03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلامی بینک سے قسطوں پر گھر خریدنا
85982سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

ہم ایک گھر خریدنے کے خواہشمند ہیں اور میزان بینک یا کسی اسلامی بینک کے ذریعے قسطوں پر خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے پہلے ایک مفتی صاحب سے مسئلہ دریافت کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلامی بینک کے ذریعے قسطوں پر گھر خریدنا شرعی طور پر جائز ہے، لیکن یہ بھی کہا کہ کسی مستند دارالافتاء سے رجوع کر کے معاہدے کی مکمل تفصیلات کے بارے میں اطمینان کر لیں۔اسی وجہ سے ہم نے اب آپ (جامعۃ الرشید) سے رجوع کیا ہے تاکہ شرعی رہنمائی حاصل کر سکیں۔ ہمارا سوال یہ ہےکہ کیا میزان بینک اور دیگر اسلامی بینکوں کے ذریعے قسطوں پر گھر خریدنے کا عمل شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہماری معلومات کے مطابق میزان بینک مستند اور ماہر مفتیان کرام کی زیر نگرانی کام کررہا ہے ،لہٰذا میزان بینک کے ذریعے قسطوں پر گھر خریدنے کا معاملہ کرناجائزہے۔ اسی طرح دیگر اسلامی بینک اگر مستند اور ماہر مفتیان کے زیر نگرانی کام کررہے ہوں، تو ان سےبھی یہ  معاملہ کرنا جائز ہوگا ۔

یہ بات واضح رہےکہ اسلامی بینک  گھر کی فائنانسنگ کے لئے  شرکت متناقصہ (Diminishing Musharakah) کے عقد کی سہولت فراہم کرتا ہے ۔ اسلامی بینک میں  گھر وغیرہ کی تعمیر اور خرید کے لیے شرکت متناقصہ کا عقد اس طرح کیا جاتا ہے کہ ابتداء میں بینک اورکسٹمردونوں طے شدہ تناسب سےاس گھرمیں شریک ہوتےہیں، ایگریمنٹ کے مطابق بینک اپنے حصے(ملکیت) کا کرایہ کسٹمر سے وصول کرتا ہے اور اپنے حصے کے یونٹس بناکرکسٹمر کو بیچ دیتا ہے جو  وہ  آہستہ آہستہ خریدتا رہتاہے، کسٹمرکےقسط وار یونٹس خریدنےکی وجہ سے بینک کاحصہ گھٹتا رہتا ہے اورکرایہ کی رقم بھی کم ہوتی رہتی ہے، جبکہ کسٹمرکاحصہ(ملکیت) بڑھتا چلا جاتاہےپھر ایک متعینہ مدت مثلا پانچ یا دس سال کےبعدکسٹمرمکمل طورپرگھر کا مالک بن جاتاہے۔(ماخوذاز تبویب(70594

حوالہ جات

المعاییر الشرعیۃ(رقم:12):

 :1المشاركة المتناقصة عبارة عن شركة يتعهد فيها أحد الشركاء بشراء حصة الآخر تدریجیا إلى أن يتملك المشتري المشروع بكامله، ولا بد أن تكون الشركة غير مشترط فيها البيع والشراء، وإنما يتعهد الشريك بذلك بوعد منفصل عن الشركة،وكذلك يقع البيع والشراء بعقد منفصل عن الشركة، ولا يجوز أن يشترط أحدالعقدين في الآخر.

2: يجب أن تطبق على المشاركة المتناقصة الأحكام العامة للشركات، وبخاصة أحكام شركة العنان. وعليه لا يجوز أن يتضمن عقد الشركة أي نص يعطي أیا من طرفی المشاركة الحق في استرداد حصته من رأس مال الشركة.

3 :لا يجوز اشتراط تحمل أحد الشريكين -وحده- مصروفات التأمين أو الصيانة ولوبحجة أن محل الشركة سيئول إليه.

:4 يجب أن يقدم كل من الشريكين حصة في موجودات الشركة، سواء كانت مبالغ نقديةأو أعيا ً نا يتم تقويمها مثل الأرض التي سيقام البناء عليها، أو المعدات التي يتطلبهانشاط الشركة. وتعتمد حصص الملكية الخاصة لكل طرف لتحميل الخسارة إن وقعت، وذلك في كل فترة بحسب تناقص حصة أحد الشركين وتزايد حصة الشريكالآلآخر.

5: يجب تحديد النسب المستحقة لكل من أطراف الشركة (المؤسسة والعميل) فيأرباح أو عوائد الشركة، ويجوز الاتفاق على النسب بصورة مختلفة عن حصص الملكية، ويجوز استبقاء نسب الأرباح ولو تغيرت حصص الملكية، ويجوزالاتفاق بين الطرفين على تغيرها تبعا لتغير حصص الملكية دون الإخلال بمبدأ تحميل الخسارة بنسبة حصص الملكية.

6:  لا يجوز اشتراط مبلغ مقطوع من الأرباح للأحد الطرفين،

:7   يجوز إصدار أحد الشريكين وعدا ملز ً ما يحق بموجبه لشريكه تملك حصته تدريجیامن خلال عقد بيع عند الشراء وبحسب القيمة السوقية في كل حين أو بالقيمة التي يتفق عليها عند الشراء. ولايجوز اشتراط البيع بالقيمة الاسمية.

8: لا مانع من تنظيم عملية تملك حصة المؤسسة من قبل شريكها بأي صورة يتحقق بها غرض الطرفين، مثل التعهد من شريك المؤسسة بتخصيص حصته من ربح الشركة أوعائدها المستحق له ليتملك بها حصة نسبية من حصة المؤسسة في الشركة أو تقسيم محل الشركة إلى أسهم يقتني منها شريك المؤسسة عد ً دا معينًا كل فترة إلى أن يتم شراء شريك المؤسسة الأسهم بكاملها فتصبح له الملكية المنفردة  لمحل الشركة.

9:  يجوز لأحد أطراف الشركة استئجار حصة شريكه بأجرة معلومة ولمدة  محددة  مهما كانت، ويظل كل من الشريكين مسؤولا عن الصيانة الأساسية لحصته  في كل حين.

منیب الرحمنٰ

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

20/جمادی الثانیہ /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

منیب الرحمن ولد عبد المالک

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب