85675 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | ملازمت کے احکام |
سوال
ميں خليجی ممالک ميں ايک غير سرکاری کمپنی ميں ملازمت کرتا ہوں، جو سافٹ ويئر اور آئی ٹی کے شعبے ميں خدمات فراہم کرتی ہے۔ ميرا بنيادی کام آئی ٹی انفراسٹرکچر، سرورز، اور ديگر آئی ٹی حل فراہم کرنے تک محدودہے۔ يہ کمپنی مختلف صارفين کے ليے اپنے ملازمين کو منصوبہ جات ((Projects پر کام کرنے کے ليے بھيجتی ہے۔ حال ہی ميں، مجھے ايک بينک کے پروجيکٹ پر کام کرنے کے ليے بھيجا گيا ہے۔ يہ بينک تجارتی نوعيت کا نہيں ہے بلکہ اس کا مقصد چھوٹے اور درميانے درجے کے منصوبوں کو مالی امداد فراہم کرنا ہے۔ اس بينک کے گاہکوں کے يہاں اکاؤنٹس نہيں ہوتے بلکہ يہ اپنے تمام مالی معامالت تجارتی بينکوں کے ذريعے انجام ديتا ہے۔
حال ہی ميں اس بينک نے مجھے اپنی کمپنی چھوڑ کر براِہ راست ان کا ملازم بننے کی پيشکش کی ہے۔ ميری نيت کسی قسم کے فرار يا کمپنی کے معاہدے سے انکار کی نہيں ہے، بلکہ مکمل ضابطے کے تحت باقاعدہ استعفٰی دينے کے بعد اس بينک ميں ملازمت اختيار کرنے کا سوال ہے۔ کيا ميرے ليے اس بينک ميں براِہ راست ملازمت اختيار کرنا شرعی طور پر جائز ہوگا، جب کہ ميرا کام مذکورہ بالا تفصيلات کے مطابق ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جو غیرسودی بینک مستند اور معتبر مفتیانِ کرام کے زیر نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کررہے ہیں،ان میں نوکری کرنا جائز ہے، جبکہ سودی بینک کے ایسے شعبوں میں ملازمت کرنا توبالاتفاق ناجائز ہے جن کا تعلق براہ راست سودی معاملات اور سود کی لکھت پڑھت سے ہے ،مثلا ً منیجر،کیشئیر وغیرہ،البتہ سودی بینک کے ایسے شعبوں جن کاتعلق براہ راست سودی معاملات اور سودکی لکھت پڑھت سے نہیں،مثلاً چوکیدار،چپڑاسی ،ڈرائیور اورجائز ریسرچ و غیرہ،میں ملازمت کرنے کی بعض معتبراہل افتاءنے گنجائش دی ہے،لیکن مجبوری نہ ہونے کی صورت میں اس سے بھی اجتناب ہی بہتر ہے۔ (فتاوی عثمانی:3/ 395)
صورت مسئولہ میں اگر وہ بینک غیر سودی ہے تو پہلی کمپنی کے قوعد و ضوابط کالحاظ رکھتے ہوئے اس سے استعفی ٰ دے کر بینک کی ملازمت اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اگر وہ بینک سودی ہے اور سائل کے کام میں سودی معاملات کا کوئی دخل نہیں ، تب بھی سائل کے لئے بہتر یہی ہے کہ بلا ضرورت اس میں نوکر ی کرنے سے اجتناب کرے ، البتہ مجبوری کی صورت میں ملازمت اختیار کرنے کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ ملازمت کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے نہ ہو۔
حوالہ جات
صحيح مسلم (ج 5 / ص 50) :
عن جابر قال لعن رسول ﷲ صلىﷲ عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال:هم سواء.
تکملة فتح الملهم (ج1/ص388) :
قوله: کاتبه, کتابة الربا إعانة عليه ،ومن ههنا ظهرأن التوظف فی البنوک الربویة لایجوز ،فإن کا ن عمل الموظف فی البنک ما یعین علی الربا کالکتابة أو الحساب ،فذاک حرام لوجهين: الأول :إعانة علی المعصیة ,والثانی: أخذالاجرة من مال الحرام ،فإن معظم دخل البنوک حرام مستجا ب بالربا وأما إذا کان العمل لا علاقة له بالربا ،فإنه حرام لوجه الثانی ،فإذاوجد بنک،معظم دخله حلال جاز فيه التوظف للنوع الثانی من الأعمال.
منیب الرحمن
دار الافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
27/جمادی الاولیٰ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | منیب الرحمن ولد عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |