03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بدکردارشخص سے خلاصی کاطریقہ
85849طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میری بہن عائشہ کی شادی اپنے چچا زاد بھائی یاسر علی سے پانچ چھ سال پہلے ہوئی،شادی کےکچھ دونوں کےبعدان کےدرمیان اختلافات اور ناچاقی شروع ہوگئی،جس کی بنا پر عائشہ ایک دو سال تک اپنے میکہ میں رہی،لڑکی والوں نے بہت جرگے کروائے،لڑکے اور ان کے گھر والوں کو راضی کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ کسی بھی صورت لڑکی کو نہ گھر واپس لے جانے پر راضی ہوتے اور نہ وہ طلاق دینے پر رضامند تھے، بلکہ اس لڑکے کا کہنا تھا کہ یہ بوڑھی ہوجائےگی، اس کے سر کے بال سفید ہو جائیں گے، لیکن میں اس کو نہ بیوی بناکر گھر میں بساؤں گا، نہ  اور جگہ شادی کرنے دوں گا،جرگے والوں کو یہ کہہ کر واپس کرتا کہ اگر ان میں طاقت اور دم ہے تو عدالت جائیں، مجھ پر کیس کریں  اور اپنی بیٹی کو ہم سے چھڑوائیں۔

عائشہ کے گھر والوں نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا کیس دائر کیا،لڑکی کے والد یا بھائی  اپنے وکیل کے ساتھ حاضر ہوتے تھے،جبکہ دوسری طرف سے لڑکے کا والد اور ان کا وکیل حاضر ہوتا تھا، ایک سال تک کیس چلتا رہا، جبکہ اس کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا ۔

لڑکی کے والدنے آخر کار تنگ آکر وکیل کی مشاورت سے  عدالتی خلع کے لئے درخواست دائر کردی اور دو تین بار جج کے سامنے حاضری کے بعد جج نے لڑکے کے وکیل اور والد کی موجودگی میں میاں بیوی کے درمیان خلع کروادی۔ ان کو مذکورہ ڈگری فارم جاری کروادیا ہےجو استفتاء کے ساتھ لف کردیا ہے، تقریبا پانچ مہینے اس واقعہ کو بھی گزر گئے۔

اس ناچاقی کے تقریبا پانچ سال گزر گئے ہیں، لڑکی میکہ کے گھر بیٹھی ہوئی ہے، جبکہ لڑکے کی اب چند دن بعد دوسری شادی ہو رہی ہے۔

اب پوچھنا یہ ہےکہ کیا اس عدالتی فیصلے سے خلع (طلاق) واقع ہو گئی ہے یا نہیں ؟

عدالتی خلع / ڈگری کا شریعت میں کب اعتبار ہے اور کب نہیں ؟ اگر لڑکے کے وکیل یا والد  کی موجودگی میں جج فیصلہ کرے اور ان کے دستخط بھی موجود ہوں تو کیا اس صورت میں عدالتی خلع اور ڈگری کا اعتبار ہوگا یا نہیں ؟

اگر مذکورہ صورتحال میں عائشہ لڑکی کو طلاق ہوئی ہے اور وہ اس ظالم متعنت شوہر کے نکاح سے نکل گئی ہے تو اللہ کاشکرہے، لیکن اگر وہ بدستور اس کے نکاح میں ہے تو اس کے چھڑوانے کے لیے کونسا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟ایسی کونسی قانونی کاروائی کی جائے جس سے لڑکی اس کے چنگل سے آزاد ہو اور شرعاً وہ معتبر بھی ہو؟ جرگے ،علماء کی نصیحتیں  خاندان کی ان کے ساتھ نشستیں، عدالت کے چکر لگوانے سے تو لڑکے اور اس کے گھر والوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا اور وہ اس پر بضد ہیں کہ تا حیات یہ میکے بیٹھی رہےگی، کسی سے شادی بھی نہیں  کرنے دوں گا اورنہ خود اس کو بیوی بنا کر رکھوں گا،ہماری راہنمائی فرمائیں۔

تنقیح:شوہرکے وکیل کے خلع نامہ پردستخط نہیں ہیں،بقول سائل کےایک دفعہ لڑکے کے وکیل سے بات کی تواس نے کہاکہ لڑکااوراس کے والدمعاملہ کوحل کرنانہیں چاہتے،معاملہ کولٹکاناچاہتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں شوہرکے خلاف مذکورہ الزامات اگرعدالت میں دوگواہوں یامستندڈاکومینٹس کے ذریعہ سے ثابت کئے جاچکے تھے تویہ خلع فسخ نکاح شمارہوگا،آپ کی بہن عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے اوراگرالزمات ثابت نہیں کئے گئے تھے توپھراس عدالتی فیصلہ کاکوئی اعتبارنہیں،آپ کی بہن بدستوراس کے نکاح میں ہے،جس کاحکم یہ ہے کہ اگرواقعی شوہرکاسلوک اوررویہ آپ کی بہن ساتھ ایساہی ہےجیسے سوال میں ذکرکیاگیاہے توپہلی صورت تویہ ہےکہ شوہرکواصلاح احوال کی مہلت دی جائے اگروہ مانگے،اگروہ اپنارویہ ٹھیک کرنے پرآمادہ نہ ہو توپھرآپ کی بہن طلاق یاخلع لینے کی کوشش کریں،اگرشوہرطلاق یاخلع پرآمادہ نہ ہوتوپھرآپ کی بہن مجازعدالت میں دودیانت دارمردیا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے ثابت کریں  (یہ گواہ عورت کے اصول یعنی آباؤ اجداد اور فروع یعنی اولاد وغیرہ میں سے نہ ہوں) اوربہتریہ ہے کہ عدالت کے طریقہ کارکوپوراکرتے ہوئے اپنابیان حلفیہ (Affidavit)بھی عدالت میں جمع کرائیں،اگردوگواہ نہ ہوں،ایک گواہ اوربیان حلفیہ کے ذریعہ سے اپنے دعوی کوثابت کریں(مالکیہ کے نزدیک دد گواہوں کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ  ایک گواہ اور مدعیہ کی قسم یعنی  حلفیہ بیان کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ  بھی درست ہوتا ہے) اوراگرآپ کی بہن اپنے دعوی(شوہرکانان ونفقہ نہ دینا،اپنےگھرنہ لے جانا،صلح پرآمادہ نہ ہوناوغیرہ) کومذکورہ طریقہ کارکے مطابق ثابت کردیں اورعدالت اس بنیاد پرفسخ نکاح کافیصلہ کردے تو یہ فیصلہ شرعی طورپرمعتبرہوگااورعدالتی فیصلہ کےبعد آپ کااس مرد سے نکاح ختم ہوجائےگا،عدت گزارنے کے بعد آپ کی بہن کسی اورمردسے نکاح  کرسکتی ہیں،اگر موقع کے گواہ موجود نہ ہوں یا گواہ تو موجود ہوں، مگر وہ عدالت میں گواہی دینے کے لیے تیار نہ ہوں تو ایسی صورت میں شہرت حقیقيہ (حقیقیہ کا مطلب یہ ہے کہ کثیر تعداد میں لوگوں کے درمیان وہ وجہ مشہور ہو) یا شہرتِ حکمیہ (حکمیہ کا مطلب یہ ہے کہ گواہی دینے والے شخص نے کم از کم دو آدمیوں سے سنا ہو کہ فلاں شخص واقعتاً اپنی بیوی کے ساتھ ظلم وزیادتی وغیرہ کرتا ہے) کی بنیاد پر بھی گواہی دی جا سکتی ہے۔

اگرعدالت سےرجوع مشکل ہوتو پھراس کا حل یہ ہے کہ  اپنےعلاقے کے چار پانچ  نیک اور صالح آدمیوں کو فیصلہ کے لیے نامزد کرلیا جائے، جن میں کم از کم ایک یا دو آدمی عالم ہوں، جو نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل سے واقف ہوں،  آپ کی بہن ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کریں اور فیصلے کی مجلس میں ذکرکردہ طریقہ کار کے ذریعہ ثابت کردیں کہ شوہرمیری ضروریات(نان ونفقہ،رہائش وغیرہ ) کاخیال نہیں رکھتااورغیراخلاقی طریقہ سے پیش آتاہے، يہ حضرات دعوی سننے کے بعد شوہر کو مجلسِ قضاء میں حاضرہونے کانوٹس بھیجیں، اگر وہ حاضر نہ ہو تو یہ چار یا پانچ رکنی جماعت  دوگواہوں یاایک گواہ اورقسم کی بنیاد پر اتفاقِ رائے سے  طلاق واقع کردے ، لیکن اس فیصلہ کے لیے جماعت کے تمام اراکین کا اتفاق ضروری ہے، کثرتِ رائے سے کیا گیا فیصلہ نافذ نہیں ہو گا ،اس کے بعد اِس فیصلہ کی تاریخ سے آپ  کی عدت شروع ہو  جائے گی، عدت مکمل ہونے پر آپ کی بہن شرعاً دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہیں۔

نوٹ: ہماری عدالتوں میں  عام طور پر خلع کے فیصلوں میں گواہی طلب نہیں  کی جاتی، بلکہ محض عورت کے مطالبہ پر ڈگری جاری کر دی جاتی ہے، ایسی صورتِ حال میں درخواست دہندہ کو چاہیے کہ دعوی پیش کرتے وقت اسٹامپ پیپر پر دو گواہوں کا تحریری بیان بھی پیش کر دے یا جج کے سامنے حاضری کے وقت عدالت کی طرف سے گواہی کے مطالبہ کا انتظار کیے بغیر خود ہی یہ کہہ دےکہ میرے پاس اس دعوی پر یہ گواہ موجود ہیں، ان کا بیان بھی سنا یا قلمبند کرلیا جائے، پھر جج اگر کسی ایک گواہ سے بھی دعوی کی تصدیق کروا لے تو ایک گواہ اور مدعیہ کی قسم یعنی حلفیہ بیان کے مطابق فیصلہ درست ہو جائے گا، کیونکہ مسلمان عدالت کا فیصلہ مذاہبِ اربعہ میں سے کسی بھی مذہب کے مطابق ہو تو وہ شرعاً نافذ ہوتا ہے۔

حوالہ جات

    وفی حاشية الدسوقي على الشرح الكبير(ج 8 / ص 460):

"( ولها ) أي للزوجة ( التطليق ) على الزوج ( بالضرر ) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها ، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها لا بمنعها من حمام وفرجة وتأديبها على ترك صلاة أو تسر أو تزوج عليها ومتى شهدت بينة بأصل الضرر فلها اختيار الفراق ( ولو لم تشهد البينة بتكرره ) أي الضرر أي ولها اختيار البقاء معه ويزجره الحاكم ولو سفيهة أو صغيرة ولا كلام لوليها في ذلك فقوله آنفا وبتعديه زجره الحاكم فيما إذا اختارت البقاء معه ويجري هنا هل يطلق الحاكم أو يأمرها به ثم يحكم قولان ( وعليهما ) أي الحكمين وجوبا ( الإصلاح ) بين الزوجين بكل وجه أمكن ." 

       وفی شرح مختصر خليل للخرشي (4/ 198):

"وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم أو لكونه غير عدل".

    وفی الحيلة  الناجزة للحليلة العاجزة:(ص:190):

أن المتعنّت إذا رجع يحتمل إلحاقه بالمعسر وهو الأقرب فله إجزاء فی العدة، لا بعدها ويحتمل أن الطلاق عليه بائن وعليه فلا رجعة له حيث لا نص صريح فی المسئلة كما تقدم ۔

وفی الكافي في فقه أهل المدينة (2/ 909):

باب اليمين مع الشاهد: قال مالك وأصحابه: يقضي باليمين مع الشاهد في كل البلاد ويحمل الناس عليه، ولا يجوز خلاف ما قالوه من ذلك، لتواتر الآثار به عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم وعن السلف والخلف من أهل المدينة والعمل المستفيض عندهم بذلك وقد ذكرنا الآثار في كتاب التمهيد ،ولم يلجأ شيوخنا فيه إلى أصل من أصول أهل المدينة وسلکوا فيه سبيل أهل العراق واستتروا فيه بالليث بن سعد وهم يخالفونه كثيرا إلى رأيهم بغير بينة ولا يرونه حجة والله المستعان.

مسائل في اليمين مع الشاهد كل ما جازت فيه شهادة المرأتين مع الرجال جازت فيه اليمين مع الشاهد الواحد العدل وذلك فيما عدى الأبدان من سائر الأموال.

وفی بداية المجتهد ونهاية المقتصد (4/ 252):

وأما ثبوت الحق على المدعى عليه بنكوله فإن الفقهاء أيضا اختلفوا في ذلك، فقال مالك، والشافعي وفقهاء أهل الحجاز وطائفة من العراقيين: إذا نكل المدعى عليه لم يجب للمدعي شيء بنفس النكول، إلا أن يحلف المدعي أو يكون له شاهد واحد........... ومن حجة مالك أن الحقوق عنده إنما تثبت بشيئين: إما بيمين وشاهد، وإما بنكول وشاهد، وإما بنكول ويمين.

   وفی التوضيح في شرح مختصر ابن الحاجب (7/ 562):

وكل جرح فيه قصاص فإنه لا يقتص فيه بشاهد ويمين، وكل جرح لا قصاص فيه مما هو متلف كالجائفة والمأمومة وشبههمافالشاهد واليمين فيهما جائزة؛ لأن العمد والخطأ فيها إنما هو أموال. وفي الديات: من أقام شاهدا عدلا على جرح عمدا أو خطأ فليحلف معه يمينا واحدة، ويقتص في العمد ويأخذ العقل في الخطأ، قيل لابن القاسم: لم قال مالك ذلك في جراح العمد وليست بمال؟ فقال: كلمت مالكا في ذلك فقال: إنه لشيء استحسناه وما سمعنا فيه شيئا، وقد تبين لك بهذا السياق رجحان ما في الشهادات، وزاد في البيان ثالثا بأنه يقضى بالشاهد مع اليمين فيما صغر من الجراح لا فيما عظم منها كقطع اليد وشبهه، وهو قول ابن الماجشون وروايته، واختاره سحنون.

   وفی الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (8/ 6080):

اتفق الفقهاء على أن المدعي إذا قدم شاهدين على دعواه وقبلت شهادتهما، حكم له بما ادعى. وعلى أنه إذا عجز عن البينة وطلب تحليف المدعى عليه، وحلف، رفضت دعواه. واختلفوا بعدئذ على رأيين فيما إذا نكل المدعى عليه عن اليمين، هل يقضى للمدعي بنكول صاحبه عن اليمين، أم ترد اليمين إلى المدعي، فيقضى له بيمينه وشاهد واحد يقدمه للشهادة؟ قال الحنفية والحنابلة: يقضى بالنكول في الأموال، وقال الجمهور: لا يقضى بالنكول، وترد اليمين على المدعی۔

 وفی معين القضاة والمفتين للشيخ شمس الحق الأفغاني (39):

مادة:196: الأصل في الشهادة أن تكون مبنية على معاينة الشاهد بنفسه إلا أن بعض الأشيا مما يتعذر على كثير من الناس مشاهدتها فيها بالتسامع لئلا تضيع حقوق الناس، لكن الشهادة بالتسامع إنما تقبل إذا اشتهرت لدى الشاهدبأحد طريقي الشهرة إما الشهرةحقيقية كالمتواتر أو حكمية وهي أن تكون بشهادة عدلين أوعدل وعدلتين والأمور التي فيها الشهادةبالتسامع عشرة

وفی المجموع شرح المهذب (20/ 257):

ما يثبت بالشاهد والمرأتين يثبت بالشاهد واليمين، لما روى عمرو بن دينار عن أبن عباس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بيمين وشاهد، قال عمرو: ذلك في الاموال واختلف أصحابنا في الوقف فقال أبو إسحاق وعامة أصحابنا :يبنى على القولين فإن قلنا: ان الملك للموقوف عليه قضى فيه بالشاهد واليمين لانه نقل ملك فقضى فيه بالشاهد واليمين كالبيع، وان قلنا :انه ينتقل إلى الله عز وجل لم يقض فيه بالشاهد واليمين، لانه ازالة ملك إلى غير الآدمى فلم يقض فيه بالشاهد واليمين كالعتق.

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

   ۱۲/جمادی الثانی ۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب