85663 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
شوہر نے مجھے فون پر تین طلاقیں دیں، اس کے الفاظ یہ تھے کہ تمہیں طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے، اس کے دو دن بعد اس رجوع کر لیا۔پھر کچھ مہینوں بعد لڑائی جھگڑوں میں پراچہ لکھوا دیا کہ تم اپنی طرف سے لکھو کہ اپنی مرضی سے علیحدہ ہو رہی ہو، اس میں تین بار طلاق طلاق طلاق لکھوایا، پھر میں نے کود ہی پرچہ پھاڑ دیا کہ عورت کی طلاق نہیں ہوتی۔اس کے بعد تیسری مرتبہ جنوری 2023ء میں مجھے سامنے بٹھا کر تین طلاقیں دیں، اس کے بعد بھی رجوع ہوا اور ہم ساتھ رہے۔ کیا یہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں شخصِ مذکورکے آپ کو پہلی مرتبہ تین طلاقیں دینے سے آپ پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی تھیں، اس کے بعد بغیر حلالہ کے رجوع اور فریقین کے درمیان دوبارہ نکاح بھی شرعاً نہیں ہو سکتا تھا، لہذا پہلی مرتبہ طلاق دینے کے بعد آپ دونوں کا اکٹھے رہنا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا شرعاً حرام ہو چکا تھا، لہذا اس کی وجہ سے آپ دونوں پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا اور آئندہ کے لیے اس طرح کے قبیح فعل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
آئندہ کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر آپ دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت یہ ہے کہ عورت عدت (یہ عدت آپ دونوں کے علیحدگی اختیار کرنے اور فریقین میں سے کسی ایک کے یوں کہنے کے بعد شروع ہو گی کہ میں نے تجھے چھوڑ دیا، اس کو فقہی اصطلاح میں متارکت کہتے ہیں)گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ ہمبستری بھی کرے، پھر وہ شخص اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا وہ فوت ہو جائے تو اس صورت میں اس شخص کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔
نوٹ: شرعی اعتبار سے عورت کو تین ہی طلاقیں ہوتی ہیں، اس سے زائد طلاقیں واقع نہیں ہوتیں، قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں کا ہی ذکر کیا ہے، لہذا اس سے زائد طلاقیں دینا اللہ تعالیٰ کے حکمِ شرعی کے ساتھ مذاق ہے، جو کسی مسلمان کے لیے ہرگز جائز نہیں، خصوصا اگر آدمی دارالاسلام یعنی اسلامی ملک میں موجود ہو تو اس کے لیے اسلامی احکام سے ناواقفیت معتبر عذر قرار دیا جاتا، بلکہ لاعلمی کے باوجود ایسا شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب شمار ہوتا ہے، لہذا شخصِ مذکور پر لازم ہے کہ اپنے اس كبيره گناه پر اللہ تعالیٰ سے توبہ اور معافی مانگے اور آئندہ کے لیے اپنی بیوی کو تین سے زائد ہرگز طلاق نہ دے۔
حوالہ جات
القرآن الكريم [البقرة: 229، 230]:
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (229) فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ }
صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5261) دار طوق النجاة:
حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»
صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5264) دار طوق النجاة:
وقال الليث: حدثني نافع، قال: كان ابن عمر، إذا سئل عمن طلق ثلاثا، قال: «لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا، فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 185)
وظاهر كلامهم أن المتاركة لا تكون من المرأة أصلا كما قيده الزيلعي بالزوج لكن في القنية أن لكل واحد منهما أن يستبد بفسخه قبل الدخول بالإجماع وبعد الدخول مختلف فيه وفي الذخيرة ولكل واحد من الزوجين فسخ هذا النكاح بغير محضر من صاحبه عند بعض المشايخ وعند بعضهم إن لم يدخل بها فكذلك وإن دخل بها فليس لواحد منهما حق الفسخ إلا بمحضر من صاحبه اهـ.
وهكذا في الخلاصة، وهذا يدل على أن للمرأة فسخه بمحضر الزوج اتفاقا ولا شك أن الفسخ متاركة إلا أن يفرق بينهما وهو بعيد والله سبحانه وتعالى أعلم
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 276) دار احياء التراث العربي – بيروت:
" والمعتدة عن وفاة إذا وطئت بشبهة تعتد بالشهور وتحتسب بما تراه من الحيض فيها " تحقيقا للتداخل بقدر الإمكان " وإبتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها " لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب ومشايخنا رحمهم الله يفتون في الطلاق أن ابتداءها من وقت الإقرار نفيا لتهمة المواضعة " والعدة في النكاح الفاسد عقيب التفريق أو عزم الواطئ على ترك وطئها " وقال زفر رحمه الله من آخر الوطآت لأن الوطء هو السبب الموجب ولنا أن كل وطء وجد في العقد الفاسد يجريمجرى الوطأة الواحدة لاستناد الكل إلى حكم عقد واحد ولهذا يكتفى في الكل بمهر واحد فقبل المتاركة أو العزم لا تثبت العدة مع جواز وجود غيره ولأن التمكن على وجه الشبهة أقيم مقام حقيقة الوطء لخفائه ومساس الحاجة إلى معرفة الحكم في حق غيره.
محمد نعمان خالد
دادالافتاء جامعة الرشیدکراچی
27/جمادی الاولیٰ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |