85437 | تقسیم جائیداد کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
میرا نام فاطمہ ہے ۔ میرے والد کے انتقال کے بعد والد کے ورثہ میں میری والدہ،میرے تین بھائی اور ہم دو بہنیں ہیں۔ میرے والد کے پاس 700 مربع میٹر زمین تھی، جسے میری والدہ نے تقسیم کر دیا۔ مجھے 87 مربع میٹر زمین ملی، کیونکہ یہ چھوٹا رقبہ تھا اور میرے دوسرے بھائی کے معاہدے کے ساتھ، مجھے اضافی 38 مربع میٹر دیا گیا، کل مجھے 125 مربع میٹر ملا۔ اور میں نے 125 مربع میٹر پر میں اپنا میرا گھر بنایا ۔ دو سال پہلے میرے ایک بھائی کا انتقال ہو گیا اور وہ غیر شادی شدہ تھا۔ اب ورثہ میں ،میری ماں، دو بھائی اور ہم دوبہنیں ہیں۔ میرے سوالات درج ذیل ہیں: کیا مجھے اس کی جائیداد میں سے حصہ ملے گا؟ اگر ہاں تو کتنا؟ دوسرا سوال میری والدہ کو ایک فلیٹ وراثت میں ملا (سائل سےرابطہ کرنے سے معلوم کہ یہ فلیٹ صرف والدہ کی ہی ملکیت ہے،اور اس پر قبضہ بھی اسی کا ہے)جسے انہوں نے حال ہی میں فروخت کیا۔ کیا مجھے فروخت سے رقم کا حصہ ملے گا؟ اگر ہاں تو کتنا؟ میرے سوالات کا خلاصہ کرنے کے لیے:
1. مجھے اپنے متوفی بھائی کی جائیداد سے کتنا حصہ ملے گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
.1 متوفی بھائی کے ترکہ کی تقسیم کاشرعی طریقہ کاریہ ہے کہ سب سےپہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اوراگرمرحوم کےذمہ کوئی قرضہ ہوتواس کی ادائیگی کی جائےگی ۔اگر مرحوم نے کوئی جائز شرعی وصیت کی ہوتو ایک تہائی مال سےوصیت نافذ کی جائے گی۔اس کے بعدبقیہ ترکہ کل 36 حصوں میں تقسیم کیاجائےگا۔اس میں سے 6 حصے مرحوم کی والدہ کو ،10حصے مرحوم کے ہر بھائی کواور5حصے مرحوم کی ہر بہن کو دیےجائیں گے۔
تقسیم جائیداد |
والدہ |
بھائی |
بھائی |
بہن |
بہن |
مجموعی حصے /کل فیصد |
باعتبارحصص(36) |
6 |
10 |
10 |
5 |
5 |
36 (حصے) |
باعتبارفیصد |
16.67% |
27.78% |
27.78% |
13.89% |
13.89% |
100%(فیصد) |
.2جب تک کوئی شخص زندہ ہےاس کی جائیداد میں کسی کا حصہ نہیں ہے۔اگر وہ اپنی خوشی سے اپنی جائیداد و ملکیت کا بٹوارہ اپنی زندگی میں کر نا چاہےتو کر سکتاہے۔والدین کے لیے زندگی میں تقسیم کا افضل طریقہ یہ ہے کہ تمام اولاد کو برابر حصہ دیں۔ اورشرعی وراثت کے طریقےسے تقسیم کرنا چاہیں تو بھی تقسیم کر سکتےہیں۔
صورت مسئولہ میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ والدہ اپنی جائیداد میں سے جتنا حصہ تقسیم کرنا چاہتی ہیں اس کو 6 حصوں میں تقسیم کرکےہربیٹے کو دوحصے اور ہر بیٹی کوایک ایک حصہ دے۔اگر کسی وارث کو کسی معقول وجہ سے کم یا زیادہ دینا چاہےتو اس کی بھی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
قال الحصکفي رحمه الله عليه: (وللأم) ثلاثة أحوال (السدس مع أحدهما أو مع اثنين من الاخوة أو) من (الاخوات) فصاعدا من أي جهة كانا ولو مختلطين والثلث عند عدمهم وثلث الباقي مع الاب وأحد الزوج…..(للام عند عدم من لها معه السدس) كما مر. (الدر المختار:763/10)
قال الشيخ نظام رحمه الله تعالى في الھندیة: الأم ولها ثلاثة أحوال: السدس مع الولد وولد الابن أو اثنين من الإخوة والأخوات من أي جهة كانوا والثلث عند عدم هؤلاء وثلث ما يبقى بعد فرض الزوج والزوجة، كذا في الاختيار شرح المختار وذلك في موضعين: زوج وأبوان، أو زوجة وأبوان. فإن للأم ثلث ما يبقى بعد نصيب الزوج أو الزوجة والباقي للأب عند الجمهور، وإن كان مكان الأب جد فللأم ثلث جميع المال، كذا. (الفتاوى العالمكيرية: 6/ 449)
قال الشيخ نظام رحمه الله تعالى في الھندیة: الأخوات لأب وأم للواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان، كذا في خزانة المفتين ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين، ولهن الباقي مع البنات أومع بنات الابن، كذا في الكافي. (الفتاوى العالمكيرية: 6/ 450)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله عليه: ثم شرع في العصبة بغيره فقال (ويصير عصبة بغيره البنات بالابن وبنات الابن بابن الابن) وإن سفلوا (والأخوات) لأبوين أو لأب (بأخيهن) فهن أربع ذوات النصف والثلثين يصرن عصبة بإخوتهن،ولو حكما كابن ابن ابن يعصب من مثله أو فوقه (رد المحتار:6/ 776)
محمد سعید دین
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
/8 جمادی الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سعید بن محمد دین | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |