86046 | وقف کے مسائل | مدارس کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ ایک مدرسے میں اساتذہ کی تنخواہ ساڑھے تیرہ ہزار روپے ہے ،اساتذہ نے مہتمم صاحب سے درخواست کی کہ ان کی تنخواہ بڑھائی جائے ،تو مہتمم صاحب نے کہا کہ تنخواہ بڑھانے کی گنجائش نہیں ہے ۔البتہ آپ حضرات اپنے جاننے والے دوست احباب سے فنڈ متعین کریں اور یہ آپ حضرات اپنی تنخواہ میں شامل کریں، کیا یہ جائز ہے؟ فقہ حنفی کے حوالوں کےساتھ جواب عنایت فرمائیں ۔شکریہ
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مہتمم صاحب کی تجویز میں تنخواہ کا مسئلہ تو کسی درجے میں حل ہوگا لیکن اس سے نظام شفاف نہ رہے گا جس کی وجہ سے تہمتوں اور خرد برد کا خدشہ ہے۔نیز اس طرح سب استاذ پڑھائی سے زیادہ فنڈ ڈھونڈنے میں مصروف ہوجائیں گے ،اور مدرسے کی تعلیم اور وقف کی آمدن پر بھی اثرات ہوں گے۔لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت اختیار کرنے کی بجائے خود مہتمم یا اس کا نائب تنخواہ کی مد میں خصوصی فنڈنگ کرے اور باقاعدہ نظم کے تحت فنڈ مدرسے کی مالیات میں جمع ہو،پھر وہاں سے اساتذہ کو وظائف جاری کیے جائیں۔اس طرح مسئلہ بھی حل ہوگا اور مدرسہ اور اساتذہ کی ساکھ اور شہرت بھی بہتر ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه الله :والوكيل بالقبض إذا أراد أن يوكل غيره هذا على وجهين: .....(وإما) أن كانت خاصة بأن لم يقل ذلك عند التوكيل بالقبض؛ فإن كانت عامة يملك أن يوكل غيره بالقبض لأن الأصل فيما يخرج مخرج العموم، إجراؤه على عمومه، وإن كانت خاصة فليس له أن يوكل غيره بالقبض؛ لأن الوكيل يتصرف بتفويض الموكل فيملك قدر ما فوض إليه. (بدائع الصنائع:25/6)
قال العلامة الزيلعي رحمه الله :وقال عليه الصلاة والسلام «المسلمون على شروطهم إلا شرطا أحل حراما أو حرم حلالا» (المحيط البرهاني :395/7)
محمد فیاض بن عطاءالرحمن
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۲۱ جمادی الثانیہ ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد فیاض بن عطاءالرحمن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / شہبازعلی صاحب |