03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی جانب سے ہبہ کیا ہوا گھر واپس لینے کا حکم
86176ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ واپس کرنے کابیان

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مفتی صاحب!  مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے اور مجھے اس مسئلے میں آپ کا فتویٰ درکار ہے! میرا نام عبد الرؤف شاکر ہے اور ابھی میری عمر 88 سال ہے، میں نے اپنی زندگی کے 55 سال انگلینڈ میں گزارے اور 55 سال وہاں پر کمائی کرتا رہا تاکہ میں اپنی اولاد کو بہتر سے بہتر زندگی فراہم کرسکوں، میرے چار بیٹے ہیں اور تین بیٹیاں  ہیں، میری ایک سب سے چھوٹی بیٹی جس کا نام عابدہ ہے، میں نے پہلے اس کی شادی کروائی صدیق تنولی سے ،لیکن 2004 میں میری بیٹی کے شوہر یعنی میرے داماد صدیق تنولی ایک کار ایکسیڈنٹ میں وفات پاگئے ، اس وقت میری بیٹی کے دو بیٹے تھے اور تیسرا بیٹا پیٹ میں حمل میں تھا اور اس وقت میں انگلینڈ میں تھا۔ جب مجھے یہ خبر ملی کہ میری بیٹی بیوہ ہو چکی ہے اور میرے پوتے دونوں یتیم ہوگئے اور تیسرا جو دنیا میں آنے والا ہے وہ پیدائشی یتیم ہوگیا تو مجھے اس واقعہ سے بے حد دکھ ہوا  اور میں وہاں پر روتا رہا اور میں نے اپنی بیٹی سے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ میں تمہاری   اور تمہارے بیٹوں کی  ذمہ داری  اپنے سر لوں  گا اور ان کے جتنے بھی خرچے آئیں گے وہ  تمام میں  خود ادا کروں گا اور اس کے بعد سے میں نے ان کے لیے ہر مہینے کا خرچہ پاکستانی پیسوں میں انگلینڈ سے بھیجتا رہا ،شروع میں میں دس ہزار بھیجتا تھا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب مہنگائی بڑھتی رہی تو پندرہ ہزار ہوگیا، پھر تیس سے چالیس اور پچاس ہزار ماہانہ میں نے ان کو بھیجی ہیں ہر ماہ ،پھر کچھ عرصے بعد میں نے اپنی بیٹی کی شادی ارشد تنولی سے کروائی،  ارشد تنولی سے عابدہ ارشد کی ایک بیٹی ہے،  پھر انہوں نے ایک نیا گھر بنانا تھا 5 مرلے کا اسلامیہ پارک میں گلی نمبر ایک میں، ان کے پاس گھر بنانے کے لیے موجودہ رقم نہ تھی اور چونکہ میں نے ان سے کفالت کا وعدہ کر رکھا تھا،  ان کے اس 5 مرلہ گھر بنانے میں میں نے ان کو تقریباً 43 لاکھ روپے انگلینڈ سے پاکستان بھیجے وقتاً فوقتاً اور ساتھ ساتھ میں ماہانہ خرچہ بھی بھیجتا رہا، 2017 میں پاکستان واپس آیا اور 2018 میں اسلامیہ پارک گلی نمبر 2 میں مکان نمبر 2 فروخت ہو رہا تھا، مجھے معلوم پڑا تو وہ گھر میں نے خرید لیا 2 کروڑ روپے کا  اور ساتھ میں اس مالک مکان کی ایک شرط یہ تھی کہ جو میرا مکان خریدے گا وہ گھر کے ساتھ میری دکان بھی خریدے گا جوکہ چھ لاکھ روپے کی تھی، میں نے اس سے وہ دوکان خرید کے ان یتیم بچوں یعنی ارشد تنولی و عابدہ ارشد کے حوالے کردی گو کہ اب وہ یتیم نہ تھے، سارے بالغ ہو چکے تھے اور ان کا اب باپ بھی تھا اور یہ گھر 21 مرلے کا تھا اور ڈبل سٹوری گھر ہے، اس گھر کے میں نے چار انتقال بنوائے، تین انتقال میں نے بنائے پانچ پانچ مرلے کے اور چوتھا انتقال چھ مرلے کا میں نے بنایا اپنی پوتی  خدیجہ کے نام، یہ گھر دراصل میں نے ان کو ہبہ کیا تھا، لیکن انتقال کروانے کا مقصد یہ تھا کہ کل کو میرا کوئی بیٹا یا بیٹی میری موت کے بعد یا میری زندگی میں اپنی بہن سے حصہ مانگ نہ لے اور اس کے علاوہ میرا مقصد یہ تھا کہ ان یتیم بچوں کی کفالت کا میں نے ذمہ لیا ہے اس میں مزید بہتری آجائے گی،  حالانکہ ان کے پچھلے گھر میں  میں نے ان کو 43 لاکھ روپے دے رکھے تھے، لیکن میں چاہتا تھا کہ ان یتیم بچوں کی زندگی اور اچھی بنے اور ساتھ میں وہ چھ لاکھ روپے کی دوکان بھی ان کے حوالہ کر دی تاکہ یہ کاروبار سیکھ سکیں اور اسکے علاوہ میرا مقصد یہ تھا کہ اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں میں نے ساری زندگی باہر گزار دی، میرا مقصد یہ تھا کہ میں ان کے ساتھ رہوں گا ،یہ میری خدمت کریں گے اور ہم ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے،  اس گھر کے اوپر والا گھر بھی ہم نے کرائے پر دے دیا جس کا کرایہ 25000 تھا اور جو ان کا پچھلا گھر تھا جس میں میں نے 43 لاکھ روپے لگائے تھے وہ بھی انہوں نے کرائے پر لگا لیا تھا جس کا کرایہ 20 ہزار آتا ہے اور یہ دونوں کرائے بھی میں نے ان کے حوالے کر دیے کہ آپ لوگ اس کو استعمال کریں، مجھے ان کرایوں کی ضرورت نہیں ہے اور ساتھ ساتھ جب بھی ان کو کسی بھی حوالے سے پیسوں کی ضرورت ہوتی تو میں ان کو کھلے دل سے پیسے فراہم کرتا تھا، وہ دکان جو میں نے ان کو چھ لاکھ میں خرید کر دی تھی،  اس دکان کو یہ لوگ چلا نہیں پائے اور اس دکان کو انہوں نے بیچ دیا اور مجھے ایک روپیہ نہیں دکھایا ، لیکن اس کے باوجود میں ان پر احسانات کرتا گیا ،میری بیٹی کے شوہر ارشد تنولی کو ایک گاڑی لینی تھی اور میں نے اسی وقت اس کو ایک لاکھ روپے قرض بھی دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اب ارشد کی بڑے بیٹے بابر صدیق کو باہر دبئی جانا تھا اور بابر کو دبئی جانے کے لئے چار لاکھ روپے چاہیے تھے،  میں نے اس کو اسی وقت چار لاکھ روپے دیے تاکہ یہ دوبئی جا سکے،  اس کے بعد بابر صدیق نے دبئی میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا تھا جس کے لیے میں نے مزید دو لاکھ روپے بھیجے تھے،  اس طرح بابر صدیق پر میرے چھ لاکھ روپے لگے اور یہ پیسے میں نے اس کو قرضے کی نیت سے دیے تھے، پھر اس کے بعد 2024 جون کے مہینے میں بابر صدیق کی شادی تھی خدیجہ سے،  اس شادی کے لیے بھی میں نے بابر صدیق کو پانچ لاکھ روپے کا چیک فراہم کیا تھا کہ اپنی شادی اچھے طریقے سے کر سکیں اور ساتھ میں میں نے 100 کلو گوشت بھی ان کو فراہم کیا تاکہ یہ اچھے سے اچھا ولیمہ دے سکیں ، لیکن جب سے میں نے اپنی بیٹی عابدہ ارشد کو گھر لے کر دیا اور اس کے نام پر کر دیا ،اسی وقت سے اس کا رویہ آہستہ آہستہ بدلتا رہا اور اس دوران وہ کئی دفعہ مجھے بےعزت کرکے گھر سے باہر نکال چکی تھی، لیکن میں اس کو ہر بار معاف کرتا گیا،  لیکن آخر کار بابر صدیق کی شادی کے دو مہینے بعد عابدہ ارشد اور اس کے بیٹوں نے حد ہی پار کر دی اور مجھے دھکے دے کر گھر سے باہر نکالا اور کچھ دنوں بعد واٹس ایپ وائس نوٹ میں میری بیٹی جس کے نام پر میں نے کتنا بڑا گھر لے کر دیا اس نے مجھے گالیوں سے بھرپور ایک میسج بھیجا جس میں اس نے مجھے خنزیر ،بےغیرت،دلا ،طلاقی کہا اور اس کے علاوہ بے شمار گالیاں دیں اور اس کے ساتھ عابدہ ارشد کے چھوٹے بیٹے یاسر صدیق جس کی عمر تقریبا 21، 22 سال ہوگی، اس نے بھی ایک وائس نوٹ میں مجھے بے شمار گالیاں دیں اور اس نے بھی مجھے خنزیر،  دلا، بے غیرت اور طلاقی کہا اور ساتھ میں مجھے میرے سر کاٹنے کی دھمکی بھی دی یعنی جان سے مارنے کی دھمکی اور میری بیٹی عابدہ ارشد نے میرے لیے بے انتہا بد دعائیں بھی کی کہ میرا باپ گاڑی کے نیچے آجائے مر جائے اور اس کے علاوہ بہت کچھ کہا جو ناقابل بیان ہے اب میرا دل بہت غم زدہ ہے کیونکہ میں نے ساری زندگی ان کا خیال رکھا اور اتنے عرصے میں 2004 سے لے کر ابھی تک جو ان کو میں ماہانہ خرچہ بھیجا جس کا ٹوٹل تقریباً 90 لاکھ بنتا ہے، لیکن اس سب کا بدلہ مجھے اس صورت میں ملا اور میرا گھر لینے کا مقصد تھا کہ میں ان کے ساتھ رہوں گا میری آخری زندگی کے آخری سال ہیں  ،میں خوشی خوشی گزاروں گا ،وہ مقصد بھی فوت ہوگیا اور اب مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے کہ یہ اتنا بڑا ہبہ اپنی بیٹی کو دیا تھا اور اپنے تمام بیٹوں اور تمام بیٹیوں کو میں نے اتنے بڑے حصے نہیں دیے، بلکہ اس دو کروڑ گھر کے مقابلے میں نے ان کو بہت ہی کم رقم میراث میں دی ہے۔ اب مجھے آخرت کی فکر ہے کہ کہیں اللہ تعالی میرا مؤاخذہ نہ کرے ،اس لیے میں اب ان سے واپسی کی ڈیمانڈ کرتا ہوں ،میں نے آپ کے سامنے ساری صورتحال پیش کر دی   اور اب مجھے احساس بھی ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے جس میں  میرے سب بیٹوں کا حق تھا وہ میں نے ان یتیموں کے حوالے کردیا اور ایک بیٹی کے حوالے کردیا  تو کیا اب میں اپنا گھر واپس لے سکتا ہوں؟ مجھے اس سلسلے میں آپ کا فتویٰ درکار ہے۔ جزاکم اللہ خیراً۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی شخص کسی کو کوئی چیز ہبہ (گفٹ) کرے اور باقاعدہ طور پر وہ چیز    اس کو حوالہ بھی کردے  تو وہ چیز   ہبہ کرنے والے کی ملکیت سے نکل کر ہبہ لینے والے کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے،  ایسی صورت میں قریبی رشتہ دار کو گفٹ کی ہوئی چیز   واپس لینا شرعاً جائز  نہیں۔جب  آپ نے اپنی   بیٹی  کو گھر ہبہ کیا اور  باقاعدہ اس کا  قبضہ بھی دے دیا ، تو وہ گھر اب آپ کی بیٹی کی ملکیت  میں آگیا اور اسی کا ہوگیا۔  آپ نے یہ عمل ایک نیک نیتی سے کیا اور اپنی بیوہ  بیٹی اور اس کے یتیم بچوں  کے ساتھ احسان کیا  جس  پر اللہ کے ہاں اجر ملنے کی  قوی امید ہے ۔

 البتہ شریعت میں  اولاد کے درمیان برابری کا حکم ہے اور آپ نے چونکہ   بیٹی کو دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ دیا    ہے اور دوسرے گویا کہ اس سے محروم ہیں اس لیے اس پر  آپ  کو  اللہ کے حضور  توبہ واستغفار   کرنا چاہیے، نیز آئیندہ توفیق ہو تو دیگر اولاد کو ترجیحاً  ہبہ کریں تاکہ کچھ تلافی ہوسکے۔

 چونکہ بیٹی آپ کی ذی رحم محرم ہے اور ذی رحم محرم کو ایک مرتبہ کوئی چیز ہبہ کی تو اس سے  واپس لینا  شرعاً جائز نہیں، لہذا  وہ گھرآپ اپنی بیٹی سے   دوبارہ واپس نہیں لے سکتے۔

تاہم  بیٹی کا اپنے  والد کے ساتھ مذکورہ رویہ اختیار کرنا شرعاً ،اخلاقاً اورمروۃ ًجائز نہیں ، خاص طور پر جب والد بوڑھے ہو چکے ہوں اور  زندگی بھر  ہر مشکل میں اپنی بیٹی  کا ساتھ دیا ہو۔ والدین کی خدمت کرنا اور ان کی رضا حاصل کرنا اولاد پر واجب اور ضروری  ہے۔  بیٹی کو چاہیے کہ اپنے والد کو راضی کرے اور ان کے تمام حقوق کا مکمل طور پر  خیال رکھے،ورنہ اللہ تعالی کے ہاں وہ ان سب چیزوں کی جواب دہ ہوگی۔      

حوالہ جات

قال العلامۃ برھان الدین المرغیناني رحمہ اللہ: "ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة، وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة" وقال الشافعي: تجوز في الوجهين؛ لأنه عقد تمليك فيصح في المشاع وغيره كالبيع بأنواعه، وهذا؛ لأن المشاع قابل لحكمه، وهو الملك فيكون محلا له، وكونه تبرعا لا يبطله الشيوع كالقرض والوصية. ولنا أن القبض منصوص عليه في الهبة فيشترط كماله والمشاع لا يقبله إلا بضم غيره إليه، وذلك غير موهوب، ولأن في تجويزه إلزامه شيئا لم يلتزمه وهو مؤنة القسمة، ولهذا امتنع جوازه قبل القبض لئلا يلزمه التسليم، بخلاف ما لا يقسم؛ لأن القبض القاصر هو الممكن فيكتفى به؛ ولأنه لا تلزمه مؤنة القسمة. .. قال: "وإن وهب هبة لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها؛ ولأن المقصود فيها صلة الرحم وقد حصل.(الهداية :3/ 223-226)

قال العلامۃ علي حیدر رحمہ اللہ: والقبض على قسمين:القسم الأول - القبض الكامل. وهو يكون بقبض كل موهوب بالصورة المناسبة لقبضه فإذا كان الموهوب دارا فقبض مفتاحها هو قبض للدار.القسم الثاني  القبض الناقص، كقبض حصة شائعة في مال وهب بعضه وكان ذلك المال قابلا للقسمة ولا يكفي القبض الناقص في تمام الهبة فعليه إذا وهب بعض مال قابل للقسمة يجب إفراز وتقسيم الحصة الموهوبة وتسليمها وقبضها من الموهوب له أما إذا سلمت الحصة الموهوبة مع الحصة الغير موهوبة بدون إفراز وقبضها الموهوب فلا تتم الهبة.(درر الحكام :2/ 400)

قال العلامۃ الکاساني رحمہ اللہ: وأما شرائط الرجوع بعد ثبوت الحق حتى لايصح بدون القضاء والرضا؛ لأن الرجوع فسخ العقد بعد تمامه وفسخ العقد بعد تمامه لا يصح بدون القضاء والرضا كالرد بالعيب في البيع بعد القبض).بدائع الصنائع: 6/ 128)

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:و في الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، و إن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى.

  (الدر المختار مع رد المختار: 696/5)

احسان اللہ

دار الافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

/27جمادی الثانیۃ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ بن سحرگل

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب