03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایمازون،ای بےاورشاپی فائے پر کی جانے والی خریدوفروخت کی اقسام اور ان کا حکم
86006خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

امریکہ میں مختلف کمپنیز ہیں،جن سے ہم اپنا اسٹاک اٹھاتے ہیں،جو مال ہوتا ہے وہاں سے ان سے جو ڈسکاؤنٹ چل رہا ہوتا ہے اس پہ ہم ان سے خریدتے ہیں،خریدنے کے بعد  ہم اپنے ویئر ہاؤس میں منگوا لیتے ہیں،جب ہمارے ویئر ہاؤس میں آجاتا ہے تو پھر ہم اس کی لسٹنگ کرتے ہیں،ایمازون کے اوپر اور شاپی فائی کے اوپر اور ای بے کے اوپر،ان تینوں پلیٹ فارمز کے اوپر ہم اپنی جو ہمارے پاس پروڈکٹس پڑی ہوتی ہیں ان کی ہم لسٹنگ کر دیتے ہیں کہ اتنی اتنی کوانٹٹی ہمارے پاس پڑی ہوئی ہے،اس کے اوپر جو مارکیٹ میں ریٹ چل رہا ہوتا ہے،جیسےایمازون کے اوپر اس پروڈکٹ کا کوئی ریٹ چل رہا ہے،مثال کے طور پر ایک چیز کا 10 ڈالر ریٹ چل رہا ہےاس کو 10 یا 9 ڈالرز پر ہم لسٹ کرتے ہیں،لسٹ کرنے کے بعد اس کی سیل آتی ہے،وہ پھر ہم ایمازون کے ویئر ہاؤس بھجوا دیتے ہیں اور ایمازون وہاں سے کسٹمر کو خود ہی بھجواتا ہے،پھر جب کسٹمر کو وہ چیز ڈلیور ہو جاتی ہے،وہ پیسے دیتا ہے ایمازون کو،ایمازون اپنی فیس کاٹ کے جو باقی کے پیسے بنتے ہیں،وہ ہمارے اکاؤنٹ میں ہمیں ٹرانسفر کر دیتا ہے،اسی طرح سے شاپیفائی پہ بھی اسی طرح سے ہوتا ہے،ای بے پہ بھی اسی طرح سے ہوتا ہے،اچھا اس میں میرا یہ سوال ہے کہ کیا یہ کام جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہماری معلومات کے مطابق اور ایمازون پرکاروبار کرنے والے تاجروں کی طرف سے دی گئی معلومات کی روشنی میں، ایمازون پر کی جانے والی  خریدوفروخت  کی اقسام اور ان کا حکم ملاحظہ فرمائیں:

ہول سیل (Whole sale)

ایمازون کے ذریعہ ہول سیل کے کاروبارمیں تاجر عام طور پر چیز خریدنے اوراس پر قبضہ کرنے کے بعد آگے فروخت کرتا ہے، اس میں اپنی تیار کردہ چیز یا  اپنابرانڈ ہونا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ اس میں تاجر بطور رجسٹرڈ کمپنی کسی ہول سیلر، ڈسٹری بیوٹر یا برانڈ سے مال خریدتا ہے۔ البتہ اپنی کمپنی رجسٹرڈ کروائے بغیر ہول سیل ریٹ پر مال نہیں لیا جا سکتا، اسی لیے اس میں جس کمپنی سے مال خریدا گیا ہو تاجر کے پاس اس کا اجازت نامہ یعنی برانڈ آتھورائزيشن ليٹرہونا ضروری ہے۔پھر مال بیچنے کے بعد خواہ ایف بی اے (Fulfilled by Amazon) کے ذریعہ کسٹمر تک مال پہنچایا جائے یا ایف بی ایم(Fulfilled by Merchant) کے طریقہ سے، بہر صورت درست ہے، ان میں فرق یہ ہے کہ ایف بی اے میں فروخت کنندہ چیز خرید کرایمازون کے گودام میں رکھواتا  ہے اور پھر ایمازون کو خریدار تک چیز پہنچانے کا وکیل بناتا ہے۔ جبکہ ایف بی ایم میں خریدار تک خود وہ چیز پہنچاتا ہے، لیکن بہر صورت ہول سیل کے طریقہ میں مال پہلے خرید کر پھر آگے بیچا جاتا ہے، اگر خریدنے سے پہلے بیچا جائے تو یہ صورت ڈراپ شپنگ کی ہے، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے، ہول سیل کا کاروبار درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

ا) ہول سیل کے لیے کمپنی جس ملک میں رجسٹرڈ ہو، اس ملک اورایمازون کے قانون کے مطابق واجب شدہ ٹیکس کی ادائیگی کا خیال رکھا جائے۔

۲) جس کمپنی کی پروڈکٹ سیل کرنا ہو، اس کی طرف سے اجازت نامہ یعنی برانڈ آتھورائزيشن ليٹر(Brand Authorization Letter) حاصل ہو، کیونکہ مذکورہ کمپنی کی طرف سے اجازت نامہ کا حصول ایمازون پر کاروبار کی شرائط میں سے ہے، لہذا ایمازن کے مطالبے پر جعلی لیٹر بنوا کر دکھانا جائز نہیں، اس میں دھوکہ دہی اور جعل سازی کا عنصر پایا جاتا ہے۔

پرائیویٹ لیبل(Private Label)

پرائیویٹ لیبل میں تاجر کبھی اپنا برانڈ تیار کر کےایمازون پر فروخت کرتا ہے اور اکثر مینو فیکچرر(مال بنانے والا)سے بنوا تاہے اور اس پر اپنا لیبل لگاتا ہے، تاجروں کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق پرائیویٹ لیبل میں چیز خود تیارکرنا یا کسی سے تیارکروا کر اس کے اوپر اپنا لیبل لگوانا ضروری ہے، پرائیویٹ لیبل میں گاہکوں یعنی کسٹمرز کے درمیان یہ بات معروف ہوتی ہے کہ یہ تاجر اپنا برانڈ تیار کرواتا ہے اور پھر گاہک اس کا نام لے کر ایمازون کے ذریعہ مال خریدتے ہیں، پھر اس میں بھی ایف بی اے (Fulfilled by Amazon)  کا طریقہ ٴکار اپنایا جائے یا ایف بی ایم(Fulfilled by Merchant)  کا بہر صورت درست ہے۔

 نیز پرائیویٹ لیبل میں چیز از خود تیار کرنےیا مینوفیکچررسے تیارکروانے سے  پہلے بھی خریداروں سے آرڈر لینے اور ان سے حتمی طور پر معاملہ کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ جب تاجر خود اپنا برانڈ تیار کرے یا کسی اور سے تیار کروا کے بیچے توبہرصورت  آرڈر دینے والے کی شرعی حیثیت مستصنع  (آرڈر پر چیز تیار کروانے والا) اور تاجر کی صانع (آرڈر پر چیزبنانے والا) کی ہوتی ہے اور استصناع کے معاملے میں چیز تیار کرنے سے پہلے آرڈر لینا درست ہے، اس میں چیز کا ملکیت میں ہونا اور قبضہ میں ہونا ضروری نہیں، البتہ اس میں تاجر کو چاہیے کہ ایمازون پرموجود اپنے اسٹور پر یہ وضاحت لکھ دے کہ یہاں آرڈر پر چیز تیار کرکے دی جاتی ہے،تاکہ کسٹمرز پر یہ بات واضح ہو کہ یہ تاجر خود پروڈکٹ تیار کرکے بیچتا ہے، اس کے علاوہ  ایمازون پر پرائیوٹ لیبل كا کاروبار کرنے کے لیے درج ذیل شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے:

۱)بیچی جانے والی مصنوعات پر موجود پیکجنگ(Packaging) پر آپ کی پہلے سے رجسٹرڈ کمپنی یا  آپ کے رجسٹرڈ (یا جس کو آپ آگے چل کر رجسٹر کروائیں گے) ٹریڈ مارک کا نام ہو، ایسی کمپنی کا لیبل نہ لگایا جائے، جس نے آپ کو مال بیچنے کی اجازت نہیں دی۔

۲)لیبل لگانے میں دھوکہ دہی اور جعل سازی کا عنصر نہ پایا جائے، مثلاً ایسی کمپنی کا لیبل نہ لگایا جائے کہ آپ کی پروڈکٹ اس کے معیار کے مطابق نہ ہو، کیونکہ لوگ اس کمپنی کا لیبل دیکھ کر چیز خریدیں گے، جبکہ حقیقت میں اس کمپنی کے معیار کے مطابق چیز نہ ہو گی تو ان کو نقصان ہو گا، جو کہ جائز نہیں۔

 ۳)ایمازون کے ساتھ معاہدہ نامہ کی تمام جائز شرائط کا خیال رکھا جائے، جیسے اپنی پروڈکٹ مفت لوگوں کو دے کر ان سےمثبت اور عمدہ ریویو (Review) لینا وغیرہ تاکہ ایمازون آپ کی پروڈکٹ کو پہلے صفحہ پر دکھائے، اس سے پروڈکٹ کی سیل میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے، جبکہ یہ ایمازون کے معاہدے کے صریح خلاف ہے۔

۴)جھوٹ اور دھوکہ دہی  سے مکمل اجتناب کیا جائے اور مصنوعات کی صرف اُن خصوصیات کو اجاگر کیا جائے جو کہ اُس میں موجود ہوں، غلط بیانی پر مبنی اوصاف نہ بیان کیے جائیں، جیسے پالش شدہ فرنیچر کو نیا فرنیچر کہہ کر  اور ناخالص شہد وغیرہ کو خالص کہہ کر نہ فروخت کیا جائے۔

۵)غلط بیانی پر مبنی منفی تجزیہ آنے کی صورت میں  بھی مثبت تجزیہ کے لیےمحض جائز طریقے استعمال کیے جائیں۔نیزاگرحقیقت پر مبنی منفی تجزیے موصول ہوں تو مصنوعات میں موجود خرابیوں کو دور کیا جائے۔

۶)اِس کاروبار کو کرنے کے لیے کمپنی رجسٹریشن کے دوران کسی بھی قسم کے جھوٹ سے مکمل اجتناب کیا جائے، اور جس ملک میں کمپنی کھولی جائے اُس ملک کے قوانین کا احترام کیا جائے۔

۷)شرعی طور پر ناجائز مصنوعات، جیسے شراب، سور وغیرہ جیسی اشیاءیا ان کے اجزاء والی مصنوعات کی فروخت سے اجتناب کیا جائے۔

ڈراپ شپنگ (Drop Shipping)

ڈراپ شپنگ میں تاجر غیر مملوک اور غیر مقبوض مال کو فروخت کرتا ہے، اس کا طریقہٴ کار یہ ہوتا ہے کہ ایمازون کا تاجر پہلے کسٹمر کو چیز بیچتا ہے اور پھر ہول سیلر کو فون پرکہتا ہے کہ آپ اتنا مال فلاں جگہ روانہ کر دیں، ہول سیلر اتنا مال خریدار کی طرف روانہ کر دیتا ہے، اس کے بعد راستے کا سارا ضمان ایمازون کے تاجر کا ہوتا ہے، مطلب یہ کہ اس میں چیز خریدنے سے پہلے آگے بیچی جاتی ہے اور کبھی خریدنے کے بعد قبضہ کیے بغیر خریدار کے سپرد کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس میں غیر مملوک اور غیر مقبوض کی خریددفروخت ہوتی ہے، اس لیے ڈراپ شپنگ (Drop Shipping) کی مروجہ صورت جائز نہیں، البتہ اس کی جائز اور متبادل تین صورتیں ہیں:

ڈراپ شپنگ (Drop Shipping) کی جائز صورتیں

پہلی صورت: وعدۂ بیع  کیا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ فروخت کنندہ کسٹمر کو صراحتاً بتا دے کہ یہ چیز میرے پاس موجود نہیں ہے، میں کسی سے خرید کر آپ کو فروخت کروں گا۔اس کے بعد فروخت کنندہ چیز خرید کر پہلے خود اس پر قبضہ کرے یا  کسی شخص جيسے مال پہنچانے والی گاڑی كے ڈرائيور کو مال پر قبضہ کرنے کا وکیل بنا دے، قبضہ کرنے کے بعد وہ مال خریدار تک پہنچا دیا جائے، خریدارکے پاس مال پہنچنے کے بعد تعاطیاً (فروخت کنندہ کا ثمن پر اور خریدار کا مبیع پر قبضہ کرنا) خریدوفروخت کا معاملہ مکمل ہو جائے گا۔

دوسری صورت:ڈراپ شپنگ (Drop Shipping) کے جواز کی دوسری  صورت یہ ہے کہ درمیان والا شخص (جس کے پاس چیز کی خریداری کا آرڈر آیا ہے)خریدار اور فروخت کنندہ  کے درمیان کمیشن ایجنٹ بن جائے، مثلاً: اگر  زید کے پاس آرڈر آتا ہے تو  اس کو چاہیے کہ کمپنی (جس سے زید مال خرید کر کسٹمر کو فروخت کرنا چاہتاہے)سے یہ طے کرے کہ میں آپ کے پاس گاہک لاؤں گا، وہ جتنے کی خریداری کرے گا ،اس کا اتنے فیصد  میری اجرت ہو گی یا  یوں بھی طے کر سکتا ہے کہ ایک کاٹن کی  فروختگی  پر اتنے روپے لوں گا وغیرہ۔نیز یہ بھی طے ہوکہ ہر قسم کا رسک فروخت کنندہ کا ہوگا،سوائے اس کے کہ جو واضح طور پر وکیل کی غفلت یا اصول کی خلاف ورزی سے سامنے آئے۔

تیسری صورت:ایمازون کے تاجر کا جس ہول سیلر سے رابطہ ہو، اس کے گودام یا اسٹور کا ایک مخصوص حصہ کرایہ پر لے لیا جائے اور فروخت کیا جانے والا مال  خرید کراس میں رکھا جائے، اس کے بعد آرڈر موصول ہونے پر تاجر ہول سیلر سے کہے کہ اتنا مال میرے گودام سے اٹھا کر فلان ایڈریس پر روانہ کر دیا جائے تو یہ معاملہ درست ہو جائے گا۔

ایفلیٹ مارکیٹنگ(Affiliate Marketing) کا طریقہٴ کار اور حکم

ایفلیٹ مارکیٹنگ کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ ایمازون پر مختلف کمپنیوں کی پروڈکٹس فروخت ہوتی ہیں اور ہر پروڈکٹ کا ایک لنک ہوتا ہے،اگر کوئی شخص اس لنک کو کاپی کرکے دوسری جگہ مثلا اپنی ویب سائٹ، فیس بک یا یوٹیوب چینل پر بھیجے اور پھر کوئی شخص اس لنک کو کھول کر ایمازون سے وہ پروڈکٹ خریدلے تو لنک بھیجنے والے کو اس کا کمیشن دیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے بھیجے گئے لنک کے ذریعہ خریدوفروخت ہوئی ہے، اس کو ایفلیٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں،اس طرح مارکیٹنگ کرکے کمیشن حاصل کرنا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

۱) شرعی اعتبار سے جائز پروڈکٹ کا لنک بھیجا جائے، تاکہ شرعاً ناجائز اشیاء کی خریدوفروخت کا ذریعہ بننا  لازم نہ آئے۔

۲)پروڈکٹ کی خریدوفروخت میں غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام نہ لیا جائے، مثلا: ناخالص اشیاء کو خالص یا پرانی چیز کو نئی کہہ کر فروخت نہ کیا جائے۔

۳)کمیشن متعین رقم یا کم از کم فیصد کے اعتبار سے طے ہو، تاکہ معاملہ میں کسی قسم کا خفاء اور ابہام نہ ہو۔

حوالہ جات

القرآن الكريم[الإسراء: 34]

{ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (34) }

المعجم الأوسط (2/ 154، رقم الحديث: 1554)

حدثنا أحمد قال: نا عبد القدوس بن محمد الحبحابي قال: نا عمرو بن عاصم الكلابي قال: نا همام بن يحيى، عن عاصم الأحول، وابن جريج، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن سلف وبيع، وعن شرطين في بيع، وعن بيع ما لم يقبض، وربح ما لم يضمن»

شرح مجلة الاحکام العدلیة لمحمد خالد الأتاسي(400/2)                          

الاستصناع نوع من أنواع البيوع، وقد اختلفت عباراتهم عن هذاالنوع قال بعضهم هو عقد علي مبيع في الذمة وقال بعضهم  هو عقد  علي مبيع في الذمة شرط فيه العمل۔ وجه القول الأول أن الصانع لو أحضرعينا كان عملها قبل القبض ورضي به المستصنع لجاز، ولو كان شرط العمل من نفس العقد لماجاز.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 3) دار الكتب العلمية

[فصل في حكم الاستصناع] وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم.

مجلة الأحكام العدلية (ص: 76) قديمي كتب خانه كراتشي

 (المادة 389) : كل شيء تعومل استصناعه يصح فيه الاستصناع على الإطلاق وأما ما لم يتعامل باستصناعه إذا بين فيه المدة صار سلما وتعتبر فيه حينئذ شروط السلم وإذا لم يبين فيه المدة كان من قبيل الاستصناع أيضا.

شرح مجلة الأحكام العدلية لمحمد خالد الأتاسي (404/2) مكتبة رشيدية

"صار سلما وتعتبر فيه حينئذ شروط السلم"  لتعذر جعله استصناع لعدم التعامل قال: "وإذا لم يبين فيه المدة كان من قبيل الاستصناع أيضا." والحاصل أن ما تعورف استصناعه ولم يبين له مدة أصلا أو بين دون الشهر فهو استصناع بالاتفاق وإن بين له مدة شهر أو أكثر فهو استصناع عندهما، سلم عنده وما لم يتعارف استصناعه ، إن بين فيه مدة السلم أو أكثر ، فهو سلم بالاتفاق، وإن لم يبين فيه مدة فهو استصناع فاسد  منهي عنه.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 224) دار الكتب العلمية

ولما في البدائع. وأما صفته: فهي أنه عقد غير لازم قبل العمل من الجانبين بلا خلاف حتى كان لكل واحد منهما خيار الامتناع من العمل كالبيع بالخيار للمتبايعين ۔۔۔۔۔۔۔۔وأما بعد الفراغ من العمل قبل أن يراه المستصنع فكذلك حتى كان للصانع أن يبيعه ممن شاء(.تبویب بتغییر:75855)

  محمد حمزہ سلیمان

     دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

        ۱۳.جمادی الآخرۃ۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب