85805 | نماز کا بیان | نماز کے فرائض و واجبات کا بیان |
سوال
سجدہ میں سات اعضاء زمین پر رکھے جاتے ہیں، یہ حدیث کس کتاب میں موجود ہے اور ان سات اعضاء کے زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے؟ کیاقدمین رکھنا بھی واجب ہے جس طرح ناک رکھنا واجب ہے؟ گھٹنوں اور دونوں ہاتھوں کےرکھنےکا کیا حکم ہے ،فقہاء حنفیہ کے ہاں اس کی تفصیلات کیا ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سجدہ میں سات اعضاءکوزمین پررکھنےکا تذکرہ جس حدیث میں ہے وہ روایت بخاری شریف اور حدیث کی دیگرکتب میں موجود ہے۔ان سات اعضاءمیں پیشانی ،ناک،دونوں ہاتھ،دونوں گھٹنے،اور دونوں پاؤں شامل ہیں،ان سب کا زمین پر رکھنا واجب ہے۔ اگر دونوں پاؤں سجدہ کے دوران بالکل بھی زمین پر نہیں رہتے تو سجدہ ادا نہیں ہوگا اور نماز بھی نہیں ہوگی، اگر سجدہ کے دوران پاؤں کم ازکم ایک تسبیح کے بقدرزمین پر رہتے ہیں تو نمازہو جائے گی، لیکن بلا عذر اس طرح کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح سجدہ کی حالت میں پیشانی اور ناک دونوں کوزمین پر ٹکانا لازم ہے،اگر کوئی عذر ہوتو پیشانی اور ناک میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنابھی جائز ہے۔ عذر کے بغیر صرف ناک پر سجدہ کرنے سے نماز ادانہ ہوگی، اور بلاعذر صرف پیشانی پر سجدہ کرنے اور ناک کو زمین سے الگ رکھنے کی صورت میں نماز تو ادا ہوجائے گی، لیکن ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
حوالہ جات
أخرج الإمام البخاري رحمه الله فی"صحیحه" (1/ 280رقم الحدیث: 776)من حدیث عن ابن عباس:أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يسجد على سبعة أعضاء، ولا يكف شعرا ولا ثوبا: الجبهة، واليدين، والركبتين، والرجلين.
قال ابن عابدین: (قوله ومنها السجود) هو لغة: الخضوع قاموس، وفسره في المغرب بوضع الجبهة في الأرض. وفي البحر: حقيقة السجود وضع بعض الوجه على الأرض مما لا سخرية فيه، فدخل الأنف وخرج الخد والذقن، وأما إذا رفع قدميه في السجود فإنه مع رفع القدمين بالتلاعب أشبه منه بالتعظيم والإجلال اهـ وتمامه فيما علقناه عليه (قوله بجبهته) أي حيث لا عذر بها. وأما جواز الاقتصار على الأنف فشرطه العذر على الراجح كما سيأتي. قال ح: ثم إن اقتصر على الجبهة فوضع جزءا منها وإن قل فرض ووضع أكثرها واجب (قوله وقدميه) يجب إسقاطه لأن وضع إصبع واحدة منهما يكفي كما ذكره بعد ح. وأفاد أنه لو لم يضع شيئا من القدمين لم يصح السجود وهو مقتضى ما قدمناه آنفا عن البحر. (حاشية ابن عابدين: 1/ 447)
قال فی الھندیۃ:وكمال السنة في السجود وضع الجبهة والأنف جميعاً ولو وضع أحدهما فقط إن كان من عذر لا يكره، وإن كان من غير عذر فإن وضع جبهته دون أنفه جاز إجماعاً ويكره، إن كان بالعكس فكذلك عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا : لا يجوز، وعليه الفتوى''۔(فتاوی ھندیہ: 2/26)
قال الكاساني رحمه الله :«(ومنها) - الطمأنينة والقرار في الركوع والسجود، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد، وقال أبو يوسف: الطمأنينة مقدار تسبيحة واحدة فرض) .بدائع الصنائع: 1/ 162)
محمد اسماعیل بن محمد اقبال
دارالافتاء جا معۃ الرشید کراچی
9/جمادی الثانیہ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن محمد اقبال | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |