اجازت صراحۃً یا دلالۃً موجود ہو، موجودہ زمانے میں عموماً اس کی اجازت ہوتی ہے اس لیے صراحۃً اجازت کی ضرورت نہیں، اس کے باوجود احتیاط اس میں ہے کہ صراحۃً اجازت لے لے۔
’’ ولو تصدق بدرا ھم نفسہ أجزأہ إن کان علی نیۃ الرجوع، وکانت دراھم المؤکل قائمۃ، بخلاف ماإذا أنفقھا أولا علی نفسہٖ، ثم دفع من مالہ، فھو متبرع۔‘‘ (شامیۃ:۲/۲۷۰)
’’ ومقتضاہ أنہ لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حنیئذ دلالۃ۔‘‘ (۲/۲۶۹)ھذا في الخلط، وحکم الاستبدال کذلک بحکم العرف، فلا یضمن ولا یأثم۔
وکیل نے زکوٰۃ کو مصرف میں استعمال نہیں کیا تو کیسے بری ہو گا؟
وکیل کے لیے جائز نہیں کہ زکوٰۃ دہند گان کی طرف سے معین کردہ مصرف کے علاوہ کسی اور جگہ زکوٰۃ کی رقم صرف کرے، اگر ایسا ہو جائے تو:
جس کو دیا ہے اگر وہ مصرفِ زکوٰۃ ہے اور اس کے پاس وہ مالِ زکوٰۃ باقی بھی ہے، اس نے ابھی تک خرچ نہیںکیا تو مالک کو اطلاع دے، اگر مالک بخوشی اس پر راضی ہو تو زکوٰۃ اداء ہو جائے گی، اگر اس نے اجازت نہیں دی یا اس مستحق کے ہاتھ سے زکوٰۃ کی رقم خرچ ہو گئی ہے تو پھر وکیل پر لازم ہے کہ زکوٰۃ دہندگان کو صورتِ حال بتا کر اتنی رقم اپنی طرف سے زکوٰۃ دہندگان کی ہدایت کے مطابق بطورِ زکوٰۃ کسی مستحق کو دے، زکوٰۃ دہندگان اگر اسے معاف کر دیں اورخود زکوٰۃ اداء کریں یا دوبارہ اسے زکوٰۃ کی رقم دے کر ادائیگی کا وکیل بنا دیں تو بھی صحیح ہے، اگر مالک کو اطلاع دینا ممکن نہ ہو تو وکیل اتنی رقم زکوٰۃ دہندگان کی طرف سے بتائے ہوئے مصرف میں خرچ کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ اس سے ذمہ فارغ ہو جائے گا۔
وکیل نے جس کو دیا ہے اگر وہ مصرف ِ زکوٰۃ نہیں تو اس میں مالکان کی اجازت سے بھی زکوٰۃ صحیح نہیں ہو سکتی بلکہ مذکور بالا تفصیل کے مطابق دوبارہ زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔
’’رجل جمع مالا من الناس؛ لینفقہ في بناء المسجد، فأنفق تلک الدراھم في حاجتہ، ثم رد بدلھا في نفقۃ المسجد لا یسعہ أن یفعل ذلک، فإن فعل فإن عرف صاحب المال، رد علیہ، أوسألہ تجدید الإذن فیہ، وإن لم یعرف صاحب المال استأذن الحاکم، وإن تعذر علیہ ذلک رجوت لہ في الاستحسان أن ینفق مثل ذلک من مالہ علی المسجد، فیجوز۔‘‘ (ھندیہ: ۲/۲۵۲)
وفي الشامیۃ في خلط أموال الزکاۃ: ’’ لأنہ ملکہ بالخلط، وصار مؤدیا من مال نفسہ۔ قال في التتارخانیۃ إلا إذا وجد الإذن أوأجاز المالکان اھ۔ أي جاز قبل الدفع إلی الفقیر … لکن قد یقال: تجزیٔ عن الآ مر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع۔‘‘ (۲/۲۶۹)
في الشامیۃ: ’’فلا یملک (الوکیل بالدفع إلی معین) الدفع إلی غیرہ کما لو أوصی لزید بکذا لیس للوصی الدفع إلی غیرہ۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۲۶۸)
وکیلِ زکوۃ دوسرے کو وکیل بناسکتا ہے اگرچہ اصل زکوٰۃ دہندہ کو علم نہ ہو:
اسلم نے اکرم کو وکیلِ زکوٰۃ بنایا،اکرم نے خود زکوٰۃ اداء نہیں کی بلکہ جاوید کو وکیل بنایا اور جاوید نے مستحق کو زکوٰۃ پہنچائی تو زکوٰۃ اداء ہو گئی، اگر چہ اصل زکوٰۃ دہندہ یعنی اسلم کو جاویدکے وکیل ہونے کا علم نہ ہو۔
’’ فرع: للوکیل بدفع الزکاۃ أن یؤکل غیر ہ بلا إذن۔ بحر عن الخانیۃ۔ وسیأتی متنا في الوکالۃ۔‘‘ (شامیۃ: ۲/۲۷۰)
وکیلِ زکوٰۃ کس کو دے سکتا ہے؟
وکیل ِزکوٰۃ کو اگر خاص شخص کو دینے کے لیے وکیل مقرر کیا جائے تو کسی اور کو نہیں دے سکتا، اگر مطلقاً فقراء و مساکین کو دینے کا وکیل بنایا گیا ہو تو خود نہیں لے سکتا، با قی جس مستحق کو بھی دے زکوۃ اداء ہو جائے گی، اگر چہ اپنی مستحق بیوی یا مستحق بالغ اولاد ہی کو دے، نابالغ مستحق اولاد کودینے میں یہ شرط ہے کہ یہ خود مستحق زکوٰۃ ہو ورنہ نابالغ بچوں کو نہیں دے سکتا۔
اگر اسے مکمل اختیاردیا جائے کہ آپ کی مرضی جہاں چاہیں اس زکوٰۃ کو صرف کر سکتے ہیں تو پھر خود بھی لے سکتا ہے، بشرطیکہ مستحقِ زکوٰۃ ہو۔
’’ وللوکیل أن یدفع لولدہ الفقیر وزوجتہ لا لنفسہ إلا إذا قال ربھا ضعھا حیث شئت۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’ وإذا کان ولداً صغیراً فلا بد من کونہ ھو فقیرا أیضا لأن الصغیر یعد غنیا بغنی أبیہ۔‘‘ (رد المحتار:۲/۲۶۹)
غیر مسلم کو وکیلِ زکوٰۃ بنا یا جا سکتا ہے:
اگر کسی شخص نے غیر مسلم کو وکیل بنایا کہ زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائو تو یہ صحیح ہے، بشرطیکہ اسے دیتے وقت دینے والے نے زکوٰۃ کی نیت کی ہو، اگر دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہیں کی تو جب تک یہ مال فقیر کی ملکیت میں موجود ہے اس وقت تک نیت کر لے توزکوٰۃاداء ہوجائے گی، البتہ اگر وہ مال فقیر کی ملکیت سے کسی بھی وجہ سے نکل جائے تو پھر زکوٰۃ کی نیت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں،زکوٰۃ اداء نہ ہو گی۔
في الدر: وشرط صحۃ أدائھا نیۃ مقارنۃ لہ ولو حکما کما لو دفع بلا نیۃ ثم نوی، والمال قائم في ید الفقیر أو نوی عند الدفع إلی الوکیل ثم دفع الوکیل بلانیۃ، أودفعھا لذمی، لید فعھا جاز، لأن المعتبر نیۃ الآمر۔‘‘ (۲/۲۶۸)
زکوۃ کا وکیل بنایا لیکن زکوٰۃ کی رقم نہیں دی
اسلم نے اکرم کو زکوۃ دینے کا وکیل تو بنایا لیکن اسے زکوۃ کی رقم نہیں دی، بلکہ اسے کہا کہ میری طرف سے زکوٰۃ کی اتنی رقم اداء کرو اور اکرم نے اتنی رقم مستحقین کو دے دی تو زکوۃ اداء ہو گئی۔اب یہ اداء شدہ رقم اکرم کا اسلم کے ذمہ قرض ہے،بعد میں اس سے وصول کر سکتا ہے۔
’’ وفیہ إشارۃ إلی أنہ لا یشترط الدفع من عین مال الزکوۃ ولذا لو أمر غیرہ بالدفع عنہ جاز، کما قد مناہ۔‘‘ (شامیۃ:۲/۲۷۰)
کسی کی طرف سے بلا اجازت زکوٰۃ دی تو اداء نہیں ہوئی:
عمران پر زکوٰۃ فرض ہے، سلیمان نے اس کی اجازت کے بغیر اس کی طرف سے زکوٰۃ دے دی تو اس سے زکوٰۃ اداء نہیں ہوئی، اگر عمران بعد میں اجاز ت بھی دے دے تب بھی درست نہیں اور جتنی رقم سلیمان نے عمران کی طرف سے دی ہے وہ عمران سے وصول کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔
في الشامیۃ: ’’لو أدی زکوٰۃ غیرہ بغیرأمرہ، فبلغہ، فأجازلم یجز؛ لأنھا وجدت نفاذاً علی المتصدق؛ لأنھا ملکہ، ولم یصرنائبا عن غیرہ، فنفذت علیہ۔‘‘ (۲/۲۶۹)
معدنیات کا حکم:
معدنیات دو قسم کی ہوتی ہیں: جامد اور مائع
پھر جامد کی دو قسمیں ہیں:
ایک وہ جو گلانے پگھلانے سے گل پگھل جائے، اس میں سونا، چاندی، لوہا، قلعی، پیتل وغیرہ آتے ہیں،اس قسم کی معدنیات دارالاسلام میں غیر مملوکہ زمین میں برآمد ہوں تو برآمد شدہ دھات سے اخراجات ومصارف منہا کیے بغیر پانچواں حصہ شرعی بیت المال میں جمع کرنا لازم ہے، باقی چار حصے پانے والے کے ہیں،جن سے وہ کھدائی، سروے وغیرہ کی اجرت بھی اداء کرے گا۔نیز اس میں قلیل کثیرکا کوئی اعتبار نہیں اورنہ سال گزرنا شرط ہے بلکہ جو کچھ بھی برآمد ہوا س کا پانچواں حصہ نکالنا ضروری ہے، یہ پانچواں حصہ برآمد کرنے والا اپنی مرضی سے بھی فقراء پر خرچ کر سکتا ہے، اپنے والدین اور اولاد کو بھی دے سکتا ہے،اگر یہ خود مفلس ہے اور باقی چار حصے اس کی کفایت نہیں کرتے تو اس صورت میں اپنے اوپر بھی خرچ کر سکتا ہے۔
باقی وہ جامد دھات جو پگھلانے س
ے نہ پگھل سکے، نیز مائعات جیسے مٹی کا تیل وغیرہ میں خمس پانچواں حصہ بھی لازم نہیں، تمام کا تمام پانے والے کا ہو گا۔
البتہ پارہ اگر برآمد ہوتو امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس میں پانچواں حصہ حسبِ تفصیل سابق لازم ہے۔
اگر کسی کی مملوکہ زمین میں یہ معدنیات پائی جائیں تو اس میں بھی پانچواں حصہ ما سبق تفصیل کے مطابق لازم ہے، البتہ اس میں باقی چار حصے مالک زمین کے ہوں گے، پانے والا یہ خود ہو یا کوئی اور۔
’’ وجد مسلم أوذمي… معدن نقد ونحو حدید وھو کل جامع ینطبع بالنار ومنہ الزیبق فخرج المائع کنفط وقاد وغیر المنطبع کمعادن الأحجار … خمس وباقیہ لما لکھا ان ملکت، وإلا فللواجد … والحاصل ان الکنز یخمس کیف کان، والمعدن إن کان ینطبع۔ (شامیہ: ۲/۳۱۸۔۳۲۲)
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی