85714 | معاشرت کے آداب و حقوق کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
میری بہن کی ایک جگه شادی ہوئی ہے. اس کا شوہر اسے والدین کے گهر هر ہفته یا دو ہفتے بعد آنے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن یہاں پر اسے رات گزارنے کی اجازت بالکل نہیں دیتا. جب که بہرحال وہ اس کی بیوی ہونے کے علاوہ کسی کی بیٹی اور ہماری بہن بھی تو ہے اور وہ بھى چاہتی ہے که اپنے والدین کے گھر بہن بهائیوں کیساتھ کبھی کبھار رات بھی گزارے....!! ہمارے والدین اس بارے میں کافی پریشان اور غصه ہیں اگر مناسب رہنمائی نه کی گئی تو وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں....!!! براہ کرم اس میں ہماری رہنمائی فرمائیں ہم کیا کریں....؟؟ کیا شریعت میں عورت کو میکے میں رات گزارنے کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے....؟ اگر لڑکی کی خواہش اور ہمارے اصرار کے باوجود وہ اس کی اجازت نہیں دیتا تو ہم کیا کرسکتے ہیں....؟ کیا شریعت نے لڑکی کے ان احساسات و جذبات کا خیال نہیں رکھا ہے....؟؟ اس بارے میں شریعت کی تعلیمات کیا ہیں....؟؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر شوہر میکے جاکر والدین سے ملنے کی اجازت دے،لیکن وہاں رات گزارنے کی اجازت نہ دے تو شرعاً بیوی پر لازم ہے کہ وہ رات واپس اپنے گھر لوٹ آئے۔البتہ اخلاقی طور پر شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کوکبھی کبھار والدین کے ہاں رات گزارنے کی اجازت دے دے،کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ باہمی اتفاق اور محبت سے پائیدار رہتا ہے،بیوی کی جائز خواہشات کو پورا کرنے سے اس میں وفاداری اور محبت مزید بڑھ جاتی ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :" تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنےگھر والوں کے ساتھ اچھا ہو،اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے زیادہ اچھا (سلوک کرنے والا) ہوں"۔
حوالہ جات
أخرج الإمام الترمذي في "سننه" (401/6:3895)من حديث عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه»
قال العلامة ابن نجيم رحمه الله: وقد استفيد مما ذكرناه أن لها الخروج إلى زيارة الأبوين والمحارم فعلى الصحيح المفتى به تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبغير إذنه ولزيارة المحارم في كل سنة مرة بإذنه وبغير إذنه، وأما الخروج للأهل زائدا على ذلك فلها ذلك بإذنه.( البحر الرائق:212/4)
قال ابن عابدين رحمه الله :ليس لها أن تخرج بلا إذنه أصلا فافهم (قوله أو لزيارة أبويها) سيأتي في باب النفقات عن الاختيار تقييده بما إذا لم يقدرا على إتيانها، وفي الفتح أنه الحق. قال: وإن لم يكونا كذلك ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إن كانت شابة والرجل من ذوي الهيآت. (رد المحتار:146/3 (
قال العلامة الحصكفي رحمه الله :وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.(الدر المختار:102)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله:(قوله في كل مباح) ظاهره: أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به.( رد المحتار: 208/3)
محمد فیاض بن عطاءالرحمن
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۲۸ جمادی الاولی ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد فیاض بن عطاءالرحمن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |