85986 | سود اور جوے کے مسائل | مختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان |
سوال
اسلامی بینکوں کی جانب سے پیش کیے جانے والےعقد اجارہ کی تفصیلات اور اس کی شرعی بنیاد کیاہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اجارہ فقہ کی ایک اصطلاح ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص یا سامان (equipment) کی جائز اور متعین منفعت کو متعین اجرت کے بدلے ایک متعین مدت کے لیے کسی کو دینا۔
فقہ میں اجارہ کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: ایک کو " إجارة الأشخاص “) employment) کہتے ہیں یعنی اجرت کے بدلے شخصی خدمات فراہم کرنا۔ دوسری قسم کو " إجارة الأعيان (leasing) کہتے ہیں یعنی سامان، زمین وغیرہ کو اجرت کے بدلے استعمال کے لیے دینا۔
کنونشل بینکوں میں ہائر پر چیز (hire purchase) کی صورت رائج ہے، جس میں کئی شرعی خرابیاں پایا جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی بینکوں میں جو اجارہ رائج ہے اسے "الإجارة التمويلية " اور "الإجارة المنتهية بالتمليك" کہتے ہیں ، جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے :
ا۔ جب کسی شخص یا ادارہ کو کسی مشینری یا گاڑی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ رقم نہ ہونے کی وجہ سےبینک کے پاس اجارہ کی سہولت حاصل کرنے کے لیے آتا ہے تو بینک اس کے حالات کا جائزہ لے کر اس کی درخواست قبول کرتا ہے اور کلائنٹ کے ساتھ ایگریمنٹ کر لیتا ہے، جس میں اجارہ کی شرائط اور وضاحتیں موجود ہوتی ہیں۔
۲۔ بینک اپنے کلائنٹ کی مطلوبہ گاڑی یا مشینری وغیرہ کسی شخص سے خرید کر یا اس کی بکنگ متعلقہ کمپنی میں کر دیتا ہے، جس کی قیمت بینک ادا کرتا ہے اور گاڑی وغیرہ بھی بینک کے نام پر بک ہوتی ہے۔
۳۔گاڑی کے حصول کے بعد بینک یہ گاڑی اُس کلائنٹ کو اجارے کے شرعی اصول و قواعدکے مطابق ایک معینہ مدت کے لیے کرائے پر دے دیتا ہے۔
۴۔ جب کرایہ داری کی مدت پوری ہو جاتی ہے تو بینک ایک الگ مستقل عقد کے ذریعے وہ گاڑی کلائنٹ کو بیچ دیتا ہے ، یا اسے ہبہ (gift) کر دیتا ہے، لیکن اگر کلائنٹ کو اس گاڑی کے لینے میں کوئی رغبت نہ ہو تو بینک کلائنٹ کو اس کا زرضمانت (security deposit) واپس کر کے گاڑی کو مارکیٹ میں فروخت کر دیتا ہے۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (6/ 4):
الاجارة (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض)
منیب الرحمنٰ
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
20/جمادی الثانیہ /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | منیب الرحمن ولد عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |