03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شریعت کے نفاذ کی جدوجہد
85657حکومت امارت اور سیاستدارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل

سوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم مفتیانِ کرام ! چند سوالات کے جوابات درکار ہیں برائے کرم وضاحت سے ترتیب وار رہنمائی فرمائیں ۔ 1 - دین کے نفاذ کی جدوجہد ہر مسلمان پر فرض ہے یا صرف مقتدر حلقوں یا علماء کرام پر( خاص طور پر ہمارے ملک میں جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے)؟ 2- اس جدوجہد کا اسلامی راستہ کونسا ہے جمہوری راستہ یا انقلابی راستہ ؟ 3- اگر جمہوری و سیاسی راستہ بہتر ہے تو کونسی جماعت ایسی ہے جسے ایک عام مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے ؟ 4- اگر انقلابی راستہ بہتر ہے تو اس میں بھی رہنمائی فرمائیں کے کونسی جماعت ہے جس میں شمولیت درست ہوگی ؟ 5- اور اگر کوئی جماعت نہیں یا جماعت تو ہے لیکن منہج نبوی ﷺ پر نہیں ہے تو ایسے میں ہمیں نفاذ شریعت کے لیے کیا کرنا چاہیے کیوں کے چند کتب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلامی شریعت کا نفاذ امت مسلمہ کا مشترکہ فریضہ ہے ؟ 7- اور ایک اور بات کہ اس معاملے میں اکثر یہ جواب دیا جاتا ہے کہ استطاعت کے بقدر آپ پر واجب ہوگی تو میں یہاں اپنی استطاعت بھی واضح کردوں کے روزانہ کی بنیاد پر کم از کم ایک گھنٹہ ، ہر مہینے دو سے تین ہزار روپے اور ہفتےمیں ایک دن میں اس جدوجہد میں لگانے کی میں بفضلہ تعالیٰ استطاعت رکھتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا کثیراکثیرا مستفتی شیخ عبدالمقتدر حفیظ 03222111922

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1.    اسلامی احکام کی معاشرے میں ترویج اور اسلامی ملک میں سرکاری سطح پر ان کی نفاذ کی کوشش کرنا ہر صاحب استطاعت شخص پر بقدر استطاعت ضروری ہے۔استطاعت میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ اس جدوجہد کی شرعی حدود سے بھی واقف ہو یا مستند علماء کی رہنمائی میں کوشش کرے ، لہذا  ہر شخص  اپنے اپنے دائرہ  کار میں اس کا اہتمام کرے۔
2.    اجتماعی کاوشوں میں حصہ دار بنے ۔ تاہم یہ سب جدوجہد پر امن طریقے سے ہونی چاہیے۔ اس  کوشش میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف اسلحہ اٹھانا درست نہیں، بے شک وہ ظالم اور جابر ہی کیوں نہ ہوں ،کیونکہ حدیث میں اس سے صراحتا ممانعت آئی  ہے:
چناچہ حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جن باتوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا ان میں یہ بھی تھا کہ خوشی و ناگواری، تنگی اور کشادگی اور اپنی حق تلفی میں بھی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور یہ بھی کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان کو کفر بواح کرتے نہ دیکھ لیں اور اس بارے میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو    (صحیح مسلم1470/3،حدیث نمبر:1709)
3.    اس لیے موجودہ عالمی منظرنامے میں اسلامی ممالک میں شریعت کے نفاذ کا بہترطریقہ پرامن سیاسی جدجہد ہے،موجودہ دینی یا مذہبی جماعتوں میں سے جس سے مناسبت ہو ان کے قائدین کی رہنمائی میں سلیقے سے کام کرنا چاہیے ۔ اگر کہیں کمزوری نظر آئے تو حکمت و بصیرت سے اپنی شکایت پہنچا دینی چاہیے۔
  .4,5اسلامی ممالک خصوصا پاکستان میں آج کل  جو ذہن بن رہا ہے جس  میں اسلحہ اٹھانے ،سیکورٹی اداروں کے ساتھ نبرد آزما ہونے جیسے واقعات رونما ہورہے   ہیں ،ایسے انقلابی طریقے اختیار کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات

أخرج الإمام مسلم في "صحيحه" ()(1470/3الحديث رقم: 1709)من حديث    جنادة بن أبي أمية قال: "دخلنا على عبادة بن الصامت وهو مريض. فقلنا: حدثنا، أصلحك الله، بحديث ينفع الله به، سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:دعانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فبايعناه. فكان فيما أخذ علينا، أن بايعنا على السمع والطاعة، في منشطنا ومكرهنا، وعسرنا ويسرنا، وأثرة علينا. وأن لا ننازع الأمر أهله. قال إلا أن تروا كفرا بواحا عندکم  من اللہ فیہ برھان"

 واجد علی
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۲۸/جمادی الاولی 6144ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

واجد علی بن عنایت اللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب