85901 | جنازے کےمسائل | جنازے کے متفرق مسائل |
سوال
ہماری برادری میں ایک طریقہ شروع سے ہی رائج تھا کہ ہم خاندان میں کسی فوتگی کے وقت واپسی پر اسے فاتحہ خوانی کے نام پر کچھ رقم دیا کرتے تھے جو کہ ہمیں نیوتہ یا بھاجی کے مشابہ معلوم ہوئی تو ہم نے باہم مشورے سے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس میں جو خاندان شامل ہونا چاہتا ہے شامل کیا ، فی گھرانہ 300 کم از کم رقم متعین کی گئی جو ہر فوتگی پر ادا کرنی ہو گی جس کی وضاحت بھی کردی گئی کہ یہ محض نفلی صدقہ ہے اور کسی کو اس میں شمولیت پر مجبور نہیں کیا جاتا محض اپنی خوشی سے شامل ہوتے ہیں اور اس رقم سے کسی بھی گھرانے جو ہمارے ممبر ہیں ان کے ساتھ حادثے کی صورت میں تعاون کیا جائے گا۔ جو ہم نے45000 روپے مقرر کیا ہے تا کہ ہم اس بھاجی یا نیو تہ والی صورت سے بھی بچ جائیں اور ضرورت مند یا مصیبت زدہ گھرانے کے ساتھ کچھ تعاون بھی ہو جائے وہ اسے اپنے ضروری اخراجات میں شامل کر لیں ہم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ پیسہ برادری کے کھانے کیلئے نہیں ہے بلکہ جہاں ضرورت ہو وہاں وہ بندہ خود خرچ کرے گا۔ اور اس میں ہماری کچھ شرائط بھی ہیں کہ ہم صرف اس گھرانے کے ساتھ تعاون کریں جو ہمارے ممبرز میں شامل ہوگا ، البتہ بوڑھے والدین یا غیرشادی شدہ اولاد کو اس سے استثنا ءحاصل ہوگا اگر بیٹا شامل ہے تو والدین کے ساتھ حادثے کی صورت میں تعاون کیا جائے گا اسی طرح اگر غیر شادی شدہ اولاد کے ساتھ کچھ عارضہ ہوتا ہے تو والد کے ساتھ تعاون کیا جائے گا اور یہ تعاون صرف فوتگی کے ساتھ مشروط ہے،اور جو ادا نہ کرے اسے کچھ مہلت کے بعد خارج کر دیا جاتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ جو کام ہم نے اللہ کی رضا کیلئے برادری کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع کیا ہے کہیں شریعت کے متصادم تو نہیں ہے کیا اس میں کوئی صورت جوئے قمار کی تو نہیں ؟ یا یہ ہمارا اپنے ہی ممبر کے ساتھ تعاون کی شرط خلاف شریعت ہے؟ برائے مہربانی ہمارے اس سوال کو مکمل تسلی سے پڑھنے کے بعد قرآن وسنت کے مطابق ہمیں جواب سے نوازیں تا کہ ہمارے شکوک و شبہات ختم ہوں۔ اگر تو ٹھیک ہے تو ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں ورنہ ختم کر کے اللہ سے گزشتہ کوتاہی کی معافی مانگیں ؟ یا اس نا جائز شق کو ختم کرکے جائز صورت اختیار کریں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعت میں میت کے اہل خانہ کےساتھ ہمدردی کی تعلیم دی گئی ہے نیز پڑوسیوں کو میت کے اہل خانہ کے لیےکھانا بنانے کی ترغیب بھی ہے،لیکن چونکہ آج کل انفرادی طور پر پڑوسیوں اور اہل میت کےحقوق کا خیال رکھنا مشکل ہے اس لیے بعض علاقوں میں اس قسم کی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ،اس طرح کے نظم میں لوگوں کے لیے آسانی بھی ہےجس میں کوئی ممانعت نہیں تاہم کمیٹی کے اصولوں میں یہ بات وضاحت سے لکھ دی جائے کہ کمیٹی کا اجتماعی فنڈ صدقے کی نیت سے جمع کیا جائےگا اوردیے گئے فنڈ کی حیثیت صدقہ نافلہ کی ہوگی ، فنڈ دینے کے بعد وہ رقم معطی کی ملک سے نکل جائےگی، اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکے گا۔ اس رقم کے مصارف میں ترجیحا میت کے گھر کھانا دینا اور دیگر رفاہی کام ہوں گے۔کمیٹی کی انتظامیہ کی حیثیت وکیل کی سی ہوگی جس کا کام شرکاء کے لیےصدقہ وصول کرنا ہوگااور اس کو مخصوص مقاصد کے لیے کمیٹی کے شرکاء پر خرچ کرنا ہوگا۔
شرائط کی دیانت دارانہ انداز سے پابندی کی جائے تو ایسی امداد باہمی کی کمیٹی بنانا جائز ہے۔
حوالہ جات
أخرج الإمام الترمذي في سننه:(314/2)(الحديث رقم:998) من حديث عبدﷲبن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر، قال النبي صلى ﷲ عليه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاما، فإنه قد جاءهم ما يشغلهم.
قال الملا علی القاري رحمہ اللہ :" والمعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم فيحصل لهم الضرر وهم لا يشعرون قال الطيبي دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اه والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم وقيل يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية ثم إذا صنع لهم ما ذكر سن أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء أو لفرط جزع .(مرقاة المفاتيح:(1241/3
انس رشید ولد ہارون رشید
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
15/جمادی الثانیۃ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | انس رشید ولد ہارون رشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |