03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کا مسئلہ
85964میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے نانا کے انتقال کے بعد میری والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ،تو میرے نانا کی میراث میں میری والدہ کا جتنا حصہ بنتا ہے، کیا وہ حصہ ہمیں لینے کا حق بنتا ہے؟نیز اگر لینے کا حق بنتا ہے تو پھر ہمارے درمیان کس طریقے سے تقسیم ہوگا جبکہ ہم ورثہ میں بیٹا،بیٹی اور شوہر شامل ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ  کی والدہ  آپ کے نانا کے انتقال کے بعدان کے  میراث  میں حق دار  ہے اور آپ کو اپنی والدہ کا حصہ لینے کاحق بنتا ہے۔نانا کے تمام ورثہ کی تفصیل آنے کے بعداس کے ترکہ میں آپ کی والدہ کا حصہ معلوم ہوسکتا ہے۔

والدہ کی وراثت ان کے بیٹے ،بیٹی اور شوہر کے درمیان اس طور پر تقسیم ہوگی کہ کل مال کے چار حصے بنائے جائیں گے، ان میں سے ایک حصہ شوہر کو ،دو حصے بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو دیا جائے گا۔

حوالہ جات

قال العلامة الحصكفي رحمه الله:(والربع للزوج) (مع أحدهما) أي الولد أو ولد الابن. (الدرالمختار :6/770)

قال العلامۃ الزیلعی رحمه الله :(وعصبها الابن، وله مثلا حظها) معناه إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات، فيكون للابن مثل حظ الأنثيين ؛لقوله تعالى :{يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} [النساء: 11] (تبیین الحقائق :6/234)

محمد یونس بن امین اللہ 

دارالافتاءجامعۃالرشید،کراچی

‏18‏ جمادى الأخری‏، 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد یونس بن امين اللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب