85873 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر میں کسی کو جانور بیچ دوں اور میں اس سے 85 ہزارروپے بھی لےلوں،پھر وہ جانور مجھے ہی پالنے کے لیے دے،جب وہ اسےبیچے گا، تو اپنا 85 ہزار پہلے اٹھالے گا اور باقی جو بچ جائےگا، وہ ہمارے درمیان آدھا آدھا ہو گا ۔کیا یہ جائز ہے؟
سوال کی وضاحت:بعض علاقوں میں لوگ کسانوں سے جانور خریدتے ہیں اور ثمن بھی اداکرتے ہیں ۔اس کے بعد وہ جانور اسی کسان کو دیکھ بال کے لیے دیتے ہیں، وہ اپنی طرف سے جانور کو کھلاتاپلاتا ہے۔اس دیکھ بال کرنے والے کو الگ سے اجرت نہیں دی جاتی ، بلکہ آخر میں جانور فروخت کرنے پہ جونفع ہوتاہے، اس کو آپس میں برابر تقسیم کرتے ہیں۔نیز مالک اپنی اصل رقم نفع تقسیم کرنے سے پہلے الگ کرلیتا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں درج معاملےکو جانور بٹائی پر دینا کہتے ہیں جوکہ حنفیہ کے اصول کے مطابق جائز نہیں ،یہ اجارہ فاسد ہے۔ مذکورہ بالا صورت میں سارے کا سارانفع اصل مالک کا ہوگا۔جتنے دن آپ خدمت کریں گے ، اس کی آپ کو اجرت مثل ملے گی ، یعنی اتنی اجرت ہو گی جتنی عام طور سے اس جانور کے پالنے کے لیے مزدوری دی جاتی ہے۔
حوالہ جات
وقال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (و) تفسد (بجهالة المسمى) كله أو بعضه كتسمية ثوب ،أو دابة أو مائة درهم على أن يرمها المستأجر لصيرورة المرمة من الأجرة ،فيصير الأجر مجهولا (و) تفسد (بعدم التسمية) أصلا، أو بتسمية خمر أو خنزير. (فإن فسدت بالأخيرين) بجهالة المسمى وعدم التسمية (وجب أجر المثل) يعني الوسط منه ،ولا ينقص عن المسمى لا بالتمكين، بل (باستيفاء المنفعة) حقيقة كما مر. (بالغا ما بلغ) لعدم ما يرجع إليه ولا ينقص عن المسمى. (الدر المختار: 6/ 48)
وفي الفتاوی الھندیۃ: دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها ،وما يكون من اللبن ،والسمن بينهما، أنصافا فالإجارة فاسدة،، وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ،ويرد كل اللبن إن كان قائما، ...والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه ،بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن ،والمصل فيكون بينهما.( الفتاوى الهندية: 4/ 445)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر. (يفسدها) كجهالة مأجور، أو أجرة ،أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد ،وعلف دابة ومرمة الدار، أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه.( الدر المختار : 6/ 46)
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ تعالی: ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلومة لما روينا، ولأن الجهالة في المعقود عليه، وبدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع. (الهداية:3/230)
شمس اللہ
دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی
12 جمادی الالثانیہ،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | شمس اللہ بن محمد گلاب | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |