03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اعتکاف کا بیان

        فضائل، تعریف،شرائط اور قسمیں

فضائل:

1 :۔عن عائشۃ رضی ﷲ عنہا:’’ أن النبی صلی ﷲ علیہ وسلم کان یعتکف العشر الأواخر من رمضان، حتی تو فاہ ﷲ، ثم اعتکف ازواجہ من بعدہ ۔‘‘ ( بخاری و مسلم )

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر اس کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کا معمول جاری رکھا‘‘۔

2 عن ابن عباس رضی ﷲ عنہما ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم قال فی المعتکف: ’’ ھو یعتکف الذنوب، و یجزی لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلھا ۔‘‘( ابن ماجہ )

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کو ان تمام اچھے کاموں کا جووہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا ایسے ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ نیکی کرنے والے کو دیا جاتا ہے۔

اعتکاف کی تعریف اور اس کی شرائط:

اعتکاف کہتے ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو، صحت اعتکاف کے لئے درج ذیل شرائط کا وجود ضروری ہے:

1 :۔مسلمان ہونا، کافر کا اعتکاف نہیں۔

2 :۔عاقل ہونا، مجنون کا اعتکاف نہیں۔ بالغ ہونا شرط نہیں اس لئے نا بالغ سمجھدار بچہ بھی اعتکاف بیٹھ سکتا ہے۔

3 :۔جنابت سے پاک ہونا، نا پاک شخص کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔

4 :۔اعتکاف کی نیت کرنا، بلانیت مسجد میں بیٹھنے سے اعتکاف نہ ہوگا۔

5:۔ جس جگہ اعتکاف بیٹھے وہ جگہ شرعی مسجد ہو۔

6 :۔سنت اور واجب اعتکاف میں روزہ سے ہونا۔   (الہندیۃ  ( ۱/۲۱۱ ، مراقی الفلاح مع الطحطاوي : صـ ۳۸۱ )

مسجد کی حد:

مسجد سے مراد خاص وہ حصہ زمین ہے جو نماز کے لئے تیار کیا گیا ہو، یعنی اندر کا کمرہ، برآمدہ اور صحن۔ باقی جو حصہ اس سے خارج ہو وہ مسجد کے حکم میں نہیں، خواہ ضروریات مسجد ہی کے لئے وقف ہو، جیسے امام کا حجرہ، مسجد سے ملحق مدرسہ، جنازہ گاہ، وضو خانہ، غسل خانہ، استنجاخانے۔ یہ تمام جگہیں مسجد سے خارج ہیں، اگر معتکف نے بلا ضرورت ان میں قدم رکھا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔( ردالمحتار : ( ۲/۴۴۶ )

مسجد سے نکلنے کی حد:

مسجد سے باہر نکلنے کا حکم تب لگے گا جب دونوں پاؤں مسجد سے باہر ہوں اور دیکھنے والے یہی سمجھیں کہ یہ مسجد سے باہر ہے، لہٰذا صرف سر باہر نکالنے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔( ھندیۃ : ۱/۲۱۳ )

مسجد کی چھت یا زینہ پر چڑھنا:

مسجد کی چھت کا بھی وہی حکم ہے جو مسجد کا، اسی طرح مسجد کئی منزلہ ہو تو اوپر نیچے کی تمام منزلوں کا ایک ہی حکم ہے، معتکف سب میں آجاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آنے جانے کا زینہ حدود مسجد کے اندر ہو۔  ( شامیۃ : ۲/۴۴۶ )

حدودِ مسجد سے لاپروائی:

اس مسئلہ میں بہت سے معتکف کوتاہی کا شکار ہو کر اپنا اعتکاف توڑ بیٹھتے ہیں، اس لئے معتکف کو چاہئے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے متولی مسجد سے پوچھ کر مسجد کی حدود پوری طرح معلوم کرلے۔

اعتکاف کی قسمیں:

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:

1 :۔واجب:جس کی منت مان لی جائے، خواہ منت کسی شرط پر موقوف ہو، مثلاً میرا فلاں کام ہوگیا تو اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ یا منت کسی شرط کے بغیر ہو مثلاً اﷲ تعالیٰ کے لئے اتنے دنوں کا اعتکاف میرے ذمہ ہے، منت کا اعتکاف اس صورت میں واجب ہوتا ہے کہ زبان سے الفاظ اداء کر کے اپنے ذمہ واجب کرے۔ صرف دل میں نیت کرنے سے منت نہیں ہوتی۔( الہندیۃ : ۱/۲۱۳ )(الدر : ( ۲/۴۴۱ )

2:۔مسنون: رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔

3:۔مستحب: ان دو قسموں کے سوا جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب ہے۔( درمختار : ۲/۴۴۲ )

اعتکاف ہر محلہ میں سنت ِکفایہ ہے:

رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف شہر کے ہر محلہ کے حق میں سنت علی الکفایہ ہے۔ یعنی ہر محلہ کی مسجد میں ایک آدمی اعتکاف بیٹھے، ورنہ پورا محلہ تارک سنت ہوگا۔ ( درمختار : ۲/۴۴۰ ۔ ۴۴۱ )( ردالمحتار مع الدر : ۲/۴۴۱ ۔ ۴۴۲ )

اعتکاف کس مسجد میں افضل ہے؟:

اعتکاف کے لئے سب سے افضل جگہ مسجد حرام ہے، اس کے بعد مسجد نبوی، پھر مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) پھر بڑی مسجد جس میں نمازی زیادہ آتے ہوں، بشرطیکہ اس میں پانچوں وقت جماعت ہوتی ہو، ورنہ اپنے محلہ کی مسجد افضل ہے۔(ردالمحتار  ( ۲/۴۴۱ )

مسنون اعتکاف کس وقت سے شروع ہوتا ہے؟:

مسنون اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے ضروری ہے کہ 20 رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد میں داخل ہو جائے اور اعتکاف کی نیت بھی غروب سے پہلے کرلے، خواہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے کرے یا داخل ہونے کے بعد کرے۔ اگر غروب کے بعد مسجد میں داخل ہوا، یا مسجد میں پہلے سے موجود تھا مگر نیت غروب کے بعد کی تو یہ اعتکاف مسنون نہ ہوگا، مستحب ہو جائے گا، اس لئے کہ پورے عشرہ اخیرہ کا اعتکاف نہ ہوا۔(الہندیۃ ( ۱/۲۱۲ )

معتکف کے لئے مستحب امور:

اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لئے درج ذیل کام مستحب ہیں:

1:۔لایعنی باتوں سے اپنے کو بچائے، زبان سے صرف کلمہ خیر نکالے۔

2:۔قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کرے۔

3:۔حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پاکیزہ حالات اور سلف صالحین کے واقعات و ملفوظات کا مطالعہ کرے۔

4:۔اسی اثناء میں مسائل دینیہ (اہل حضرات یا مستند کتب کی مدد سے) سیکھنے پر خصوصی توجہ دے۔

5:۔علاوہ ازیں نفل نمازوں (تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، اشراق، چاشت، اوّابین اور تہجد) کی حتی الامکان پابندی رکھے۔

6 :۔تمام اذکارِ مسنونہ پابندی سے پڑھے۔

7:۔ درود شریف، کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت کرے۔

8:۔شب قدر کی پانچوں راتوں میں ممکن ہو تو رات بھر بیدار رہے اور انہیں مختلف قسم کی عبادات میں بسر کرے، نوافل اور ذکر و تلاوت کے علاوہ دعاء کی کثرت کرے۔

9 :۔جہاں اپنے لئے دعاء کرے وہاں اپنے والدین، اعزہ واحباب، ملک وملت بلکہ پوری امت کے حق میں دعا کرے۔

10:۔ شب قدر کی راتوں میں یہ دعاء بھی اہتمام و توجہ سے کرے:

’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّ، تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ‘‘۔
’’اے اﷲ! بے شک آپ معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند کرتے ہیں، پس مجھے بھی معاف کردیجئے۔‘‘( ترمذی و أحمد و ابن ماجہ )

تنبیہ:

ان امور کی بجا آوری بقدر استطاعت کی جائے، اتنا زیادہ غلو جس سے دوسروں کو اعتکاف سے توحش ہو جائز نہیں۔(الہندیۃ ( ۱/۲۱۲ )

معتکف کے لئے جائز و ناجائز امور

درج ذیل کام صرف معتکف کے لئے مباح (جائز) ہیں:

کھانا پینا وغیرہ:

مسجد میں کھانا پینا، لیٹنا اور آرام کرنا۔( الدرالمختار ( ۲/۴۴۸ )

 لباس تبدیل کرنا اور تیل لگانا:

لباس تبدیل کرنا اورتیل لگاناجائز ہے۔( بدائع الصنائع : ۲/۱۱۷ )

مگرتیل لگانے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ مسجد کی چٹائی، دری یا مسجد کی اور کوئی چیز آلودہ نہ ہو، نہ بال مسجد میں گرنے پائیں، کوئی چادروغیرہ بچھالیں، پھر اسے مسجد سے باہر مناسب جگہ جھڑوادیں یا کسی تھیلی وغیرہ میں رکھیں، بعد میں مناسب جگہ ڈلوادیں۔

 جگہ تبدیل کرنا:

جگہ تبدیل کرنا، یعنی مسجد میں ایک جگہ اعتکاف بیٹھنے کے بعد اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جانا۔

نفل اعتکاف بیٹھنے والے کے لئے بھی یہ کام بلاکر اہت مسجد میں جائز ہیں۔ ( ردالمحتار : ۲/۴۴۸ )

مسجد میں معتکف کاخرید وفروخت کرنا:

اپنی، بیوی یا بچوں کی ضرورت سے مسجد میں کسی چیز کی خرید وفروخت کرنا جائز ہے،مگر سوداسلف مسجد میں رکھنا جائز نہیں، ہاں اگر ایسی ہلکی پھلکی چیز ہو جو مسجد میں جگہ نہ گھیرے تو اسے لانے کی گنجائش ہے۔ اور جو چیز اپنی یا اہل وعیال کی ضرورت کی نہ ہو یابنیت تجارت اس کی خرید وفروخت کی جائے تو یہ خرید وفروخت ناجائز ہے، گوکہ صرف زبانی ہی ہو۔ ( ردالمحتار مع الدر : ۲/۴۴۹ )

 مباح باتیں کرنا:

بقدر ِضرورت مباح باتیں کرنا درست ہے۔

بالکل خاموش رہنا بھی جائز ہے جبکہ اسے ثواب وقربت نہ سمجھے۔ البتہ بات چیت کی محفل جما کر اس کے لئے بیٹھک کرنا بہر حال مکروہِ تحریمی ہے۔( ردالمحتار مع الدر : ۲/۴۴۹ )

گفتگو کرنے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ کسی دوسرے معتکف یانمازی کی راحت وعبادت میں خلل نہ آئے، ورنہ یہ گفتگو ناجائز ہوگی۔

 معتکف کامسجد میں سر وغیرہ دھونا:

سرمسجد سے باہر نکال کر اور ڈاڑھی وغیر ہ دھونا بھی جائز ہے، خواہ خود دھوئے یا کسی سے دھلوائے،ا سی طرح مستعمل پانی کے لئے کوئی بڑا برتن رکھ کر ہاتھ منہ یاسر مسجد میں دھونا چاہے بلکہ وضو یا غسل بھی کرنا چاہے تو مضایقہ نہیں، بشرطیکہ پانی مسجد میں گرنے نہ پائے۔( ردالمحتار  ( ۲/۴۴۵ )

معتکف کے لئے نسوار، سگریٹ کا استعمال :

حقہ اور سگریٹ مسجد میں بیٹھ کر پینا جائز نہیں، اور معتکف کے لئے مسجد سے باہر جانا بھی جائز نہیں۔ اگر معتکف ان چیزوں کا عادی ہے تو اسے مدت ِاعتکاف میں ان چیزوں کو ترک کر دینا چاہئے۔

اگر کسی کو شدید تقاضا ہو تووہ کسی ضرورت کے موقع پر مسجد سے نکلے توراستہ میں سگریٹ، بیڑی، نسوار استعمال کرلے، مگر اس کے بعد فوراً منہ سے بدبو زائل کردے۔

معتکف کا بضرورت محرم عورت سے ملنا:

کوئی ضروری کام درپیش ہو تو بیوی یا کوئی محرم خاتون (ماں، بیٹی، بہن، بھتیجی وغیرہ) مسجد میں آکر معتکف سے مل سکتی ہے، لیکن ضروری ہے کہ ایسے وقت آئے جب مسجد میں عام لوگ نہ ہوں اور باپردہ آئے، نیز اس موقع پر کسی دوسرے شخص کی نظر پڑجائے تو اس کے سامنے فوری وضاحت کردے کہ یہ میری بیوی ہے یا محرم خاتون ہے، تاکہ اس کے لئے بدگمانی کاموقع نہ رہے۔

معتکف کامسجد میں ٹہلنا:

معتکف کا بضرورت مسجد میں ٹہلنا جائز ہے۔

معتکف کا مسجد میں مریض کا علاج کرنا :

مسجد میں مریض کا حال سن کر یا معاینہ کرکے اسے بلا معاوضہ دو اء یا علاج بتانا اور نسخہ لکھ دینا جائز ہے۔( ردالمحتار :  ۲/۴۴۸ )

معتکف کا مسجد میں حجامت بنوانا:

اپنی حجامت خود بنانا جائز ہے اور حجام سے بنوانے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر بدون عوض کرتاہے تو مسجد کے اندر جائز ہے اور اگر بالعوض کرتاہے تو معتکف مسجد کے اندرر ہے مگرحجام مسجد سے باہر بیٹھ کر حجامت بنائے۔ مسجد کے اندر اجرت سے کام کرنا جائز نہیں۔( رد المحتار : ۲/۴۴۹ )

معتکف کامسجد میں کپڑے دھونا یا سینا:

معتکف کے لئے مسجد میں بوقت ضرورت اپنے کپڑے دھونا اور سیناجائز ہے، مگر یہ احتیاط ضروری ہے کہ پانی مسجد میں گرنے نہ پائے، واضح رہے کہ کپڑے دھونے کے لئے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔( ردالمحتار مع الدر : ۲/۴۴۵ )

اعتکاف میں پردے لٹکانا:

اعتکاف میں پردے لٹکانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، معتکف کو چاہئے کہ دل جمعی ویکسوئی کے لئے پردے لٹکالے اور اس خلوت خانے میں دعاء و عبادت کا مشغلہ رکھے اور نمازوں کے اوقات میں اگر ضرورت ہو تو پردے اٹھالئے جائیں۔( مسلم مع شرح النووی : ۱/۳۷۰ )

معتکف کے لئے مسجد سے باہر نکلنا

معتکف اذان کے لئے نکل سکتاہے:اذان دینے کی جگہ (مثلاً منارہ، حجرہ وغیرہ ) اگر حدود مسجد کے اندر ہے تو معتکف کو اس میں جاکر اذان دینا بلاکراہت جائز ہے، بلکہ اذان کے علاوہ کسی دوسرے مقصد سے وہاں جانا چاہے تو بھی مضایقہ نہیں اور اگر یہ جگہ مسجد سے باہر ہے، لیکن اس میں جانے کادروازہ مسجد کے اندر ہے تو اس میں بھی اذان دینے یا کسی دوسرے مقصد سے جانا جائز ہے، مگر احتیاط اس میں ہے کہ اذان کے سوا کسی دوسرے کام کے لئے اس میں نہ جائے۔

 اور اگر یہ منارہ، حجرہ وغیرہ حدود مسجد سے باہر ہے تو معتکف اس میں صرف اذان دینے کے لئے جاسکتاہے اوران تینوں صورتوں میں یہ معتکف موذن ہو (یعنی اذان دینا اس کی ذمہ داری ہو) یا غیر موذن،دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔( ردالمحتار مع ا  لدر : ۲/۴۴۵ )

حاجات ِطبعیہ کے لئے نکلنا:

حاجات ِطبعیہ کے لئے نکلنا درست ہے، جیسے پیشاب، پاخانہ اور غسل جنابت جبکہ حدود مسجد میں اس طور سے غسل کرنا ممکن نہ ہو کہ مستعمل پانی کاکو ئی قطرہ مسجد میں گرنے نہ پائے۔( ردالمحتار مع ا  لدر : ۲/۴۴۵ )

بلغم ڈالنے یا ناک صاف کرنے کے لئے مسجد سے نکلنا:

بلغم ڈالنے یاناک صاف کرنے کے لئے مسجدسے نکلنا جائز نہیں، بوقت ضرورت اس مقصد کے لئے معتکف اگالدان مسجد میں رکھے یا مسجد میں ہی کھڑے ہوکر بلغم اور رینٹ باہر ڈال دے۔

وضو کے لئے مسجد سے باہر جانا:

اگر مسجد کے اندر بیٹھ کر وضوء کرنے کی ایسی جگہ ہو کہ پانی مسجد سے باہر گرے تو مسجد سے باہر جانا جائز نہیں، ورنہ جائز ہے۔ وضوء خواہ فر ض نماز کے لئے ہو یا نفل یا تلاوت یا ذکر کرنے کے لئے، سب کا یہی حکم ہے۔ ( ھندیۃ : ۱/۲۱۲ ۔ ۲۱۳ ، أحسن الفتاویٰ : ۴/۵۰۰ )

معتکف کاکھانا لانے کے لئے مسجد سے نکلنا:

گھر سے کوئی کھانا لانے والا نہ ہو تو ایسی مجبوری میں معتکف خود جاکر کھانا لاسکتاہے، مگر وقت سے پہلے نکلنا جائز نہیں، اس لئے غروب آفتاب کے بعد نکلے، اکثر اکابر فقہا ءکے فتاوی میں یہی حکم مذکور ہے کہ کھانا لے کر واپس آجائے اور مسجد میں کھائے ،جبکہ بعض حضرات نے مندرجہ ذیل عبارت کی روشنی میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ معتکف گھر پر بیٹھ کر بھی کھانا کھاسکتا ہے ، البتہ زیادہ دیر بیٹھنا صحیح نہیں ۔

حاجات ِشرعیہ کی وجہ سے مسجد سے نکلنا:

حاجات ِشرعیہ کے لئے نکلنا بھی جائز ہے، مثلاً کوئی شہر کی کسی ایسی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہے جس میں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ کے لئے نکلنا جائز ہے اور اندازہ کرکے اذانِ ثانی سے اتنی دیر پہلے نکلے کہ جامع مسجد میں پہنچ کر دورکعت تحیۃ الوضوء اور چار رکعت سنت اطمینان سے پڑھ کر اذانِ خطبہ سن سکے۔ اگر اندازہ کرنے میں غلطی لگ گئی اور اس سے پہلے پہنچ گیا تو بھی مضایقہ نہیں۔ اور جمعہ کے فرضوں سے سلام پھیر کر اطمینان سے چھ رکعات سنت پڑھ کر اپنی مسجد میں واپس آجائے۔ اگر اس سے زیادہ وقت جامع مسجد میں ٹھہر گیا یاجمعہ کے بعد نکلاہی نہیں اور اعتکاف کے بقیہ ایام جامع مسجد ہی میں بیٹھ کر پورے کرلئے تب بھی جائز ہے، مگر ایساکرنا مکروہ ہے۔  (ھندیۃ : ۱/۲۱۲ )

گاؤں کی مسجد میں اعتکاف کرنے والوں کے لئے جمعہ کے لئے نکلنا:

معتکف اگر گاؤں کی مسجد میں بیٹھا ہے تو جمعہ کے لئے شہر میں آنا جائز نہیں، ورنہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔( فتاویٰ محمودیۃ : ۳/۱۷۵ )

معتکف حاجت ضروریہ قریب سے پوری کرے:

کسی طبعی یا شرعی حاجت کے لئے نکلے تو حتی الامکان ایسی جگہ حاجت پوری کرکے لوٹے جو مسجد سے نزدیک ہو، مثلاً مسجد کے بیت الخلاء اور غسل خانے نزدیک ہوں اور گھر کے دور، یا کسی کے دوگھر ہیں، ایک مسجد سے نزدیک ہے دوسرا مسجد سے دور، تو نزدیک جاکر ضرورت پوری کرے، البتہ نزدیک والی جگہ سے طبیعت مانوس نہ ہو یا اور کوئی رکاوٹ حائل ہو، خواہ طبعی خواہ شرعی، تو دور کی جگہ جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور کسی حاجت کے لئے نکلنے کے بعد یہ بھی ضروری نہیں کہ تیز رفتاری سے چلے، بلکہ طبعی رفتار سے چلتے ہوئے اطمینان سے حاجت پوری کرے۔( عالمگیریۃ : ۱/۲۱۲ ) ( ردالمحتار : ۲/۴۴۵ )

معتکف کا نمازِ جنازہ اورعیادت کے لئے نکلنا:

اعتکاف منذور کی نذر مانتے وقت نماز جنازہ، عیادت مریض اور مجلس علم میں حاضری کے لئے خروج کا استثناء صحیح ہے اور نکلنا جائز ہے، خواہ زبان سے استثناء کرے یا دل میں اس کی نیت کرے، مگر مسنون اعتکاف میں یہ نیت کی تو وہ نفل ہوجائے گا، سنت اداء نہ ہوگی، مسنون اعتکاف صرف وہی ہے جس میں کوئی استثناء نہ کیاہو۔ اس میں نکلنا مفسد ہے، البتہ قضاء حاجت جیسی ضرورت کے لئے نکلنے پر دیکھا کہ راستہ ہی میں نماز جنازہ شروع ہورہی ہے تو اس میں شریک ہوسکتاہے، نماز سے قبل انتظار اور نماز کے بعد وہاں ٹھہرنا جائز نہیں، اسی طرح قضاء حاجت کے لئے اپنے راستے پر چلتے چلتے عیادت کرسکتاہے، عیادت اور نماز جنازہ کے لئے راستہ سے کسی جانب مڑنا اور ٹھہرنا جائز نہیں۔( الدرالمختار : ۲/۴۴۸ )

بیت الخلاء خالی ہونے کے لئے انتظار کرنا:

معتکف اگر قضائے حاجت کے لئے نکلا لیکن بیت الخلاء خالی نہیں تھا تو اس کے لئے وہیں انتظار کرنا درست ہے، اس سے اعتکاف فاسد نہ ہوگا۔ (أحسن الفتاویٰ: ۴/۵۰۱)

معتکف اگر قضائے حاجت کے لئے نکلاتو غسل نہیں کرسکتا:

معتکف قضائے حاجت کے لئے نکلاتوصفائی کے لئے غسل نہیں کرسکتا، اس سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا، البتہ اگر غسل خانہ بیت الخلاء کے ساتھ ہی ہو اورجلدی جلدی غسل کر لے ،کو شش کرے کہ وضوء سے زیادہ دیر نہ لگے تو قضائے حاجت کے بعد غسل کی اجاز ت ہے۔

معتکف کے لئے مکروہ امور

جو باتیں اعتکاف سے باہر حرام یا مکروہ ہیں جیسے گالم گلوچ، فضول گفتگو، غیبت وعیب جوئی، ریاکاری، کسی بدبو دار چیز کا استعمال، روزہ کی حالت میں اور پھر خصوصاً دوران اعتکاف ان کی حرمت اور کراہت اور بڑھ جاتی ہے، البتہ اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہو گا۔( الہندیۃ ( ۱/۲۱۳ )

تصویر والا اخبار یا رسالہ:

 ایسا اخبار یارسالہ دیکھنے میں مضایقہ نہیں جو جاندار کی تصویر سے پاک ہو اور اس کے مضامین بھی درست ہوں، لیکن اخبار کاکوئی صفحہ بھی عموماً تصاویر اور جھوٹی خبروں سے پاک نہیں ہوتا، اس لئے اسے مسجد میں لانا کراہت سے خالی نہیں، بالخصوص اگر معتکف دینی مقتداء ہے تو عوام اس کے عمل سے غلط استدلال کریں گے۔

مسجد میں اجرت پر تعلیم دینا:

معتکف کے لئے اجرت لیکر تعلیم دینا مکروہ ہے، خواہ دینی ہو یا دنیوی،اجرت پر کوئی اور عمل کرنابھی مکروہ ہے( ردالمحتار : ۲/۴۴۹ )

معتکف کا خاموش رہنا:

اسی طرح بالکل خاموشی اختیار کرلینا بھی مکروہ ہے جبکہ اسے فی نفسہٖ عبادت تصور کرے، اور اگر زبان کے گناہوں سے بچنے کے لئے خاموش رہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔( الدرالمختار : ۲/۴۴۹)

مسجد میں سامان لاکر بیچنا:

سامان مسجد میں لاکر فروخت کرنا یابلاضرورت صرف تجارت اور مال بڑھانے کے لئے خرید وفروخت کرنامکروہ ہے، خواہ سامان مسجد نہ لائے۔( ردالمحتار : ۲/۴۴۸ )

اعتکاف کن امور سے فاسد ہوتا ہے؟

معتکف کاجان بوجھ کر یا بھولے سے مسجد کی حدود سے نکلنا:

طبعی اور شرعی حاجات (جن کی تفصیل اوپر مباحات کے ذیل میں گزرچکی) کے سواکسی بھی سبب سے مسجد سے باہر نکلنا اعتکاف کو توڑ دیتاہے۔ یہ نکلنا خواہ لمحہ بھر کے لئے ہی ہو اور جان بوجھ کر ہو یا بھول کر، خوشی سے ہویا مجبوری سے، البتہ مجبوری سے اعتکاف تو ڑا تو گناہ نہ ہوگا، مثلاً بیماری کے عذر سے نکلا۔( الہندیۃ : ۲/۲۱۳ )

 اگر مسجد گرنے لگی تھی اس لئے نکل گیا یا جبراً نکال دیاگیایا اپنا سامان تلف ہونے کا اندیشہ تھا اور نکلتے ہی فوراً دوسری مسجد میں چلاگیا تو اعتکاف نہیں ٹوٹا۔ پیشاب پاخانہ کے لئے نکلا تھا مگر قرض خواہ نے پکڑ کر روک لیا یا جنازہ کے لئے نکلا، یا اعتکاف یاد نہ رہا اور بھول کرنکل گیا، توان تمام صورتوں میں نکلنے پرکوئی گناہ نہیں، گوکہ اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (ھندیۃ : ۱/۲۱۲ )

اعتکاف توڑنا کب واجب ہوتا ہے؟

 بعض صورتوں میں اعتکا ف توڑ دینا واجب ہے، مثلاً کوئی انسان ڈوب رہاہے یا جل رہاہے، اسے بچانے کے لئے یا جنازہ تیارہے اور اس پر نماز پڑھانے والا کوئی نہیں، یاایسی گواہی کے لئے نکلنا جواس کے ذمہ واجب ہے اور اس کے بغیر کسی کا حق مارا جاتاہو۔ ( ہندیۃ : ۱/۲۱۲ )

کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لئے نکلنا:

معتکف کو کھانے کے بعدہاتھ دھونے کے لئے نکلنا جائز نہیں، مسجد ہی میں کسی برتن میں دھولے، منجن یامسواک وغیرہ وضوء کے ساتھ کرسکتاہے، صرف منجن وغیرہ کے لئے نکلنا جائز نہیں، اگر نکلا تواعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ وضوء سےپہلے یا وضوء کے بغیر ویسے ہی وضوء خانہ پر بیٹھ کر صابن سے ہاتھ دھونا بھی جائز نہیں، اسی طرح وضوء کے بعد وضوء خانہ پر کھڑے ہوکر رومال سے وضوء کاپانی خشک کرنا بھی جائز نہیں۔ ان صورتوں میں بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ جس طبعی یا شرعی ضرورت کے لئے نکلے، اس سے فارغ ہوتے ہی فوری مسجد میں لوٹ آئے ورنہ اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔( البحر : ۲/۳۰۲ )

دن میں کھاپی لینا:

دن میں قصداً کھاپی لیاتو روزہ کے ساتھ اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا اوربھول کر کھانے پینے سے روزہ کی طرح اعتکاف بھی نہیں ٹوٹتا۔ ( ھندیۃ : ۱/۲۱۳ ) ( البحر : ۲/۹۹ )

مرتد ہونا:

العیاذباللہ کوئی مرتد ہوگیا تو اعتکاف باطل ہوجائے گا اور اس کی قضاء بھی نہیں۔ ( ردالمحتار : ۲/۴۴۷ )

مجنون یا بے ہوش ہونا:

بے ہوشی یا جنون اگر مسلسل اتنا وقت طاری رہے جس میں ایک روزہ قضاء ہوجائے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا، اس سے کم مقدار میں ہو تو نہ ٹوٹے گا۔ ( ردالمحتار : ۲/۴۵۰ )

احتلام ہوجانا:

احتلام ہونے سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا، احتلام ہونے پر معتکف کو چاہئے کہ بیدار ہوتے ہی پہلے تیمم کرلے، پھر فوری مسجد سے نکل جائے، جسے احتلام کااندیشہ ہو اس کے لئے بہتر ہے کہ پہلے سے اپنے ساتھ کوئی ڈھیلا وغیرہ رکھ لے،ورنہ مسجد کی زمین پر ہی تیمم کرلے۔ اگر کسی ضرر کااندیشہ ہو یاپانی ملنے میں کچھ دیر ہویاپانی گرم ہورہاہو تو اسی تیمم کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر انتظار کرے۔(الہندیۃ ( ۱/۲۱۳ )

اعتکاف ٹوٹنے پرحکم قضاء:

نفل اعتکاف کی قضاء واجب نہیں، اس لئے کہ وہ مسجد سے نکلنے سے ٹوٹتا نہیں بلکہ ختم ہوجاتا ہے، اعتکاف منذور اگر ٹوٹ جائے، خواہ نذرِ معین ہو یاغیر معین، تو سب ایام کی قضاء واجب ہے، نئے سرے سے اتنے دن پورے کرے کیونکہ ان میں تتابع (مسلسل رکھنا) لازم ہے اور عشرہ اخیرۂ رمضان کا مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے تو صرف اس دن کی قضاء واجب ہے جس میں اعتکاف ٹوٹا۔ فساد کے بعد یہ اعتکاف نفل ہوگیا، ایک دن کی قضاء چاہے رمضان ہی میں کرلے یارمضان کے بعد نفل روزہ کے ساتھ کرے۔ ایک دن کی قضاء میں رات دن دونوں کی قضاء واجب ہے یاصرف دن کی؟ قواعد سے یوں مفہوم ہوتاہے کہ اعتکاف دن میں فاسد ہواتو صرف دن کی قضاء واجب ہوگی، صبح صادق سے قبل شروع کرکے غروب آفتاب تک کرے، اور اگر رات میں اعتکاف فاسد ہو اتو رات دن دونوں کی قضاء واجب ہے، غروب آفتاب سے قبل شروع کرکے دوسرے روز غروب کے بعد ختم کرے۔( ردالمحتار : ۲/۴۴۴ ۔ ۴۵۱ )

عورت کا اعتکاف

عورت گھر کی مسجد(یعنی نماز کی مخصوص جگہ) میں اعتکاف کرے اور یہ جگہ اس کے حق میں بمنزلہ مسجد کے ہو گی، یعنی کھانا،پینا، لیٹنا اسی جگہ ہو گا اور کسی طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر اس جگہ سے باہر نکلنے پر اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔اگر گھر میں پہلے سے نماز کی مخصوص جگہ موجود ہو تو اسی میں اعتکاف کرے، اس سے ہٹ کر گھر میں دوسری جگہ اعتکاف جائز نہیں اور پہلے سے کوئی جگہ نماز کے لئے مخصوص نہیں ہے تو اب مخصوص کر لے اور اسی میں اعتکاف کرے، گھر کی بجائے مسجد میں اعتکاف کرنا عورت کے لئے مکروہ ہے۔( ہندیۃ : ۱/۲۱۱ )

عورت کا دورانِ اعتکاف گھر کا کام کرنا:

سوال:جو عورت گھر میں اعتکاف بیٹھے، وہ گھر کے کام کاج کس طرح کرے؟جبکہ اور کوئی گھر کا کام کرنے والا بھی نہیں ہے۔(محبوب عالم)

جواب:بیت الخلاء کے تقاضے اور وضوء کے علاوہ اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا ایسی عورت جس کے گھر میں کوئی اور کام کاج کے لئے نہ ہووہ اگر اسی مخصوص جگہ بیٹھ کر جو کام کر سکتی ہے وہ کرتی رہے تو اس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر اس جگہ سے نکلے بغیر کام نہ ہو سکتے ہوں تو وہ مسنون اعتکاف کے لئے نہ بیٹھے،البتہ اپنے کاموں سے فارغ ہو کر اس مخصوص جگہ پر ذکر و تلاوت و عبادت کے ذریعے اس مقدس مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔(الہندیۃ ( ۱/۲۱۱ )

عورت کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے:

عورت کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے خاوند سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے اور خاوند اسے اعتکاف سے منع بھی کرسکتاہے، لیکن جب ایک بار اجازت دے دی تواب منع نہیں کرسکتا۔( ھندیۃ : ۱/۲۱۱ )

اجازت کے بعد شوہر بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا:

خاوند نے جب اجازت دے دی تواب اس کے لئے بیوی سے ہم بستر ہونا، بوس وکنار کرنا یا اس ارادہ سے بیوی کی اعتکاف گاہ میں داخل ہونا جائز نہیں، تاہم اس نے ہم بستری کرلی تو بیوی کااعتکاف فاسد ہوگیا، ہم بستری کے سوا دوسری باتوں سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔( ھندیۃ : ۱/۲۱۱ )

نابالغ بچوں کو اعتکاف بٹھانا:

سوال:آج کل مسجد میں نابالغ لڑکوں کو بھی اعتکاف بٹھا دیا جاتا ہے جوکہ پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا بچوں اور نابالغ لڑکوں کو اعتکاف بٹھایا جاسکتا ہے؟(محبوب عالم)

جواب: اعتکاف عاقل بالغ مسلمانوں کے لئے مسنون ہے، بچوں کے لئے نہیں، سمجھدار بچے کا اعتکاف بیٹھنا اگرچہ فی نفسہ جائز ہے مگر اس زمانے میں بچوں کے اعتکاف بیٹھنے میں بہت سے مفاسد اور خرابیاں ہیں جن کے ہوتے ہوئے بچوں کو اعتکاف بٹھانا جائز نہیں۔البتہ سرپرست خود بھی اعتکاف بیٹھے اور بچے کی نگرانی کا اہتمام کرتا رہے تو بچے کو اعتکاف بٹھانے میں کوئی حرج نہیں ۔( الہندیۃ( ۱/۱۱۲)

مسنون اعتکاف کب ختم ہوگا؟

جب شوال کاچاند نظرآئے تو اعتکاف پورا ہوجاتاہے۔معتکف اگر چاہے تو اسی وقت مسجد سے گھر چلاجائے،لیکن افضل یہ ہے کہ رات مسجد ہی میں گزارے اورصبح عید کی نماز کے لئے مسجد ہی سے جائے، پھر عید کی نماز کے بعد گھر جائے۔

مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی