03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
معاف کرنے میں مرحوم کی نیت کااعتبار نہیں
85872جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے علاقے میں جنازے سے قبل اعلان کیا جاتا ہے ورثہ کی جانب سے کہ مرنے والے سے اگر کسی قسم کی کوئی تلخی ہوئی ہو کسی سے بدتمیزی ہوئی ہو کسی کی دل آزاری کی ہو تو اس کو اللہ تعالی کی رضاکےلیے معاف فرمادیں ۔

  1. پہلی بات تو یہ ہےکہ مرنے والا معافی کی نیت رکھتا تھا لیکن اس کو موقع نہیں ملا ۔۔اس صورت میں کیا حکم ہے؟
  2. وہ ظلم پہ ڈٹا رہا کہ میں نے جو زیادتی کی ہے وہ ٹھیک کی ہے اس صورت میں کیا حکم ہے؟
  3. سوال یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے کو کسی قسم کی کوئی ندامت نہیں تھی اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟تفصیلی رہنمائی فرمادیں ۔جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ورثہ کی جانب سے اس طرح کا اعلان کرنا اچھی بات ہے،باقی مظلوم شخص کے لیےمعاف کرنا زیادہ بہتر ہے،البتہ اگر وہ ظالم کے ظلم سے تنفر باقی رکھنے کے لیے اس کا اظہار نہ کرےتو کوئی حرج نہیں ۔یاد رہے کہ اس میں مرحوم شخص کی نیت کا اعتبار نہیں ہے۔آپ کےسوالات کے بالترتیب جوابات درج ذیل ہیں۔

  1.  صاحب حق نے معاف کردیا تو معافی درست ہو جائے گی ۔
  2. اگر مرحوم شخص اپنی زندگی میں ظلم پہ ڈٹا رہا اور لوگوں کو نقصان پہنچایا ہو،ان کے حقوق غصب کیے ہوں یا اجتماعی طور پر لوگوں پر ظلم ڈھایا ہو ،جس کی وجہ سے  لوگ اس سے متنفر ہوں اور ان  کا معاف کرنے کو دل نہ چاہتا ہو تو معاف نہ کرنا بھی جائز ہے۔تاہم اگر کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو  اس صورت میں بھی بہتر اور حضورﷺ کی سنت  یہی ہے کہ اس کو معاف کردیں ۔معاف کرنے پر اللہ تعالی ان کو  اجروثواب  عطافرمائیں گے۔
  3. جب صاحب حق معاف کردے تو معاف ہوجائے گا،چاہے اسے ندامت نہ بھی ہو۔
حوالہ جات

قال سبحانه: فمن عفا وأصلح فأجره على الله إنه لا يحب الظالمين.(الشورى:40)

قال ابن جرير الطبري :وقوله: (فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ) يقول جل ثناؤه: فمن عفا عمن أساء إليه إساءته إليه، فغفرها له، ولم يعاقبه بها، وهو على عقوبته عليها قادر ابتغاء وجه الله، فأجر عفوه ذلك على الله، والله مثيبه عليه ثوابه. (تفسيرالطبري :548/21)

أخرج الإمام مسلم  في "صحيحه"(2558:1982/4) من حديث أبي هريرة: أن رجلا قال: يا رسول الله! ‌إن ‌لي ‌قرابة. أصلهم ويقطعوني. وأحسن إليهم ويسيئون إلي. وأحلم عنهم ويجهلون علي. فقال "لئن كنت كما قلت، فكأنما تسفهم المل. ولا يزال معك من الله ظهير عليهم، ما دمت على ذلك".

أخرج الإمام أحمد في"مسنده "(17452:654/28) من حديث عقبة بن عامر، قال: لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي: " يا عقبة بن عامر، صل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك "  قال ابن جرير الطبري :وقوله: (وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا) يقول: إن تعفوا أيها المؤمنون عما سلف منهم من صدّهم إياكم عن الإسلام والهجرة وتصفحوا لهم عن عقوبتكم إياهم على ذلك، وتغفروا لهم غير ذلك من الذنوب (فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) لكم لمن تاب من عباده، من ذنوبكم (رَحِيمٌ) بكم أن يعاقبكم عليها من بعد توبتكم منها.(تفسير الطبري:425/23)

أخرج الإمام مسلم في "صحيحه "(1610:58/5) عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل : أن أروى خاصمته في بعض داره، فقال: دعوها وإياها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من أخذ شبرا من الأرض بغير حقه، طوقه في سبع أرضين يوم القيامة. اللهم إن كانت كاذبة فأعم بصرها، واجعل قبرها في دارها. قال: فرأيتها عمياء تلتمس الجدر، تقول: أصابتني دعوة سعيد بن زيد، فبينما هي تمشي في الدار، مرت على بئر في الدار فوقعت فيها فكانت قبرها.

محمد فیاض بن عطاءالرحمن

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۲  جمادی الثانیہ ۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فیاض بن عطاءالرحمن

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب