03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرکز ایپ (Markaz App)کے ذریعے کاروبار کرنے کا حکم (جدید)
85874خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

مرکز ایپ (Markaz App)کے ذریعے کاروبار کرنا کیسا ہے ؟

مرکز ایپ میں کام اس طرح کیا جاتا ہےکہ ہم ایپ  سے ا ن کی مصنوعات کی تصاویر اور معلومات لے کر کے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس، فیس بک اکاونٹ  وغیرہ پر شیئر کر دیتے ہیں ۔ جب  کوئی بھی گاہک ہمیں اس چیز کاآرڈر دے تو ہم مرکز ایپ پر جا کر  اپنے گاہک کے پتے  پر آرڈر پلیس کردیتے ہیں ۔ ہمیں یہ اختیار ہوتا ہے کہ ہم مرکز ایپ والوں کی قیمت سے کچھ زیادہ  قیمت متعین کر کے پیش کریں۔  وہاں آپ کا پرافٹ کے نام سے ایک آپشن ہوتا ہے جس میں ہم وہ اضافی رقم لکھ دیتے ہیں  جو ہم نے اپنی طرف سے متعین کی ہوتی ہے۔  ڈیلیوری وغیرہ  وہ خود  ہی کرتے ہیں۔پھر آرڈر مکمل ہو جانے کے بعد ایپ والے  وہ منافع  جو ہم نے اضافی بتایا ہوتا ہے ہمیں دے دیتے ہیں اور  ہر آرڈر مکمل ہونے پر 50 روپے اپنی طرف سے بھی  دیتے ہیں اور دن بدن مزید آفرز بھی  لگا رہے ہوتے ہیں ۔

(گاہک اور کمپنی (مرکز ایپ) کے درمیان واسطہ بننے والا شخص چیز اپنے نام سے بیچتا ہے۔گاہک کو ملنے والے پارسل پر مرکز ایپ کا نہیں، اسی  شخص  کا نام بطور بائع ہوتا ہے۔ اگر خریدار کو چیز پسند نہ آئے تو وہ سا ت دن کے اندر واپس کر سکتا ہے۔ واپسی کی صورت میں خریدار کو اس کی رقم مل جاتی ہے ،لیکن درمیان میں واسطہ بننے والے شخص نے جو منافع لیا ہوتا ہے،وہ اس سے واپس نہیں لیا جاتا)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرکز ایپ (Markaz App) کی موجودہ تفصیلات کا جائزہ لیا گیاجس کی روشنی میں اس ایپ  کے ذریعے کاروبار کرنا جائز ہے۔شرعاً متعین کمیشن کے بدلے کسی فرد یا کمپنی کی اشیاء بکوانے میں کوئی حرج نہیں ۔مرکز ایپ والوں کی اشیاء فروخت کرنے والا شخص ایپ والوں کا وکیل بالبیع یا کمیشن ایجنٹ ہوتا ہے۔    جب وہ  ایپ پر کسی چیز کا آرڈر دیتا ہے تو ہر آرڈر پر اپنا کمیشن متعین کر لیتا ہے ۔ کمیشن چونکہ متعین ہوتا ہے اور مفضی إلی النزاع نہیں ہوتا  اس لیے عقد میں کوئی خرابی نہیں ۔ تاہم کمپنیاں اپنے پلان بدلتی رہتی ہیں، لہذا کسی تبدیلی کی صورت میں دوبارہ دارالافتاء سے  پوچھا جائے۔

حوالہ جات

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجوا أن لابأس به، وإن کان في الأصل فاسدا؛ لکثرة التعامل وکثیر من هذا غیر جائز، فجوزوه لحاجة الناس إلیه.

(رد المحتار:6/63)

 قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:  وحاصله أنه يصير وكيلا بألفاظ الوكالة، ويصير رسولا بألفاظ الرسالة وبالأمر، لكن صرح في البدائع أن: افعل كذا وأذنت لك أن تفعل كذا توكيل، ويؤيده ما في الولوالجية: دفع له ألفا وقال: اشتر لي بها، أو بع، أو قال: اشتر بها ،أو بع، ولم يقل لي كان توكيلا.

وقال ایضاً: فالرسول لا بد له من إضافة العقد إلى مرسله، لما مر عن الدرر من أنه معبر وسفير، بخلاف الوكيل فإنه لا يضيف العقد إلى الموكل إلا في مواضع كالنكاح والخلع والهبة والرهن ونحوها.

(رد المحتار :5/ 509)

 سعد امین بن میر محمد اکبر

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

11/جمادی الثانیہ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد امین بن میر محمد اکبر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب