03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تراویح کے مسائل

مسجد سے باہر تراویح کی جماعت:

سوال: نماز تراویح مسجد چھوڑ کر مکان یا دوسری جگہ حافظ مقرر کر کے پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ (اجمل خان۔ کراچی)

جواب: فرائض مسجد میں جماعت کے ساتھ اداء کر کے صرف تراویح کی جماعت دوسری جگہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ مسجد میں بھی تراویح کی جماعت ہو، اگر محلّہ کی کسی مسجد میں بھی تراویح کی جماعت نہ ہو تو سب گنہگار ہوں گے۔

في الھندیۃ: ’’ولو ترک أہل المسجد کلہم الجماعۃ فقد أساء وا وأثموا … وبہذا تبین أنہ إذا کان لا یختم في مسجد حیہ، لہ أن یترک مسجد حیہ ویطوف۔‘‘ (۱/۱۱۶)

مسافر، مریض اور عورت کے لیے تراویح کا حکم:

سوال: مسافر، مریض اور عورت اگر تراویح پڑھ لیں تو کوئی کراہت تو نہیں؟ (محمد اصغر۔ مظفر آباد)

جواب: تراویح مرد اور عورت دونوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے، اس لیے خواتین کو اپنے گھروں میں انفرادی طور پر تراویح پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ مسافر اور مریض کو اگر تراویح پڑھنے میں کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہو تو پڑھنا افضل ہے۔

’’التراویح سنۃ مؤکدۃ… للرجال والنساء۔‘‘ (درمختار: ۲/۴۳)

عورتوں کا تراویح کی جماعت میں شریک ہونا یا خود جماعت کروانا:

سوال: بعض جگہ مساجد میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ کا انتظام ہوتا ہے اور وہ مسجد کی جماعت میں شریک ہوتی ہیں۔ اسی طرح جو لڑکیاں حافظہ ہوتی ہیں وہ گھر میں تراویح پڑھاتی ہیں، گھر کی اور پڑوس کی خواتین بھی اس جماعت میں شریک ہوتی ہیں، حافظہ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اس کے بغیر قرآن بھول جانے کا اندیشہ ہے۔ کیا شریعت کی رو سے عورتوں کا علیحدہ جماعت کروانا یا مردوں کی جماعت میں شریک ہونا جائز ہے؟(متعدد سائلین)

جواب:خواتین کا تراویح کے لیے مسجدوں میں جانا جائز نہیں، جب فرض نماز کے لیے عورتوں کا مسجد کی جماعت میں شریک ہونا جائز نہیں تو تراویح کے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہیـ؟ نیز عورتوں کو تراویح کی جماعت میں شریک ہونے کا کوئی اضافی ثواب نہیں ملتا، جیسا کہ مردوں کو ملتا ہے۔ عورت کی سب سے افضل نماز حدیث کی رو سے وہ ہے جو وہ گھر کے تاریک تر کمرے میں اداء کرے۔  

اسی طرح عورتوں کا گھروں میں علیحدہ جماعت کروانا بھی مکروہ ہے، نیز خواتین کا تراویح پڑھنے کے لیے گھروں سے نکلنا ضرورت میں داخل نہیں اور بلا ضرورت گھر سے نکلنا جائز نہیں، علاوہ ازیں عموماً عورتوں کی آواز گھر کے اندر یا باہر اجنبی اور غیر محرم مردوں تک پہنچتی ہے جس سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے،نیز خواتین کے اجتماع میں اور بھی کئی مفاسد ہیں، اس لیے خواتین کو اس سے سخت اجتناب لازم ہے۔ نیز سرپرستوں پر فرض ہے کہ وہ انہیں اس منکر سے سختی سے منع کریں، ورنہ وہ بھی گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔

حافظہ لڑکیوں کو چاہئے کہ پورا سال تلاوت و منزل کا اہتمام کریں، قرآن پختہ رہے گا، قرآن کی پختگی کا بہانہ بنا کر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہر گز نہ کریں۔

فی الدر المختار’’ویکرہ تحریما جماعۃ النساء، ولو التراویح في غیر صلاۃ جنازۃ۔‘‘ وفي الحاشیۃ: ’’ أفاد أن الکراہۃ في کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال، فرضا أو نفلا۔‘‘ (ردالمحتار مع الدر: ۱/۵۶۵)

راجح قول جسے اکثر فقہاء نے اختیار فرمایا ہے وہ یہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے ، لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے بعض حافظہ لڑکیاں ایسے ماحول میں گھری ہوتی ہیں کہ ان کے لئے روزانہ پابندی سے منزل پڑھنا ممکن نہیں ہوتا ، لہذا جن حافظہ لڑکیوں کی واقعتاً ایسی مشغولیت ہو کہ پورا سال روزانہ اہتمام سے قرآن نہ پڑھ سکتی ہوں اور ان کے لیے قرآن یاد رکھنے کی واحد صورت یہی ہو کہ رمضان میں تراویح میں سنائیں تو ان کے لیے اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ تراویح کی جماعت کروانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کا اہتمام کریں کہ ان کی آواز کسی غیرمحرم تک نہ پہنچے۔

اسی طرح آج کل کے بے دینی کے ماحول میں اگر کسی گھر میں خواتین کی تراویح کا اہتمام اس غرض سے ہو کہ خلاصۂ تفسیر یا وعظ ونصیحت کے ذریعے خواتین کو دیندار بنانے کی کوشش کی جائے تو اڑوس پڑوس کی خواتین شریک ہوسکتی ہیں ، بعض فقہاء نے عورتوں کی جماعت کو بلا کراہت جائز قرار دیا ہے ، ایسے اہم مقصد کے حصول کے لئے ان فقہاء کی رائے پر عمل کر نے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔(فتح القدیر لکمال ابن ھمام :باب الامامۃ : ۱؍۳۵۴   شاملہ)

تراویح میں قعدہ بھول کر تیسری، چوتھی رکعت بھی ملالی:

سوال: تراویح میں دوسری رکعت پر قعدہ بھول گیا اور سہواً تیسری چوتھی رکعت بھی پڑھ لی تو نماز صحیح ہوئی یا نہیں؟ اگر صحیح ہوگئی تو چاروں رکعات یا کہ دو؟ اگر دو ہوئیں تو پہلی دو ہوئیں یا آخری؟(خالد اقبال۔ کراچی)

جواب: اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہے، اگر سجدہ سہو کرلیا تو اس میں دو قول ہیں، پہلا راجح قول یہ کہ دوسری دو رکعات تراویح کی ہوگئیں اور پہلی دو نفل ہوگئیں، لہٰذا پہلی دو رکعات اور ان میں جو  قرآن پڑھا گیا اسے دہرانا ضروری ہے۔

دوسرا قول فقیہ أبو اللیث سمر قندی رحمہ اﷲ کا ہے کہ چار وں رکعتیں صحیح ہو گئیں، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جب پہلی دو رکعتوں میں قرآن کی تلاوت زیادہ مقدار میں ہوئی ہو اور اس کو دہرانے میں لوگ بوجھ محسوس کر رہے ہوں تو اس دوسرے قول پر بھی عمل کرنے کی گنجائش ہے اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو چاروں رکعات اور ان میں پڑھاگیا قرآن دہرانا ضروری ہے۔فتاوی ہندیۃ(۱/۱۱۸)

دوسری رکعت پر قعدہ کیا سلام نہیں پھیرا:

سوال:زید تراویح کی دوسری رکعت پر بیٹھ کر سہواً اٹھ گیا اور چار رکعت پوری کرلیں تو تراویح کی دو رکعت ہوں گی یا چار رکعت؟ سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟(عامر خان۔ سرگودھا)

جواب:اگر دو رکعت پر بیٹھ کر تشہد پڑھ لیا، پھر کھڑا ہوا تو چار رکعت ہوگئیں، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں اور اگر تشہد مکمل کیے بغیر اُٹھ گیا تو مسئلہ بالا والی تفصیل ہے۔

في الھندیۃ: ’’وإن قعد في الثانیۃ قدر التشہد، اختلفوا فیہ، فعلیٰ قول العامۃ یجوز عن تسلیمیتن، وہو الصحیح، ہٰکذا في فتاوٰی قاضیخان۔‘‘(۱/۱۱۸)

ایک قعدہ سے تین رکعات تراویح:

سوال: امام تراویح کی دوسری رکعت پر بغیر قعدہ کیے سہواً کھڑا ہوگیا، تین رکعتیں پڑھ کر سجدہ سہو کرلیا تو دو رکعتیں صحیح ہوں گی یا نہیں؟(محمد الطاف۔ راولپنڈی)

جواب: راجح قول کے مطابق صحیح نہیں ہوںگی، قعدہ اولیٰ عمداً چھوڑ دیا ہو یا سہواً، لہٰذا ان دو رکعتوں کا دوبارہ پڑھنا لازم ہے۔فتاوی  قاضیخان(۱؍۱۱۸ ،ش)

نابالغ سامع کو صف اول میں کھڑا کرنا:

سوال: تراویح کی جماعت میں بعض جگہ سامع نا بالغ بچہ ہوتا ہے اور سامع کو صف اول میں کھڑا ہونا ضروری ہوتا ہے، کیا اس صورت میں نا بالغ کو صف اول میں کھڑا کرنا جائز ہے؟    (عطاء اﷲ۔ لاہور)

جواب: نا بالغ بلا ضرورت بھی بالغین کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے، ضرورت مذکورہ سے بطریق اولیٰ جائز ہے۔ (أحسن الفتاویٰ: ۳/۵۱۷)

فرض پڑھے بغیر وتر کی جماعت میں شرکت صحیح نہیں:

سوال: زید ایسے وقت مسجد میں آیا کہ وتر کی جماعت کھڑی تھی تو زید وضو کر کے وتر کی جماعت میں شریک ہو جائے یا عشاء کی نماز اور تراویح اداء کرے؟

جواب:پہلے فرض پڑھے، اس کے بعد وتر کی جماعت مل جائے تو شریک ہو جائے، اس کے بعد تراویح پڑھے۔ الہندیۃ: (۱/۱۱۷)

وتر تراویح سے پہلے پڑھ لیے تو ان کا اعادہ واجب نہیں:

سوال: ۲۹؍ شعبان کو رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے ابھی تک رمضان کے چاند کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ عشاء کی نماز کا وقت ہوگیا، عشاء کی نماز اور اس کے بعد سنتیں اور بہت سے لوگوں نے حسب معمول وتر بھی پڑھ لیے، بعد میں اعلان ہوا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا۔ اس کے بعد تراویح کی جماعت ہوئی۔ اب جن لوگوں نے وتر تراویح سے پہلے پڑھ لیے تھے کیا ان پر لازم ہے کہ تراویح کے بعد وتر دوبارہ پڑھیں؟

جواب: وتر مستقل نماز ہے، اس لیے جن لوگوں نے تراویح سے پہلے وتر پڑھ لیے تھے ان کے وتر ادا ہوگئے، ان کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ جن حضرات نے وتر نہیں پڑھے تھے، تراویح کے بعد وتر میں صرف وہی شریک ہوں۔(ردالمحتار)

قرآن دیکھ کر لقمہ دینا مفسد ہے:

سوال:حافظ کو تراویح میں قرآن دیکھ کر لقمہ دینا جائز ہے یا نہیں؟(کامران۔کراچی)

جواب:قرآن میں دیکھ کر لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر امام نے لقمہ لے لیا تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ (ردالمحتار: ۱/۶۲۲)

رمضان میں قضاء عمری، ایک غلط عقیدہ:

سوال: بعض لوگ جمعۃ الوداع کو جماعت کے ساتھ قضاء نماز پڑھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ پوری زندگی کی فوت شدہ نمازوں کے لیے کافی ہے، اسے قضاء عمری کہتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ رمضان میں اس نیت سے فوت شدہ نمازیں قضاء پڑھتے ہیں کہ ایک نماز پڑھنے سے ستر قضاء نمازوں کی ادائیگی ہو جائے گی، کیونکہ مشہور ہے کہ رمضان میں ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ملتا ہے۔ شرعاً یہ عقیدہ و عمل کیسا ہے؟(فرمان اﷲ۔ پشاور)

جواب: یہ دونوں عقیدے غلط ہیں، قضاء عمری کو فقہاء نے بدعت قرار دیا ہے، اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں،ایک منگھڑت حدیث میں اس کا ذکر ہے، اسی طرح ایک نماز قضاء پڑھنے سے ستر قضاء نمازوں کی ادائیگی کا بھی شرعاً کوئی ثبوت نہیں، جتنی نمازیں فوت ہوئیں ان سب کی قضاء فرض ہے، خواہ رمضان میں کرے یا غیر رمضان میں۔

ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ملنے کا ایک حدیث میں ذکر ہے، مگر وہ حدیث ضعیف ہے اور فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ اسے سنت نہ سمجھا جائے۔ اگر حدیث کو قابل استدلال تسلیم کر بھی لیا جائے تو وہ رمضان میں اداء کیے جانے والے اعمال صالحہ کے بارے میں ہے اور قضاء نمازیں پڑھنا تو قرض کی ادائیگی کی طرح ہے، کیا رمضان میں کسی کا ستر ہزار کے قرض خواہ کو ایک ہزار روپے قرض اداء کرنا ستر ہزار اداء کرنے کے قائم مقام ہوسکتا ہے؟ غرض اس حدیث سے ایک قضاء نماز پڑھ کر ستر نمازوں کے اداء ہو جانے کا ثبوت قطعاً نہیں ملتا۔ نیز مروجہ قضاء عمری میں بدعت ہونے کے علاوہ بھی بہت سے مفاسد ہیں، مثلاً: لوگ اسے اس عقیدہ کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ اس سے عمر بھر یا کم از کم ایک سال کی فوت شدہ نمازیں قضاء ہو کر ان سے ذمہ فارغ ہو جاتا ہے اور یہ عقیدہ اجماع  امت کے خلاف اور بتصریح فقہاء موجب ِ کفر ہے۔ (بزازیہ علی الہندیۃ: ۶/۳۴۱)

اسی طرح قضاء نماز اس طرح پڑھنا کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ قضاء نماز پڑھی جا رہی ہے مکروہ تحریمی ہے، خواہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو۔ (ردالمحتار مع الدر: ۱/۳۹۱)

وہیل چیئر پر بیٹھ کر امامت:

سوال: ایسے معذور قاری کے پیچھے تراویح پڑھنا کیسا ہے جو سجدہ کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور وہیل چیئر (کرسی) پر بیٹھ کر اشارے سے سجدہ کرتا ہو؟ (محمد جہانگیر خلیل۔ پشاور)

جواب: ایسے معذور کے پیچھے نماز درست نہیں۔

في الدر: ’’ ولا قادر علی رکوع وسجود بعاجز عنہما۔‘‘ (۱/۵۷۹)

پندرہ سالہ لڑکے کے پیچھے تراویح درست ہے:

سوال: ایک حافظ جس کی عمر پندرہ سال چار ماہ ہے اور وہ خود کو بالغ کہتا ہے، لیکن بلوغ کی ظاہری علامات اس پر دکھائی نہیں دیتیں، کیا ایسے حافظ کے پیچھے تراویح جائز ہے؟ اس کے والد نے جواز کا فتویٰ بھی لیا ہے، مگر ایک اور مولوی صاحب کہتے ہیں کہ سن بلوغ سترہ سال ہے۔ یہ ابھی بالغ نہیں ہے۔ برائے کرم ہماری تشویش کو دور فرمائیں۔ (محمد اصغر، عزیز احمد وغیرہ۔ تونسہ شریف)

جواب: مفتی بہ قول کے مطابق سنِ بلوغ ۱۵ سال ہے، ظاہری علامات کا اعتبار نہیں ہے، پھر جب وہ خود بلوغ کا اقرار کرتا ہے تو شک کی کوئی وجہ نہیں۔ (رد المحتار: ۱/۱۶۸)

لہٰذا اس حافظ کے پیچھے بلا تشویش تراویح پڑھتے رہیں۔

تراویح آٹھ رکعت یا بیس رکعت؟

سوال: بعض لوگ آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر چلے جاتے ہیں، کیا اس کا حدیث سے کوئی ثبوت ہے؟ (حافظ محمد طاہر۔ باغ آزاد کشمیر)

جواب: آٹھ رکعت کا کوئی ثبوت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین، ائمہ اربعہ اور تمام فقہاء کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ کا چودہ سو سال سے بیس رکعت تراویح پر اجماع اور مسلسل تعامل چلا آرہا ہے۔ (ردالمحتار مع الدر: ۲/۴۵ ، أحسن الفتاویٰ: ۳/۵۲۷)

تراویح پڑھے بغیر وتر کی جماعت میں شرکت:

سوال: بکر کو دوران تراویح آخری ترویحہ سے پہلے وضو کی ضرورت پیش آگئی، وہ وضو کرکے واپس ایسے وقت میں آیا کہ تراویح کی جماعت اختتام پر تھی، بکرنے فرض و سنن مؤکدہ اداء کیں تو تراویح کی جماعت ختم ہو کر وتر کی جماعت کھڑی ہوگئی، اب اگر بکر پہلے چار رکعت تراویح پڑھتا ہے تو اندیشہ ہے کہ وتر کی جماعت نکل جائے گی، تو کیا بکر وتر کی جماعت میں شریک ہو جائے یا اپنی تراویح پڑھے؟ (خالد حسین۔ مری)

جواب: وتر کی جماعت میں شریک ہو جائے، اس کے بعد تراویح پڑھے۔الہندیۃ: (۱/۱۱۷)

دو سورتوں کے درمیان بسم اﷲ کا حکم:

سوال: تراویح میں دو سورتوں کے درمیان بسم اﷲ کا کیا حکم ہے؟ جہراً پڑھی جائے یا سراً؟ یا بالکل ترک کردی جائے؟ جیسا کہ بعض ایسا کرتے ہیں، نیز فرائض میں تسمیہ بین السور تین کا کیا حکم ہے؟

جواب: فرائض و تراویح دونوں میں دو سورتوں کے درمیان بسم اﷲ پڑھنا افضل ہے، مگر قراء ت خواہ جہریہ ہو یا سریہ، بہر کیف بسم اﷲ آہستہ پڑھے، اس میں جہر خلاف سنت ہے۔ چونکہ تسمیہ قرآن کریم کا جزء ہے اس لیے تراویح میں کسی بھی ایک سورۃ کے ساتھ بلند آواز سے ضرور پڑھے تاکہ مقتدیوں کا قرآن مکمل ہو جائے۔(ردالمحتار: ۱/۴۹۰)

شبینہ کا حکم:

سوال:گذشتہ چند سال سے یہ طریقہ رائج ہے کہ تراویح پڑھانے والا بارہ رکعت کے بعد مصلی چھوڑ دیتا ہے اور بقیہ آٹھ تراویح امام صاحب پڑھاتے ہیں، کچھ مقتدی بھی حافظ کے ساتھ تراویح چھوڑ دیتے ہیں اور وتر کی جماعت کے بعد حافظ صاحب اور ان کے ساتھ تراویح چھوڑنے والے مقتدی اپنی بقیہ آٹھ رکعت تراویح شروع کرتے ہیں، دوسرے بہت سے مقتدی بھی ان کے ساتھ نوافل کی نیت سے نماز میں شریک ہو جاتے ہیں، شبینہ تقریباً دو اڑھائی بجے تک رہتا ہے، اس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا خاص انتظام ہوتا ہے، بعض حضرات کو متوجہ کیا گیا کہ چند آدمیوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال سوائے نمائش کے کچھ بھی نہیں تو انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ گانا بجانا عام ہے، جگہ جگہ ریکارڈنگ ہوتی ہے، تو ہم کیوں لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کریں ؟اس کا شرعاً حکم کیا ہے؟

جواب: اس قسم کے متعارف شبینہ میں کئی قبائح ہیں، مثلاً:

1 :۔ اگر امام مقتدی سب نوافل میں قرآن پڑھ سن رہے ہوں تو نوافل کی جماعت، جو مکروہ ہے۔

اگر حافظ اور کچھ مقتدی تراویح پڑھ رہے ہوں تو یہ خرابی اگر چہ نہ ہو گی مگر مندرجہ ذیل قباحتیں تو بہر حال ہیں:

2 :۔ لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے اہل محلّہ کے کام، آرام اور عبادات میں خلل۔

3 :۔ نام و نمود۔

4 :۔ بعض لوگوں کا جماعت میں کھڑے ہونا اور بقیہ کا بیٹھے رہنا،جو جماعت اور قرآن کے احترام کے خلاف ہے۔

5 :۔ ضرورت سے زیادہ روشنی اور مٹھائی وغیرہ کا التزام۔

6:۔  اس غلط رسم کے لیے چندہ کرنا، جبکہ بعض لوگ بغیر طیب خاطر کے محض مروت میں چندہ دیتے ہیں،جس کا استعمال حرام ہے۔

7 :۔ بعض جگہ حافظ صاحبان جلد ختم کرنے کی غرض سے اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ نہ الفاظ صحیح مخارج سے ادا ہوتے ہیں، نہ کسی کی سمجھ میں کچھ آتا ہے، یہ تلاوت کے آداب کی سخت خلاف ورزی ہے۔

مندرجہ بالا اور بعض دیگر خرابیوں کی بناء پر مروّجہ شبینہ جائز نہیں۔ (مأخذہ أحسن الفتاویٰ: ۳/۵۲۱)

تراویح کن لوگوں کے پیچھے جائز نہیں

قاری اور سامع کو کچھ لینا دینا حرام اور ایسے قاری کے پیچھے تراویح نا جائز ہے:

سوال: رمضان میں ختم قرآن پر قاری اور سامع اگر کچھ معاوضہ طے نہ کریں، ویسے ہی اہل مسجد ان کی کچھ خدمت کردیں یا کپڑوں کا جوڑا بنادیں تو یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب: چونکہ ہمارے معاشرے میں تراویح پڑھانے والے حفاظ و قراء کو معاوضہ دینے کا عام رواج ہے، فریقین کو پہلے سے اس کا علم ہوتا ہے، لہٰذا قاعدہ ’’المعروف کالمشروط‘‘ کے تحت خدمت کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی معاوضہ ہی ہے اور اجرت طے کرنے کی بنسبت زیادہ قبیح ہے، اس لیے کہ اس میں دوگناہ ہیں، ایک قرآن سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہالت اجرت کا گناہ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قاری اور سامع بھی اﷲ واسطے کام کرتے ہیں اور ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ان کی خدمت کرتے ہیں، معاوضہ مقصود نہیں،فریقین اس دعوی میں کس حد تک سچے ہیں ؟ یہ معلوم کرنے کے لیے بعض علماء کرام نے یہ امتحان رکھا ہے کہ اگر قاری اور سامع کو کچھ بھی نہ ملے تو وہ آیندہ بھی اس مسجد میں خدمت کے لیے آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور اہل مسجد کا امتحان یہ ہے کہ اگر یہ قاری اور سامع ان کی مسجد میں نہ آئیں تو بھی یہ لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں یا نہیں؟ اب دور حاضر کے لوگوں کو اس کسوٹی پر لایئے، قاری اور سامع کو اگر کسی مسجد سے کچھ نہ ملا توعمومًا آیندہ وہ اس مسجد کی طرف رخ بھی نہیں کریں گے اور اہل مسجد کا یہ حال ہے کہ جس قاری یا سامع نے ان کی مسجد میں کام نہیں کیا وہ خواہ کتنا ہی محتاج ہو، عمومًاان کو اس کی زبوں حالی پر قطعاً کوئی رحم نہیں آتا، اس سے ثابت ہوا کہ جانبین کی نیت معاوضہ کی ہے اور للہیت کے دعوے میں جھوٹے ہیں، لہٰذا اس طرح سننے اور سنانے والے سب سخت گنہگار اور فاسق ہیں اور ایسے قاری کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔

فرائض میں فاسق کی امامت کا حکم یہ ہے کہ اگر صالح امام میسر نہ ہو یا فاسق امام کو ہٹانے کی قدرت نہ ہو تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھ لی جائے،جماعت ترک نہ کی جائے، مگر تراویح کا حکم یہ ہے کہ کسی حال میں بھی فاسق کی ا قتداء میں جائز نہیں، اگر صالح حافظ نہ ملے تو چھوٹی سورتوں سے ایسے غیرحافظ امام کے پیچھے تراویح پڑھ لی جائیں جو معاوضہ نہ لیتا ہو، اگر محلّہ کی مسجد میں اجرت لینے والاحافظ تراویح پڑھائے تو فرض مسجد میں جماعت کے ساتھ اداء کر کے تراویح الگ مکان میں جماعت سے پڑھیں۔ (الھندیۃ: ۱/۱۱۶)

بالفرض کسی قاری کا مقصود معاوضہ نہ ہو تو بھی لین دین کے عرف کی وجہ سے اس کی توقع ہوگی اور کچھ نہ ملنے پر افسوس ہوگا، یہ اشراف نفس ہے جو حرام ہے۔

اگر کسی قاری کو اشراف ِنفس سے بھی پاک تصور کرلیا جائے تو بھی اس لین دین میں عام مروّج فعل حرام سے مشابہت اور اس کی تائید ہوتی ہے، علاوہ ازیں دینی غیرت کے بھی خلاف ہے، اس لیے بہرکیف اس سے کلی اجتناب واجب ہے۔( ردالمحتار: ۶/۵۶ ۔ ۵۷)

          البتہ طے کئے بغیر حافظ وسامع کو جو کچھ دیا جا تاہے وہ دلا لۃً (یعنی ظاہری احوال وقرائن کے اعتبار سے )معاوضہ بنتاہے ،لیکن اگر حا فظ وسامع یہ صراحت کر دیں کہ ہم کو ئی عوض نہیں لیں گے اور مقتدی بھی اسے قبول کر لیں کہ ٹھیک ہے ہم معاوضہ نہیں دیں گے ، پھر ختم قرآن پر کچھ لوگ خوش ہو کر دلی خو شی سے کوئی ہدیہ دے دیں تو وہ ہدیہ ہی ہو گا اور لینا جا ئز ہو گا ۔

تراویح کی اُجرت کے عدم جواز پر اشکال کا جواب:

سوال:حافظ قرآن کو تراویح میں قرآن سنانے اور سامع کو سننے کی اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو امامت و خطابت اور تدریس پر اجرت لینا کیوں جائز ہے؟ یہ بھی تو دین کے کام ہیں۔ (محمد عیسیٰ سعید۔ بٹگرام، ظفر محمد۔ جہلم)

جواب: تراویح کی اجرت نا جائز اور امامت و خطابت اور تدریس کی اجرت جائز ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ دین کی حفاظت فرض ہے اور دین کی حفاظت و بقاء امامت و خطابت اور درس و تدریس پر موقوف ہے، اگر ان امور پر اجرت لینے کو نا جائز قرار دیا جائے تو بیت المال کا نظام (جو ان شعبوں میں ہمہ تن مشغول رہنے والے علماء و ائمہ کی کفالت کا ضامن ہوا کر تاتھا) نہ ہونے کی وجہ سے سب اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے ذرائع معاش اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے اور ان خدمات کے لیے افراد کا ملنا مشکل بلکہ محال ہو جائے گا، نتیجۃًمسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی سے تمام احکام شرعیہ رفتہ رفتہ مٹ جائیں گے۔ اس لیے بیت المال کا نظام درہم برہم ہو جانے کے بعد متأخرین فقہاء حنفیہ رحمہم اﷲ تعالیٰ نے ان امور دینیہ پر اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک تو پہلے سے ان طاعات پر اجرت لینا جائز تھا۔۔

جبکہ تراویح میں قرآن سنانے پر دین کی حفاظت وبقاء موقوف نہیں، نیز رمضان سال میں صرف ایک بار آتا ہے، حافظ قرآن کا کوئی نہ کوئی ذریعۂ معاش یا درس و تدریس کا سلسلہ ہوتا ہے، جس سے وہ پورا سال گزر بسر کرتا ہے، اس کی معاش اسی ایک ماہ کی اجرت پر موقوف نہیں ہوتی، اس لیے فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے کی اجرت جائز نہیں، لینے اور دینے والے دونوں فریق گنہگار ہوں گے۔

اگر کسی امام و خطیب یا مدرس کو معاشی تنگی کا سامنا ہے اور تنخواہ سے اس کا گزارا مشکل ہے تو اہل محلّہ کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تنخواہ میں بقدر ضرورت اضافہ کریں تاکہ وہ فراغت اور دلجمعی سے دینی خدمات سر انجام دے سکے، یہ مسلمانوں کی دنیوی اور جسمانی ضروریات سے زیادہ بڑی اور اہم ضرورت ہے کہ علماء و ائمہ اور حفاظ و قراء کو معاشی ضرورتوں سے بے فکر کر کے انہیں خدمات دینیہ کے لیے فارغ رکھیں، اسی میں عوام اور ان کی آیندہ نسلوں کے دین کی حفاظت ہے۔

علماء و ائمہ کو بھی چاہئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے پر قناعت کریں اور اخلاص و استغناء سے اصول شرعیہ کے مطابق خدمت دین میں مشغول رہیں، اﷲ تعالیٰ خود ان کی ہر ضرورت کے پورا ہونے کا غیب سے انتظام فرمائیں گے اور عزت سے کھلائیں گے۔

حفاظ کرام چند ٹکوں کی خاطر ﷲ قرآن سنانے کے اجر عظیم سے خود کو کیوں محروم کرتے ہیں؟ حدیث میں ہے: ’’اقرؤا القرآن ولا تأکلوابہ‘‘۔

          ترجمہ: قرآن پڑھو اور اسے کسب کا ذریعہ نہ بناؤ۔

عالم اسلام کے مایہ ناز فقیہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ردالمحتار‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ویمنع القاری للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان… والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر لأجل الدنیا اھـ‘‘۔ (رد المحتار: ۶/۵۵ ۔ ۵۷)

’’یعنی دنیا کی کسی چیز کی خاطر قرآن کی تلاوت نا جائز ہے، لینے اور دینے والا دونوں یقینا گنہگار ہیں اور تلاوت پر لیا گیا عوض حرام ہے‘‘۔

اﷲ تعالیٰ سب کو اپنی مرضی کے مطابق خدمت دین کی توفیق عطاء فرمائیں۔

ڈاڑھی کٹانے والے کے پیچھے تراویح جائز نہیں:

سوال:زید امام مسجد ہے، وہ اپنی ڈاڑھی کو کبھی مشین سے خشخشی کراتا ہے اور کبھی قینچی سے کتراتا ہے، یعنی اس کی ڈاڑھی ایک مشت سے کم ہے، اگر کوئی اس سے پوچھے کہ آپ ایک مشت یا اس سے زیادہ کیوں نہیں رکھتے تو جواب دیتا ہے کہ ڈاڑھی کا صرف منہ پر آنا ضروری ہے، ایک مشت یا اس سے زیادہ رکھنا ضروری نہیں، زید کے اس جواب کی شرعی نوعیت کیا ہے اور ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

بکر حافظ قرآن اور خوش الحان ہے اور وہ بھی اپنی ڈاڑھی کتراتا ہے، اس کی ڈاڑھی زید کی طرح ہے، صورت و سیرت میں متبع شریعت حفاظ بآسانی مل سکتے ہیں، اگر کسی مسجد کی انتظامیہ کے کچھ ارکان بکر کو تراویح میں قرآن سنانے کے لیے مقرر کردیں تو حافظ مذکور کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ اگر مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر یا ممبر پابند ِشریعت حافظ کی جگہ بکر جیسے کا تقرر کریں، جب کہ ان کو مسئلہ بھی بتا دیا جائے تو ایسے ارکان کے لیے شریعت مقدسہ کا کیا حکم ہے؟ ایسے حافظ یا ائمہ جو ڈاڑھی مشت سے کم رکھ کر تراویح یا پنجگانہ نماز کے امام بن جاتے ہیں، ان کے لیے شریعت مقدسہ کا کیا حکم ہے؟ مساجد و مدارس عربیہ کی انتظامیہ کمیٹی کا صدر یا متولی یا مہتمم کا صورت و سیرت میں حتی الوسع متبع شریعت ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ {وَمَا کَانُوْا أَوْلِیَآئَہ‘ إِنْ أَوْلِیَآؤُہ‘ إِلَّاالْمُتَّقُوْنَ} [سورۃ الانفال:آیت:۳۴]کا مفہوم کیا ہوگا؟

جواب:ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرنا بالاتفاق حرام ہے بلکہ شریعت کی علانیہ بغاوت ہونے کی وجہ سے دوسرے کبائر سے بھی شدید گناہ ہے، لہٰذا زیداور بکردونوں فاسق ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، متبع شریعت حافظ نہ ملے تو بھی فاسق کو تراویح کا امام بنانا جائز نہیں، فرائض میں صالح امام میسر نہ ہو تو جماعت نہ چھوڑے بلکہ اس کے پیچھے فرض نماز پڑھ لے مگر تراویح میں فاسق کی اقتداء کسی صورت میں بھی جائز نہیں، صالح حافظ نہ ملنے کی صورت میں تراویح چھوٹی سورتوں سے پڑھی جائے، اگر ڈاڑھی کٹانے والے کو مسجد کی منتظمہ متعین کردے تو بھی اس کی اقتداء میں تراویح پڑھنا جائز نہیں، ایسے ارکان جو مسئلہ کا علم ہونے کے بعد بھی فاسق کو امام متعین کرنے پر بضد ہوں، خود فاسق ہیں، اہل محلّہ پر فرض ہے کہ ایسے بے دین ارکان کو مسجد کی مجلس منتظمہ سے فوراً برطرف کردیں، یہ لوگ اس منصب کے اہل نہیں، اگر اہل محلّہ کو اس پر قدرت نہیں تو حکومت پر فرض ہے کہ ان کو اس مقدس منصب سے برطرف کرے اور ان کو مناسب سزا دے۔

مساجد اور مدارس عربیہ کے کارکنوں کو ظاہراً اور باطناً متبع شریعت ہونا ضروری ہے، اگر کوئی رکن متبع شریعت نہیں تو وہ بھی واجب العزل ہے۔

في شرح المسلم للنووي: ’’ وأما أوفوا (الوارد في شان اللحی) بمعنی أعفوا، أی اترکوھا وافیۃ کاملۃ، لا تنقصوھا۔‘‘ (۱/۱۲۹)
وفي الہندیۃ: ’’ الصالح للنظر، من لم یسأل الولایۃ للوقف، ولیس فیہ فسق یعرف، وفي الاستیعاب: لا یولی إلا أمین قادر بنفسہٖ أو بنائبہ۔‘‘ (۳/۴۰۸)

داڑھی کی مقدار و احکام کے متعلق مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اﷲ تعالیٰ کا رسالہ ’’اسلام میں داڑھی کا مقام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

ڈاڑھی کٹانے سے توبہ کے بعد ڈاڑھی پوری ہونے سے پہلے امامت:

سوال:ایک حافظ صاحب کو تراویح کے لیے امام مقرر کیا گیا، جن کی ڈاڑھی ایک مشت سے بہت چھوٹی تھی، حافظ صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ڈاڑھی کٹانے سے توبہ کرلی ہے۔ ایک مقتدر مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے تحریری فتویٰ ارسال فرمایا کہ حافظ صاحب آیندہ ڈاڑھی نہ کٹانے کا عہد کرنے کے بعد بھی جب تک ان کی ڈاڑھی ایک مشت تک نہ پہنچے، تراویح کی امامت کے شرعاً اہل نہیں۔ حافظ صاحب کے متعلقین نے جواز کی کوشش میں ایک دوسرے مولوی صاحب سے رجوع کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ چونکہ حافظ صاحب نے توبہ کرلی ہے اور توبہ سے کبائر بھی معاف ہوجاتے ہیں، لہٰذا اب اس کی امامت میں کوئی کراہت نہیں، اس بناء پر مقتدیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے اور کچھ لوگ اس مسجد کو چھوڑ کر دوسری مساجد میں چلے گئے ہیں۔آپ وضاحت فرمائیں کہ دونوں مولوی صاحبان میں سے کس کا فتویٰ صحیح ہے؟ (ابن عبدالغفار۔ چنیوٹ، محمد عثمان پٹھان۔ گھوٹکی)

جواب: توبہ کے باوجود ڈاڑھی پوری ہونے سے پہلے ایسے شخص کی امامت دو و جہ سے مکروہ ہے:

1اس پر تاحال اثر ِصلاح نمایاں نہیں ہوا، یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ آیندہ اس کبیرہ سے اجتناب کا اہتمام کرے گا یا نہیں، بہت سے حفاظ کی عادت ہے کہ وہ صرف رمضان میں قرآن سنانے کے لیے ڈاڑھی رکھتے ہیں، رمضان کے بعد پھر منڈا دیتے ہیں یا کٹوادیتے ہیں، جیسا کہ اختصار کردہ استفتاء کی تفصیل سے بھی معلوم ہوتا ہے۔

2 :۔جن لوگوں کو توبہ کا علم نہیں ان کو مغالطہ ہوگا اور وہ یہی سمجھیں گے کہ فاسق نماز پڑھا رہا ہے، اس سے نمازیوں میں اختلاف و انتشار پیدا ہوگا، جیسا کہ سوال میں بھی مذکور ہے۔

لہٰذا ایسے حافظ کو تراویح میں امام بنانے سے احتراز کیا جائے۔ (أحسن الفتاویٰ:۳/۲۶۲)

مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی