85761 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا اچھا خاصا ہول سیل کا کاروبار ہے۔ ہمارے کسٹمر جب بھی ہمیں آرڈر دیتے ہے ہول سیل کے اعتبار سے ، تو اس میں دو صورتیں ہوتی ہیں ؛یا تو ہماری طرف سے سوزکی یا زرنج (موٹر سائیکل) اس تک مال پہنچاتے ہیں یا اسکی طرف سے کوئی سوزکی یا زرنج وغیرہ آکر یہاں سے مال اپنی دوکان پرلے جاتے ہیں اور یہ سوزکی اور زرنج دونوں کرایہ کے ہوتے ہیں ۔ یہاں یہ عرف ہے کہ سوزکی جس کی ہو، سامان گم ہونے کی صورت میں ضمان بھی اسی پر آتا ہے ، اور ہم ان سوزکی اور زرنج پر ضمان بھی رکھتے ہے یعنی اگر کاٹن گم ہوگیا یا چوری ہوگیا تو اسکا تاوان تم دوگے ، اگر ہم لوگ اس پر تاوان نہیں رکھتے تو یہ لوگ مال صحیح سے نہیں پہنچاتے، بہت غفلت کرتے ہیں مال پہنچانے میں ، ضمان کے بارے میں فتاوی دار العلوم زکریا میں ہے “” کرائے کی چیز مستاجر کے قبضہ میں بطور امانت ہوتی ہے لہذا اگر اس نے حفاظت میں تقصیر و کوتاہی نہیں کی تھی تو تاوان نہیں آئے گا لیکن موجودہ دور میں عام طور پر مستأجر کی غفلت کی وجہ سے آئے دن اس قسم کی واقعات پیش آتے ہے اور یہ بھی معلوم کرنا مشکل ہے کہ مستأجر نے غفلت کیا ہے یا نہیں اور اسکی نظیر فقہاء کی اصطلاح میں اجیر مشترک ہے صاحبین رح کے مذہب کے مطابق استحسانا اس پر تاوان لگانا جائز ہے صیانۃ لاموال الناس (زکریا ج؛ 5 ص 717 ) تو کیا ضمان رکھنا جائز ہے ان لوگوں پر دار العلوم زکریا کو دیکھتے ہوئے ، اگر کسی طریقے سے یہ معلوم ہوجائے کہ مزدور نے نہ کوئی کوتاہی کی ہے اور نہ غفلت تو تاوان مالک پر آئے گا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اجیر مشترک پر ضمان کے بارے میں مفتی بہ قول یہی ہے کہ: اگر اجیر مشترک کی تعدی ہو تو ضمان آئے گا، اور اگر تعدی (قصور) نہ ہو تو ضمان نہیں آئے گا ۔باقی جو فتاوی دار العلوم زکریا میں ہے کہ "کرائے کی چیز مستاجر کے قبضہ میں بطور امانت ہوتی ہے لہذا اگر اس نے حفاظت میں تقصیر و کوتاہی نہیں کی تھی تو تاوان نہیں آئے گا لیکن موجودہ دور میں عام طور پر مستاجر کی غفلت کی وجہ سے آئے دن اس قسم کی واقعات پیش آتے ہے اور یہ بھی معلوم کرنا مشکل ہے کہ مستأجر نے غفلت کیا ہے یا نہیں اور اسکی نظیر فقہاء کی اصطلاح میں اجیر مشترک ہے صاحبین رح کے مذہب کے مطابق استحسانا اس پر تاوان لگانا جائز ہے صیانۃ لاموال الناس (زکریا ج؛ 5 ص 717 )"، اسی طرح ایک فتویٰ میں ہے اجیر مشترک کا اصل حکم یہ کہ بغیر تعدی کہ اگر کوئی چیز ہلاک ہو جائے یا چوری ہو جائے تو تاوان نہیں آئیگا لیکن موجودہ دور میں فساد زمانہ اور عام طور پر اجیروں کی غفلت کو دیکھتے ہوئے لوگوں کے اموال کی حفاظت کے خاطر متاخرین فقہاء نے وجوب ضمان کا فتوی دیا ہے، لہذا غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے تاوان واجب ہوگا۔ (زکریا ج؛ 5 ص 634 )
ان عبارت کے ملاحظہ کے بعد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضمان کی اصل وجہ غفلت ہی بتائی گئی ہے ،لہٰذ امعلوم ہوا کہ اگر اجیر مشترک کی تعدی ہو تو ضمان آئے گا، اور اگر تعدی (قصور) نہ ہو تو ضمان نہیں آئے گا ۔
پس صورت مسئولہ میں ڈرائیور کی غفلت اور تعدی نہ ہو تو اس پر تاوان نہ ہوگا اوراگر غفلت نہ ہونے کی صورت میں بھی تاوان کی شرط لگائی تو یہ شرط فاسد ہوگی، اور اس شرط فاسد کی وجہ سے عقد اجارہ فاسد ہو جائے گااور اجیر (ڈرئیور ) اجرت مثل کا مستحق بنے گا۔ اب اگر یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اجیر (ڈرائیور) نے کوئی غفلت اور کوتاہی نہیں کی تو اس پر ضمان لگانا جائز نہیں ہوگا ، لیکن اگر معلوم کرنا مشکل ہو کہ اجیر نے غفلت کی ہے یا نہیں تو اس میں اجیر کے احوال کو دیکھا جائے گا اگر وہ امانت دار مشہور ہے تو اس کی بات کا اعتبار کرلیا جائے گا اور اگر وہ غفلت اور جھوٹ بولنے میں مشہور ہے تو اس پر بہرحال ضمان لگایا جائے گا ،بہتر یہ ہے کہ اس سے قسم لے کر اس کی بات کا اعتبار کیا جائے۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق،): 6/137(
قال رحمه الله (والمتاع في يده غير مضمون بالهلاك) سواء هلك بسبب يمكن التحرز عنه كالسرقة أو بما لا يمكن كالحريق الغالب والغارة المكابرة، وهذا عند أبي حنيفة وزفر والحسن بن زياد رحمهم الله وهو القياس، وقالا يضمن إلا إذا هلك بأمر لا يمكن التحرز عنه؛ لأن عمر وعليا رضي الله عنهما كانا يضمنان الأجير المشترك ولأن المعقود عليه الحفظ وعقد المعاوضة يقتضي سلامة المعقود عليه عن العيب فيكون المستحق بالعقد حفظا سليما عن العيب الذي هو سبب الهلاك؛ لأنه لا يمكنه العمل إلا بالحفظ۔۔۔ وبقولهما يفتى اليوم لتغير أحوال الناس وبه تحصل صيانة أموالهم۔
منیب الرحمنٰ
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
05/جمادی الثانی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | منیب الرحمن ولد عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |