85671 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
2010ء میں میرے چھوٹے بھائی اسلم کی شادی ہوئی،اس وقت ہم آبائی گھر کو چھوڑ کر ہم کرائے کے گھر میں آئے ، ہمارے گھر کا کرایہ 4500 روپے ماہانہ آتا تھا ، 2010ءہی میں اس گھر کو تیارکرنے پر ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوا، سونے کو رہن رکھا کر سود پر پیسہ لیا، اس پر جو کچھ بھی سود دیا میں نے خود دیا اور ہم سب ایک ہی ہانڈی سے کھاتے تھے، سب کے گھر کا خرچ ایک ہی جگہ پہ تھا اس لیے کرایہ بھی گھر میں ہی خرچ ہوتا تھا اور اب کرایہ سات ہزار روپے آنے لگا، 2015 یا 2016 میں میرے پاس تین لاکھ روپے جمع تھے اور کسی طرح ہمارے گھر میں پتہ چلا، اس وقت میرے والد اور میرے سب گھر والے مجھ پر دباؤ ڈال کر مجھے منظور نہ ہونے کے باوجود مجھ سے وہ پیسے ادھار مانگنے لگے کہ ہم گھر بنائیں گے، تم صرف یہ تین لاکھ روپے دے دو اس کی ذمہ داری میرے والد بولے میں لوں گا تمہیں اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم صرف یہ پیسے دے دو، میں قطعا اس بات پہ راضی نہیں تھا کہ میرا یہ پیسہ اس گھر کے اوپر خرچ ہو ، لیکن میرے والدین کی وجہ سے مجھے مجبورا پیسہ دینا پڑا اور اس کے چار ماہ بعد بھی ان لوگوں سے وہ کام نہیں ہو پایا پھر پیسے کا تقاضہ کیا گیا مجھ سے تو پھر مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے دو لاکھ روپے دیے تھے یا اس سے کم دیے تھے، اس کے بعد تین مہینے کے بعد میں جب بیرون ملک سے چھٹی پر ہندوستان واپس آیا اس وقت تک میں دیکھ رہا تھا کہ گھر کے حالات ان لوگوں سے سنبھلنے والے نہیں ہیں اور مجھے بیچ میں آنا ہی پڑے گا اس وجہ سے میں بیچ میں آ کے بولا کہ میں اس کی ذمہ داری میں لوں گا، اب یہ گھر کمپلیٹ ہونے تک اور اس میں جتنا پیسہ آخری کیل تک جو خرچ ہوگا وہ ہم تینوں میں برابر برابر بٹے گا اور جس شخص کاجتنا پیسہ اس میں لگا ہے اس کو اتنا منافع ملے گا یعنی کرائے میں سے اتنا منافع وہ کمائے گا ، اس بات پر میں تیار ہو کر کے بیچ میں آیا اور اس کے بعد یہ کام پورے زور سے شروع ہوا اور ڈیڑھ سال کے اندر یہ کام ختم ہوا، اب چونکہ ہم بیرون ملک رہتے ہیں، میرے بھائی اسلم وہاں پہ گھر کے پاس ہی رہتے ہیں، ان کی زیر نگرانی میں پورا گھر کا کام ہوا تو ان کا وقت خرچ ہوا صبح میں آنے جانے میں پیٹرول بھی خرچ ہوا تو اس وجہ سے ہر ماہ ان کے پانچ ہزار روپے مزید ساتھ جوڑ دیے 15 مہینے اس کام کو ختم ہونے میں لگے تو ہم نے ان کی اجرت پانچ ہزار روپے ماہانہ حساب کر کے 75 ہزار روپے ان کی طرف سے انویسٹمنٹ کے طور پر طے کر دیے، اب یہ بات طے ہو گئی کہ جس آدمی نےجتنا پیسہ انویسٹ کیا اس کو اتنا منافع ملے گا ،اب جب گھر بن کے تیار ہو گیا تو میں نے یہ فیصلہ کیا کہ زمین تو والد کی ہے تو ایک حصہ ان کو بھی ملنا چاہیے، کیونکہ انہوں نے زمین کو انویسٹ کیا، ہم لوگوں نے پیسے کو انویسٹ کیا تو اس حساب سے ان کا بھی ایک حصہ بننا چاہیے، اس وجہ سے ایک حصہ تقریبا آٹھ سے ساڑھے اٹھ ہزارمجھے یاد نہیں ہے اس وقت اتنے پیسے ماہانہ والدین کے ہاتھ میں رکھے تھے۔
- اب میں یہ چاہ رہا تھا کہ بھائیوں میں کوئی نا اتفاقی نا آئے ،اس وجہ سے اس گھر کو بیچ دیا جائے اور بیچ کر جو میرا حصہ ہے وہ میں لے لوں اور جو میرے بھائیوں کا خرچہ لگا ان کو ان کا اتنا پیسہ مع نفع مل جائے اور مزید جس کا جو پیسہ خرچ ہوا ہے، ان کو ان کا پیسہ مل جائے اب میری امی اور میری بہنوں کا نظریہ یہ ہے کہ جب کبھی یہ گھر بکے گا تو جتنا پیسہ ہم لوگوں کو ابھی تک کرائے کی مد میں ملا ہے وہ پیسہ اصل پیسوں میں سے کٹ جائے گا اب مجھے کیا کرنا چاہیے اور شرعی طور پر اس کا کیا حکم ہے؟
- ایک مسئلہ یہ ہے کہ 2022 میں میری چھوٹی بہن کی شادی ہوئی ہے اور اس شادی کے خرچے اخراجات امی ابو کے سامنے معاہدہ ہوا تھا کہ اس پر جو بھی کچھ خرچہ ہوگا وہ مجھے واپس دیں گے، کیونکہ میں نےاکیلے خرچ کیاتھا، اسلم اورچھوٹے بھائی عبداللہ دونوں نے کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا تو اب والد کا انتقال ہو گیا، چار ماہ سے اوپر ہو گئے ہیں۔میں نے اپنی بہن کی شادی پر جو تنہا رقم خرچ کی اور والدین نے وہ رقم واپس کرنے کا معاہدہ کیا تھا تو کیا وہ رقم اس مکان سے کاٹی جائے گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
- صورتِ مسئولہ میں والد صاحب کے ذاتی مکان پر خرچ کی گئی رقم کا حکم یہ ہے کہ جس بھائی نے جتنی رقم اس پر خرچ وہ اس رقم کے تناسب سے اس گھر کی تعمیر میں مالک اور حصہ دار ہے ،کیونکہ شرعی اعتبار سے یہ شرکتِ ملک ہے، جس میں ہرشریک اپنے حصہ کے بقدر نفع کا حق دار ہوتاہے، لہذا جب بھی یہ گھر تقسیم ہو گا تو چونکہ اس گھر کی زمین والد صاحب کی ملکیت تھی، اس لیے زمین کے حصہ کی قیمت والدصاحب کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے حساب سے تقسیم ہو گی اور تعمیر کی قیمت تینوں بھائیوں میں ان کے سرمایہ کے تناسب سے تقسیم ہو گی، نیزاگر والدصاحب نے تعمیر میں بھی کچھ رقم صرف کی ہو تو پھر اس حساب سے تعمیر میں بھی ان کا حصہ تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہو گا۔
جہاں تک گھربیچنے تک حاصل شدہ کرایہ کا تعلق ہے تو اس میں بھی یہی اصول لاگو ہو گا وہ اس طرح کہ اس گھر کے کرایہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا: پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے ماہرین سے زمین اور تعمیر کی قیمت لگوا کر وراثتی زمین کے حصہ کا کرایہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہو گا اور تعمیر کے حصہ کا کرایہ تینوں بھائیوں میں ان کی انویسٹمنٹ کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔
اس کے علاوہ بہنوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ گھر فروخت ہونے کے وقت تک حاصل شدہ کرایہ بھائیوں کے تعمیر میں لگے ہوئے سرمایہ سے کاٹا جائے گا، کیونکہ حاصل شدہ کرایہ بھی دراصل والد صاحب کی زمین اور بھائیوں کی مشترکہ تعمیر سے ہی حاصل ہوا ہے اور والدصاحب کی وفات کے بعد اب زمین میں بھی تینوں بھائی اپنےشرعی حصوں کے حساب سے حق دار ہیں، اس لیے حاصل شدہ کرایہ میں بھی وہ اپنی ملکیت کے تناسب سے حصہ دار ہیں، لہذا گھر فروخت ہونے پر کرایہ کے بقدر رقم کاٹے بغیر بھائی اپنے مکمل سرمایہ کے تناسب سے اس کی قیمت میں حق دار ہوں گے۔
- سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اگر واقعتاً والدین نے آپ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ بہن کی شادی پر خرچ کی جانے والی رقم آپ کو واپس کی جائے گی تو اس صورت میں اگر یہ معاہدہ والد صاحب نے کیا تھا تو اس صورت میں والد صاحب کا ترکہ ورثاء میں تقسیم کرنے سے پہلے ان کے ترکہ سے آپ کی رقم ادا کی جائے گی، کیونکہ یہ رقم والد صاحب کے ذمہ بطورِ قرض واجب الاداء تھی، جس کی ادائیگی ترکہ کی تقسیم سے پہلے کی جائے گی اور اگر والدین دونوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا تو اس صورت میں آدھی رقم کی ادائیگی والدہ کے ذمہ لازم ہو گی۔
حوالہ جات
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 714) الناشر: دار إحياء التراث العربي:
(هي) أي الشركة (ضربان شركة ملك وشركة عقد فالأولى) أي شركة الملك (أن يملك اثنان) أو أكثر (عينا إرثا أو شراء أو اتهابا واستيلاء) أي أخذا بالقهر من مال الحربي (أو اختلط مالهما) بغير صنعهما معطوف على قوله يملك (بحيث لا يتميز) أحد المالين على الآخر أو يعسر تمييزه ............. (وكل منهما) أي كل واحد من الشريكين أو الشركاء شركة ملك (أجنبي في نصيب الآخر) حتى لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذن الآخر كغير الشريك لعدم تضمنها الوكالة.
العناية شرح الهداية (6/ 171) الناشر: دار الفكر:
ولكل واحد منهما ربح متاعه وعليه وضيعته، وإن خلطا ثم اشتركا فكذلك في قول أبي يوسف، والشركة شركة ملك لا شركة عقد.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام(ص:206)الناشر: دار الجيل:
(المادة 1073) - (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88) .
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك. إيضاح اللبن والنتاج والصوف: إذا شرط لأحد الشريكين في الحيوان المشترك شيء زائد عن حصته من لبن ذلك الحيوان أو صوفه أو نتاجه لا يصح. مثلا لو شرط الشريكان تقسيم لبن البقرة المشتركة بينهما أثلاثا مناصفة فيكون اللبن مشتركا بينهما أثلاثا فإذا أخذ صاحب الثلث أكثر من حصته بناء على هذا الشرط فيجب عليه رده عينا إذا كان موجودا وبدلا إذا كان مستهلكا. كذلك إذا استهلك أحدهما تلك الحاصلات بلا إذن الآخر يضمن حصته.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (4/ 488) دار إحياء التراث العربي:
ومن عمر دار زوجته بماله أي بمال الزوج بإذنها أي بإذن الزوجة فالعمارة تكون لها أي للزوجة لأن الملك لها وقد صح أمرها بذلك والنفقة التي صرفها الزوج على العمارة دين له أي للزوج عليها أي على الزوجة لأنه غير متطوع فيرجع عليها لصحة الأمر فصار كالمأمور بقضاء الدين.
وإن عمّرها أي الدار لها أي للزوجة بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة لها أي للزوجة وهو أي الزوج في العمارة متبرع في الإنفاق فلا يكون له الرجوع عليها به وإن عمر لنفسه بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة له أي للزوج لأن الآلة التي بنى بها ملكه فلا يخرج عن ملكه بالبناء من غير رضاه فيبقى على ملكه فيكون غاصبا للعرصة وشاغلا ملك غيره بملكه فيؤمر بالتفريغ إن طلبت زوجته ذلك كما في التبيين لكن بقي صورة وهي أن يعمر لنفسه بإذنها ففي الفرائد ينبغي أن تكون العمارة في هذه الصورة له والعرصة لها ولا يؤمر بالتفريغ إن طلبته انتهى.
الفتاوى الهندية (2/ 301) دار الفكر، بيروت:
وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك، ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه ويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، كذا في الكافي.
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 141) دار المعرفة، بيروت:
المستأجر إذا عمر في الدار المستأجرة عمارات بإذن الآجر يرجع بما أنفق وإن لم يشترط الرجوع صريحا.
السراجية في الميراث (1/ 11) الناشر: مكتبة المدينة، كراتشي:
تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولا تقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة.
محمد نعمان خالد
دادالافتاء جامعة الرشیدکراچی
28/جمادی الاولیٰ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |