85686 | خرید و فروخت کے احکام | قرض اور دین سے متعلق مسائل |
سوال
سوال یہ ہے کہ 1992میں فروخت کیے گئے پلاٹ اور 1983میں دیے گئے چالیس ہزار روپے اس وقت کے روپے کی قدر(value)کے حساب سے وصول کیے جائیں گے یا آج کےقدر کا حساب کیا جائے گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ جس کرنسی میں قرض دیا جائے تو واپس بھی اس کرنسی کی اتنی ہی مقدار میں کرنا ضروری ہے،چاہے اس کرنسی کی قدر کم ہو جائے یا بڑھ جائے،قرض خواہ کو اس مقدار سے زیادہ لینے کا کوئی حق نہیں ۔اگر زبردستی لیتا ہے تو ظلم اور غصب ہوگا۔لہذا ٓپ کے والد نے پلاٹ بیچ کر جتنے پیسے آپ کی دادی کو قرض دیے تھے(اتنے ہی پیسے نہ کہ پلاٹ کی موجودہ قیمت) اوراسی طرح پھوپھی کے ذمے جو چالیس ہزار قرض تھے، آپ کو ان کی میراث سے اتنی ہی مقدار میں لینے کا حق ہے، روپے کی قدر زیادہ گرنے کی وجہ سے قرض کی مقدار سے زائدوصول کرنا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:أنه مضمون بمثله، فلا عبرة بغلائه ورخصه، ذكره في المبسوط من غير خلاف.
وقال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله:( فلا عبرة بغلائه ورخصه) ...وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه.
(رد المحتار:5/ 162)
وقال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ تعالی: فإذا كان عقد البيع،أو القرض وقع على نوع معين منها كالريال الفرنجي مثلا، فلا شبهة في أن الواجب دفع مثل ما وقع عليه البيع ،أو القرض.
( العقود الدرية:1/ 281)
وقال العلامة علي حيدر أفندي رحمه الله تعالى:إذا أدى مثل المقروض يكون قد أدى الدين ولا يلتفت للرخص والغلاء، حتى أنه لو استقرض الدراهم المكسورة مغشوشة على أن يؤديها دراهم صحيحة يبطل هذا الشرط . مثلا: لو استقرض أحد خمسين دينارا عثمانيا بينما كان الدينار الواحد رائجا بمائة وثمانية قروش ،ثم نزل سعر الدينار إلى مائة قرش ،أو صعد إلى مائة وعشرين قرشا فيكون المستقرض مجبورا على أداء الخمسين الدينار المذكورة.(شرح المجلۃ:3/ 86(
وقال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ تعالی: لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. (رد المحتار:4/ 61)
جنید صلاح الدین
دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
29/جمادیالاولی1446
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جنید صلاح الدین ولد صلاح الدین | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |