03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایس ایم ایس کے ذریعے طلاق دینے کا حکم
85688طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

االسلام علیکم!گزارش ہے کہ پچھلے دنوں میرے ایک کزن جو کہ UKمیں ہے اس نے میسج میں تین بار  لفظ"طلاق" لکھ کراپنی بیوی کو سینڈ کر دیا جو کہ اس کی بیوی نے پڑھ لیا۔کیا اس صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟کچھ دوست فرمارہے تھے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے تمام علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسی طلاق ایک شمارہوگی اور اس  سے متعلق پاکستان میں قانون بھی بن گیا ہے۔ اگر ایسا کچھ ہے تو کیا ہم کو اس فیصلے کی کاپی مل سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

   صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کے کزن نے لفظ"طلاق" تین بار  واضح طور پر   ایس ایم ایس میں لکھ کر اپنی بیوی ہی کو بھیجا ہے،لہذا اس سے تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی اس پرحرام ہوگئی ہے،اب نہ رجوع کرسکتا ہےاور نہ ہی  دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔البتہ اگربیوی کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد طلاق ہوجائےیا شوہر فوت ہوجائےتو عدت گزارنے کے بعدپہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

    جہاں تک پاکستان کے قانون سے متعلق بات ہے تو پاکستان میں فیملی لاء آرڈیننس یا اس  کی ترامیم میں ایسی کسی شق کا ذکر نہیں ہے جس کی بنیاد پر تین طلاقیں ایک شمار کی جائیں۔

حوالہ جات

 قال العلامة علاؤ الدين الكاساني رحمه اللہ تعالى:وإن كتب كتابة مرسومة على طريق الخطاب والرسالة مثل: أن يكتب أما بعد يا فلانة !فأنت طالق، أو إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق يقع به الطلاق، ولو قال: ما أردت به الطلاق أصلا، لا يصدق إلا أن يقول: نويت طلاقا من وثاق، فيصدق فيما بينه وبين الله عز وجل؛ لأن الكتابة المرسومة جارية مجرى الخطاب.(بدائع الصنائع: 3/ 109)

       وقال أصحاب الفتاوى الهندية:وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لا تخلو إما إن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة.وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق، فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع،كذا في فتاوى قاضي خان. (الفتاوى الهندية:1/ 378)ٌ

        وقال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله :(كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب…وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق، فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق، كذا في الخلاصة.(رد المحتار:3/ 246)

 جنید صلاح الدین 

دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی

29/جمادی الاولی6144ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جنید صلاح الدین ولد صلاح الدین

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب