85836 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | ملازمت کے احکام |
سوال
السلام علیکم مفتی صاحب! میں ایک آن لائن کام کررہا ہوں اس کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔ دراصل میری کمپنی ماہانہ مختلف اسائنمنٹس یعنی کام وغیرہ دیتی ہے اور اس کے عوض مجھے ماہانہ سیلری ادا کرتی ہے۔ (لیکن یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میرے کام میں اسائنمنٹس سے مراد وہ کام نہیں کہ جو کسی سٹوڈنٹ یاطالب علم کا کام ہو جیسا کہ آج کل طالب علم اپنا کام پیسے دے کر کروا لیتے ہیں ،بلکہ وہ کوئی بھی کام دے سکتے ہیں مثال کے طور پر وہ ڈیٹا انٹری کا کام ہو سکتا ہے یا کچھ بھی یا شاید یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ حجت تام کرنے کے لیے کام دیتے ہیں اور پھر اس کے عوض آپ کو پیسے دیتے ہیں یعنی کوئی بھی حلال کام کاکہتے ہیں تاکہ اس کے عوض پیسے دیے جا سکیں اور اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ پہلے ان کی کمپنی میں رجسٹریشن کے لیے کچھ فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور ابتداءً دو سے تین ممبرز بھی کمپنی کی مارکیٹنگ کے لیے ایڈ کروانا پڑتے ہیں اور پھر قانونی طور پر ان کی کمپنی کے ممبرز ہم قرار دیے جاتے ہیں) لیکن میرے دوست کا کہنا ہے کہ یہ دراصل بعض باہر کی کمپنیز یا این جی اوز ہیں (غیر مسلم) جو کہ چیرٹی یعنی خیرات میں پیسہ دیتی ہیں تاکہ نوجوانوں کو معاشی طور پر مضبوط کیا جا سکے،لیکن وہ نوجوانوں کو خودمختاری کے استحصال سے بچانے کے لیے وہ مختلف کام پہلے ذمہ لگاتے ہیں اور اس کے عوض میں معاوضے کی صورت میں پیسے دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنا جائز ہے اور ان کے دیے گئے کام کے عوض پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کردہ صورت ملٹی لیول مارکیٹنگ (multilevel marketing) ہی کی ایک شکل ہے کیوں کہ اس میں شروع سے دو یا تین ممبر ز بھی کمپنی کی مارکیٹنگ کے لیے شامل کروانے پڑتے ہیں اور پھر قانونی طور پر ان کو کمپنی کا ممبر قرار دیا جاتا ہے۔ملٹی لیول مارکیٹنگ میں کام کرنا درج ذیل وجوہ کی بنا پر نا جائز ہے :
۱۔ بغیر محنت اور سرمایہ کے کمیشن کا مستحق ٹھہرنا
مروجہ مارکیٹنگ میں ابتدائی ممبرز کو آگے کے مراحل میں کمیشن دیا جاتا ہے ، جبکہ نہ تو اس نے سرمایہ کاری کی ہوتی ہے اور نہ ہی ان مراحل میں اس کی محنت شامل ہوتی ہے ۔
ممبر شپ فیس کو سرمایہ کاری اس لئے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ قانونی طور پر ممبر کو اس کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں ہوتا ۔
۲۔ایک معاملہ کو دوسرے معاملے کے ساتھ مشروط کرنا
اس میں خرید و فروخت کے معاملہ کے ساتھ اجارہ (یعنی ایجنٹ بننے کی ملازمت) مشروط ہے ، جس کو حدیث شریف میں ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔
۳۔قمار (جوا ، سٹہ بازی)
کمپنی کی پروڈکٹ خرید کر اس کا ممبر بننے والا شخص اس بنیاد پر پیسے لگا تا ہے کہ وہ مزید لوگوں کو اس کمپنی کا ممبر بنائے گا ، تو اس کو لگائی ہوئی رقم کے ساتھ نفع بھی ہوگا اور اگر وہ ممبر نہ بنا سکا تو یہ رقم بھی ضائع ہو جائے گی ، جو کہ جوا کی شکل ہے اور ممنوع ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی شرعی اور اقتصادی خرابیاں پائی جاتی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ کئی مفاسد کی بنا پر مروجہ کمپنی ( نیٹ ورک ، ملٹی لیول مارکیٹنگ) میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے ، اس سے اجتناب ضروری ہے ۔
حوالہ جات
قال العلامة السرخسی رحمه الله: وإن اشترى ثوبا على أن يخيطه البائع بعشرة فهو فاسد؛ لأنه بيع شرط فيه إجارة؛ فإنه إن كان بعض البدل بمقابلة الخياطة فهي إجارة مشروطة في بيع، وإن لم يكن بمقابلتها شيء من البدل فهي إعانة مشروطة في البيع، وذلك مفسد للعقد. (المبسوط :15/102)
قال العلامة الزیلعی رحمه الله: وهو قمار فلا يجوز لأن القمار من القمر الذي يزاد تارة، وينقص أخرى. (تبیین الحقائق : 6/227)
قال العلامة الزیلعي رحمه الله: (يفسد الإجارة الشروط) لأنها بمنزلة البيع. ألا ترى أنها تقال وتفسخ فتفسدها الشروط التي لا يقتضيها العقد كالبيع.(تبیین الحقائق : 5/121)
محمد یونس بن امین اللہ
دارالافتاءجامعۃالرشید،کراچی
9 جمادى الأخری، 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد یونس بن امين اللہ | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |