ماہِ مقدس کی راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمت پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میں سے ایک عظیم عنایت و رحمت ہے، قرآن مجید میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا، ہزار مہینوں کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں، جس خوش نصیب نے اس رات کو عبادت میں گزاردیا اس نے گویا تراسی برس چار ماہ سے زیادہ زمانہ عبادت میں گزارا۔ پہلی اُمتوں کی عُمریں سینکڑوں سال ہوتی تھیں، اگر کوئی اعمال صالحہ میں ان کی برابری کرنا بھی چاہے تو یہ اس کے لئے ممکن نہ تھا، مگر رب کائنات نے خیر الامم کو یہ مقدس شب ’’شب قدر‘‘ مرحمت فرماکر اُمم سابقہ کے ساتھ عبادت میں برابری بلکہ آگے بڑھ جانے کا سامان پیدا فرمادیا، اگر کسی خوش بخت کو زندگی بھر میں صرف دس راتیں ہی عبادت میں گزارنے کی توفیق نصیب ہوجائے تو گویا آٹھ سو تینتیس(۸۳۳) برس چار ماہ سے بھی زیادہ زمانہ کامل عبادت میں گزارنے کا ثواب حاصل ہوجائے۔ کیا کوئی ٹھکانہ ہے اس رحمت کا؟ پھر بھی اگر ہم اس رات کی اس عظیم فضیلت کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں اور مہینہ بھر غفلت میں گزار دیں تو کسی کا کیا نقصان ہے؟ اپنی ہی بدنصیبی و محرومی ہے۔ سال بھر دُنیوی منافع کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، اگر یہ ایک ماہ دُنیوی جھمیلوں سے یکسو ہوکر اپنے رب کریم کو راضی کرنے اور اس کی عبادت میں گزار دیں تو کیا قیامت آجائے گی؟ معمولی سی مشقت اور اجر و ثواب کا اتنا بڑا ذخیرہ۔
گناہوں کی معافی:
شب قدر کی اہمیت کے لئے قرآن کریم میں بیان کردہ مذکورہ فضیلت ہی کافی تھی، مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس کی قدر و منزلت بتانے کے لئے متعدد ارشادات فرمائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔‘‘ ( بخاری )
تنبیہ:
حدیث ِبالا اور اس جیسی احادیث جن میں کسی عمل صالح سے گناہوں کی معافی کا ذکر آتا ہے، ان میں گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہوتے ہیں، اس لئے کہ قرآن کریم میں کبیرہ گناہوں کی معافی کو توبہ کے ساتھ مقید کیا ہے، اس لئے جمہور علماء کا اجماع ہے کہ کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ اس لئے لیلۃ القدر کی عبادت ہو یا اور کوئی نیک عمل، اس کے فضائل پڑھ سن کر بے دریغ گناہ کرتے جانا اور معافی کی اُمید رکھنا جہالت ہے، کبیرہ گناہوں سے توبہ کا اہتمام لازم ہے، توبہ کے باوجود اس لغرش و خطا کے پتلے سے صغائر کا صدور ہوتا ہی رہتا ہے، شب قدر کی عبادت اور دوسرے اعمال صالحہ سے ان صغائر کی معافی بھی بہت بڑا انعام ہے۔
’’نزاع و اختلاف‘‘ تعیین لیلۃ القدر کے اُٹھ جانے کا سبب:
حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں لیلۃ القدر کے بارے میں خبر دیں مگر دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس لئے آیا تھا تاکہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں، مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہورہا تھا، جس کی وجہ سے اس کی تعیین اُٹھالی گئی، کیا بعید ہے کہ یہ اُٹھالینا اﷲ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو، اب اس رات کو نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔ ( بخاری )
دوسری روایات کے پیش نظر یہ تین راتیں آخری عشرہ کی ہیں۔ اگر آخری عشرہ اول سے شمار کیا جائے تو 27،25 اور29 بنتی ہیں اور آخر سے شمار کیا جائے اور چاند29 کا ہو تو 21، 23 اور 25 بنتی ہیں اور 30 کے چاند کی صورت میں 22، 24 اور26 بنتی ہیں۔
آپس کا اختلاف اور بغض و عناد اس قدر بُری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے شب قدر کی تعیین ہمیشہ کے لئے اُٹھالی گئی، اختلاف و نزاع ہمیشہ برکات سے محرومی کا سبب ہوتا ہے۔ ( شرح مسلم : ۱/۳۷۰ )
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کی آبروریزی کو بدترین و خبیث ترین سود قرار دیا ہے۔ وہ لوگ جو ہر وقت دوسروں کا وقار گھٹانے کی فکر میں رہتے ہیں اور دوسرے کے حق میں اتہام و الزام تک کا بے دریغ ارتکاب کرتے رہتے ہیں، ذرا چند لمحوں کے لئے تنہائی میں بیٹھ کر اﷲ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی روشنی میں غور کریں کہ وہ اپنے وقار کو کس قدر صدمہ پہنچا رہے ہیں اور اپنی ان ناپاک اور کمینہ حرکتوں سے اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں کتنے ذلیل ہورہے ہیں؟
لیلۃ القدر اور آخری عشرہ:
اگرچہ لیلۃ القدر کی حتمی تعیین کا علم اُٹھالیا گیا، مگر احتمال کے درجہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آخری عشرہ کی طاق راتیں عبادت میں گزارنے کا حکم دیا ہے۔ ( بخاری ،حدیث نمبر : ۲۲۵ )
جمہور علماء کے نزدیک رمضان خواہ 29 کا ہو یا30 کا آخری عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے، اس حساب سے حدیث بالا کے مطابق شب قدر کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے 21، 23، 25، 27، 29 کی رات کو عبادت کا خوب اہتمام کرنا چاہئے۔ جبکہ بعض علماء کے نزدیک اگر رمضان 29 کاہو توآخری عشرہ بیسویں شب سے شروع ہوگا، اس حساب سے طاق راتیں، 20،22،24،26،28 ہوں گی۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لیلۃ القدر ہی کی فضیلت پانے کے لئے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف{ XE "اعتکاف:" } فرمایا کرتے تھے۔ ( مسلم : ۱/۳۷۰ )
آپ کا یہ اعتکاف بالاتفاق اکیسویں شب سے شروع ہوتا تھا، اس لئے بھی جمہور کا قول زیادہ راجح ہے۔ تاہم دونوں اقوال پر لیلۃ القدر کا حصول جب ہی ممکن ہے کہ بیسیویں شب سے لے کر عید کی رات تک ہر رات میں عبادت کا اہتمام کیا جائے، تراسی سال چار ماہ سے زیادہ زمانہ کی عبادت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے دس گیارہ راتیں عبادت کرنا کوئی ایسی مشکل چیز نہیں ؎
عرفی اگر بگریہ میسر شدے وصال
صد سال میتواں بہ تمنا گریستن
لیلۃ القدر کا علم مرتفع ہونے کی مصلحتیں:
لیلۃ القدر کوئی معین رات نہیں، بعض کا قول ہے کہ پورے سال میں کوئی رات ہے، بعض کا قول ہے کہ پورے رمضان میں کوئی رات ہے، بعض نے کہا کہ آخری عشرے میں،پھر اس کی بھی طاق راتوں میں زیادہ احتمال ہے جس کی تائید حدیث بالا سے بھی ہوتی ہے۔
لیلۃ القدر کا علم مرتفع ہونے کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا بعید ہے کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہو۔‘‘ اس کی پوری مصلحتیں تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں، تاہم علماء کرام نے چند مصلحتیں تحریر فرمائی ہیں:
۱۔ غفلت سے بچانا:
اگر معلوم ہوجاتا کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے تو اس رات میں تو عبادت کرتے اور دوسری راتوں میں سوتے رہتے، علم نہ ہونے کی صورت میں ہر رات کے بارے میں امکان ہے کہ یہی لیلۃ القدر ہو، اس لئے ہوشیار رہو، ہر وقت ہوشیارر ہو۔
۲۔ سخت عذاب سے بچانا:
اگر پتا چل جاتا کہ فلاں رات ہے تو بہت سے لوگ اس میں بھی گناہ نہ چھوڑتے، اور نہیں تو کم از کم ڈاڑھی تو منڈا ہی لیتے یا کٹوالیتے۔ شرعی پردہ سے بغاوت، غیبت کرنا، ٹخنے ڈھانکنا وغیرہ، بے شمار گناہ جنہیں آج کا مسلمان گناہ ہی نہیں سمجھتا، سب کچھ کرتا رہتا، لیلۃ القدر جیسی مقدس رات میں بھی اﷲ تعالیٰ کی بغاوتوں اور نافرمانیوں سے باز نہ آتا تو اس پر عذاب بہت سخت ہوتا، اس لئے یہ بھی اﷲ کی رحمت ہے کہ لیلۃ القدر کا علم واپس لے کر بندوں کو سخت عذاب سے بچالیا۔
۳۔ افسردگی سے بچانا:
اگر کسی شخص سے وہ رات کسی عذر سے یا اتفاقًا چھوٹ جاتی تو افسردگی کی وجہ سے آیندہ راتوں میںسے کسی رات بھی عبادت نصیب نہ ہوتی، تعیین نہ ہونے کی وجہ سے کئی راتوں کی عبادت نصیب ہوجاتی ہے۔
۴۔ز یادہ اجر دینا :
جتنی راتیں لیلۃ القدر کی طلب میں خرچ ہوتی ہیں ان کا مستقل ثواب علیحدہ ملے گا۔
چند غلط فہمیوں کا ازالہ
گناہوں سے اجتناب نہ کرنا:
بہت سے لوگ خاص مواقع پر عبادت کا خوب اہتمام کرتے ہیں، مگر گناہوں سے بچنے بچانے کا اہتمام نہیں کرتے، بلکہ آج کل کے مسلمان نے بہت سے کبائر کو گناہوں کی فہرست ہی سے نکال دیا ہے، مثلاً:
۱۔ مردوں کا ڈاڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا۔
۲۔ عورتوں کا غیرمحارم قریبی رشتہ داروں دیور، جیٹھ، چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، نندوئی، بہنوئی وغیرہ سے پردہ نہ کرنا۔
۳۔ ٹی وی، وی سی آر دیکھنا۔
۴۔ گانا باجا سننا۔
۵۔ بلاضرورت تصویر کھنچوانا، دیکھنا، رکھنا۔
۶۔ بینک، انشورنس وغیرہ حرام ذرائع آمدن اختیار کرنا اور ایسے لوگوں کے ہاں دعوتیں کھانا اور تحائف قبول کرنا۔
۷۔ مردوں کا ٹخنے ڈھانکنا۔
۸۔ غیبت کرنا، سننا۔
جب تک ان کبائر سے بچنے بچانے کا اہتمام نہ کیا جائے نفل عبادت خواہ کتنی زیادہ کی جائے، نجات کے لئے کافی نہیں، اگر گناہوں سے بچنے بچانے کا اہتمام ہو اور زیادہ نفل عبادت کرنے کا موقع نہ بھی ملے، فرائض و واجبات پر عمل کرلیا جائے تو ان شاء اﷲ نجات ہوجائے گی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اتق المحارم، تکن أعبد الناس ‘‘۔
’’یعنی اﷲ تعالیٰ کے حرام کردہ افعال و اعمال سے بچو، سب سے بڑے عبادت گزار بن جائو گے‘‘۔
قرآن کریم میں ہے:
{ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اﷲ ُمِنَ الْمُتَّقِیْنَ }
یعنی اﷲ تعالیٰ گناہوں سے بچنے والوں کے اعمال ہی قبول فرماتے ہیں۔
بعض معاصی سے اعمال صالحہ ضائع ہوجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
اس لئے جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اس شخص کے لئے تباہی و بربادی کی بددُعا فرمائی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر آمین کہا، جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔
جو شخص ایسے مبارک لمحات میں بھی گناہوں میں مست ہو وہ تباہی و بربادی ہی کا مستحق ہے۔ اس کی مغفرت کے لئے اس خیر و برکت والے مقدس مہینے سے زیادہ مقدس اور کون سا وقت ہوگا؟
نفل عبادت کرنے میں غلطیاں:
1:۔بعض لوگ پوری رات نفل نماز پڑھنے ہی کو ضروری سمجھتے ہیں، اور بعض تو اس سے بڑھ کر بعض مخصوص سورتوں کے ساتھ خاص انداز سے نماز پڑھنا ضروری خیال کرتے ہیں، اس رات میں کسی خاص قسم کی عبادت کی تعیین نہیں، نفل نماز پڑھیں، تلاوت کریں، درود شریف پڑھیں، ذکر اﷲ کریں، دُعاء مانگیں یا قلب کو اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرکے اس کے احسانات، انعامات، عظمت شان کو سوچ سوچ کر اس کی محبت دلوں میں اُتارنے اور بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ سب عبادت میں داخل ہے۔
2 :۔عمومًا لوگ نفل پڑھنے کے لئے مساجد میں جانے کا اہتمام کرتے ہیں، جبکہ ہر قسم کی نفل عبادت کا ثواب مسجد کی بجائے گھر میں زیادہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو اور انہیں قبریں مت بناؤ۔‘‘ ( بخاری و مسلم )
مطلب یہ ہے کہ جیسے قبرستان میں خاموشی ہوتی ہے، اس طرح گھروں کو ویران نہ بنائو، بلکہ ذکر و عبادت سے آباد رکھا کرو۔ اس لئے گھر کی خواتین کو بھی عبادت کی ترغیب دے کر عبادت کا ماحول بنانا چاہئے اور مردوں کو نفل عبادت مسجد کی بجائے گھر میں کرنی چاہئے۔
3 :۔بعض جگہوں میں مساجد میں جمع ہوکر نوافل کی جماعت کرتے ہیں، نفل کی جماعت بہت بڑی بدعت اور گناہ ہے۔
’’ ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعی ۔‘‘ ( الدرالمختار : ۲/۴۸ )
4:۔بہت سے لوگ طبیعت پر جبر کرکے چائے پی پی کر، لونگ چبا چبا کر جاگنے کی تدبیریں کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض لوگوں کی فجر کی نماز قضاء ہوجاتی ہے یا جماعت چھوٹ جاتی ہے یا نماز میں اونگھتے رہتے ہیں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ نفل کی خاطر فرض یا واجب کو چھوڑ دیا جائے یا اس میں کوتاہی ہو۔ عبادت وہی مقصود و قابل قبول ہے جو رغبت و شوق سے ہو۔ انشراح صدر سے جتنی دیر عبادت کرسکیں کریں، جب تھکاوٹ ہوجائے یا نیند کا غلبہ ہو اور دلجمعی نہ رہے جس سے زبان سے کچھ کا کچھ نکلنے کا اندیشہ ہو تو سوجائیں، خصوصًا فجر کی نماز باجماعت میں ہرگز کوتاہی نہ کریں۔
اصل چیز یہ ہے کہ دل میں اﷲ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں، محبت پیدا ہوجائے تو ایک نہیں، ہزاروں راتیں عبادت میں گزاری جاسکتی ہیں، اور اﷲ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لئے کسی عالم باعمل شیخ کامل کی صحبت اختیار کرکے ان سے اصلاحی تعلق قائم کرنا ضروری ہے۔ وﷲ الموفق وھوالمعین
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی