03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک کے لیے غیر سودی معاملات میں استعمال ہونے والا سافٹ ویئر تیار کرنے کا حکم
85967جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

مجھے حال ہی میں امریکہ سے ایک پاکستانی شخص کی کال موصول ہوئی،  اس نے مجھ سے سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ کے بارے میں بات کی۔ وہ کسی امریکی کمپنی میں اکاؤنٹنٹ ہے اور اب اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کروانا چاہتا ہے جو امریکہ کے کچھ بینکوں کو ہم آہنگ کر سکے۔ اس ہم آہنگی کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص کسی خاص بینک کسی کام کے لیے جائے تو بینک اس سافٹ ویئر کے ذریعے یہ چیک کر سکے کہ آیا اس شخص نے پہلے کسی اور بینک سے قرض لیا ہے یا نہیں؟ یہ سافٹ ویئر بینک کے  حساب کتاب سے کوئی تعلق نہیں رکھے گا۔ یہ صرف ڈیٹا بیس سے یہ شناخت کرے گا کہ آیا متعلقہ شخص نے کسی اور بینک سے قرض لیا ہے یا نہیں؟ وہ یہ سافٹ ویئر بینکوں کو ایک بار کی سبسکرپشن یا ماہانہ سبسکرپشن پر دے گا اور اس میں سود شامل نہیں ہوگا۔ کیا ہمیں یہ سافٹ ویئر تیار کرنے کی اجازت ہے؟   

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 ایسا سافٹ ویئر بنانا اور فروخت کرنا جو بذاتِ خود کسی سودی کام کے لیے مخصوص نہ ہو اور عام طور پر جائز کاموں کے لیے استعمال ہو تاہو، شرعاً جائز ہے۔ صورت مذکورہ میں چونکہ سافٹ ویئر کا تعلق سودی معاملات سے نہیں ہوتا ،لہذا آپ ایسا سافٹ ویئر تیار کرسکتے ہیں ۔

حوالہ جات

 قال العلامۃ محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ :بیع الأشیاء إلیه(البنک) : وفیه تفصیل ، فإن کان المبیع ممایتمحض استخدامه فی عقد محرم شرعاً، مثل برنامج الحاسوب الذی صمم للعملیات الربویة خاصة، فإن بیعه حرام للبنك وغیرہ ،وکذلك بیع الحاسوب بقصد أن یستخدم فی ضبط العملیات المحرمة أوبتصریح  ذلك فی العقد. أمابیع الأشیاء التی لیس لہا علاقة مباشرۃ بالعملیات المحرمة ، مثل السیارات أو المفروشات ، فلیس حراماً، وذلك لأنها لایتمحض استخدامها فی عمل محظور ) . فقه البیوع: 441/ (2

وقال أیضًا حفظہ اللہ :ویتلخص منہ أن الإنسان إذا قصد  الإعانۃ  علی المعصیۃ  باحدی الوجوہ الثلاثۃ المذکورۃ(أن یقصد الإعانۃ  علی المعصیہ،بتصریح المعصیۃ فی صلب العقد،بیع أشیاء لیس لھا مصرف إلا فی المعصیۃ)، فإن العقد حرام لا ینعقد والبائع آثم.أما إذا لم یقصد ذٰلک، وکان  البیع سببا للمعصیۃ، فلا یحرم العقد ،ولکن إذا کان سببا محرکا، فالبیع حرام ،وإن لم یکن محرکا ، وکان سببا قریبا  بحیث یستخدم فی المعصیۃ  فی حالتھا الراھنۃ ، ولا یحتاج إلی صنعۃ جدیدۃ من الفاعل  کرہ تحریما وإلا فتنزیھا.وکذٰلک الحکم فی برمجۃ الحاسب الآلی (الکمبیوتر)لبنک ربوی، فإن قصد  بذٰلک الإعانۃ، أو کان البرنامج مشتملا علی مالا یصلح إلا فی الاعمال الربویۃ،أو الأعمال المحرمۃ الأخری،فإن العقد حرام باطل.أما اذا لم یقصد الإعانۃ،ولیس فی البرنامج  ما یتمحض للأعمال المحرمۃ ،صح العقد وکرہ تنزیھا.( فقه البیوع: 194/ (1

محمد مجاہد

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

/18جمادی الثانیہ،1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مجاہد بن شیر حسن

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب