86094 | نماز کا بیان | جمعہ و عیدین کے مسائل |
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ تبلیغی اجتماعات جو بڑے بڑے میدانوں میں منعقد ہوتے ہیں، وہاں ہزاروں اور لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے ۔ کھانے پینے وغیرہ ضرورت کی چیزیں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔دوران اجتماع اگر جمعہ کا دن آ جائے تو اجتماع میں جمعہ کی نماز ادا کی جائے گی یا ظہر کی؟اجتماع گاہ میں جمعہ قائم کرنے کے لیے کیا شرائط ہیں؟(٢) اگر اجتماع آبادی سے باہر ہو تو کتنی مسافت پر ہونے کی صورت میں جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہوگی؟ (٣) فنائے مصر کسے کہیں گے؟ کیا فنائے مصر کا شہر کی آبادی سے متصل ہونا ضروری ہے؟ شہر کی آبادی سے باہر خالی پڑے میدان فنائے مصر میں داخل ہوں گے یا نہیں جبکہ وہ میدان کسی کی ذاتی ملکیت ہو اور اس سے شہر کی کوئی اجتماعی ضرورت کی تکمیل وابستہ نہ ہو؟ اور شہر اور اجتماع گاہ کے درمیان آبادی کا تسلسل نہ ہو یا اکا دکا کوئی مکان وغیرہ موجود ہو؟ (٤) تبلیغی اجتماعات کو مجمع کی کثرت اور اشیائے ضروریہ کے فراہم ہونے کی وجہ سے منی پر قیاس کر کے جواز جمعہ کا حکم لگانا کیسا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تبلیغی اجتماعات جو عام طور پر شہر سے باہر بڑے میدانوں میں منعقد ہوتے ہیں،ان اجتماعات میں اگر جمعہ کا دن آجائے تو وہاں نمازجمعہ ادا کرنا جائز ہے ۔کیونکہ ایسے اجتماعات عام طور پر شہر سے باہر فناءمیں منعقد ہوتے ہیں اور فناء مصر میں شہر کی طرح جمعہ ادا کرنا جائز ہے۔ البتہ اگر اجتماع شہر سے بہت زیادہ دور ہو جس کو فناء مصر بنانا ممکن نہ ہو تو وہاں نماز جمعہ پڑھنا جائز نہ ہوگا۔
اداء جمعہ کے لیے شہر سے باہر مسافت کی کوئی تحدید نہیں ہے،بلکہ دیکھا جائے گا کہ شہر سے باہر یہ جگہ فنائے مصر میں داخل ہے یا نہیں؟ اگر فنائے مصر میں داخل ہو تو جمعہ ادا کرنا جائز ہوگا ورنہ جائز نہ ہوگا۔
فنائے مصر سے مراد وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے شہر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں،مثلاً:شہر کا قبرستان ہو،کوڑا پھینکنے کی جگہ ہو،گھوڑے دوڑانے یا تیر پھینکنے کی مشق کی جگہ ہو،مجاہدین کی اجتماع کے لیے میدان ہو یا ریلوے اسٹیشن وغیرہ ہو۔
فنائے شہر کا آبادی سے متصل ہونا ضروری نہیں ہے۔شہر کی آبادی سے باہر خالی پڑے میدان سے اگر شہرکی ضروریات وابستہ ہوں تو یہ فنائے مصر ہے ورنہ نہیں ہے، چاہے یہ کسی کی ذاتی ملکیت ہو یا وقف ہو۔ایسے ہی اگر ان میدانوں سے شہر کی ضروریات پوری ہوتی ہو ں تو چاہے درمیان میں آبادی کا تسلسل ہو یا نہ ہو ،یہ فنائے مصر میں داخل ہوں گے، ورنہ نہیں ہوں گے۔
تبلیغی اجتماعات کے مجمع کو منی پر قیاس کرنا درست نہیں۔حضرات شیخین کے نزدیک منی ایام حج میں شہر بن جاتا ہے، کیونکہ منی میں کچھ تعمیرات بھی ہیں اور وہاں بازار منتقل ہوجاتا ہے،حکومت کے کارندے موجود ہوتے ہیں اورحکومتی نظم ہوتاہے۔اس کے خلاف عرفات چونکہ میدان ہے تو وہاں لوگوں کے اجتماع سے بھی وہ شہر نہیں بنتا۔لہذا تبلیغی اجتماعات بھی چونکہ میدانوں میں منعقد ہوتے ہیں اور وہاں کوئی حکومتی نظم بھی نہیں ہوتا،اس لیے وہ لوگوں کے اجتماع اور ضروری اشیاء کی فراہمی کی وجہ سے شہر نہیں بنتے۔
حوالہ جات
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(ويشترط لصحتها)...(المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها)...(أو فناؤه) بكسر الفاء(وهو ما) حوله (اتصل به)أو لا،كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه)،كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ،ذكره الولوالجي.(رد المحتار :2/ 137)
وقال العلامۃ ابن الہمام رحمہ اللہ تعالی:قوله:(أو في مصلى المصر) أعني فناءه، فإن المسجد الداخل فيه انتظمه اسم المصر، وفناؤه هو المكان المعد لمصالح المصر متصل به أو منفصل .(فتح القدير:2/ 50)
وقال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ تعالی:قوله ):والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة، وكذا محرر المذهب الإمام محمد ،وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة :غلوة ،ميل، ميلان، ثلاثة، فرسخ ،فرسخان، ثلاثة، سماع الصوت ،سماع الأذان، والتعريف أحسن من التحديد ؛لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره... فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر،فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك، وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع ؟وهذا يزيد على فراسخ، فظهر أن التحديد بحسب الأمصار.(رد المحتار:139/2)
وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:ويتصل بهذا إقامة الجمعة في أيام الموسم بمنى .قال أبو حنيفة وأبو يوسف: تجوز إقامة الجمعة بها إذا كان المصلي بهم الجمعة هو الخليفة...وقال محمد لا تجوز الجمعة بمنى... والصحيح أن الخلاف فيه بناء على أن المصر الجامع شرط عندنا إلا أن محمدا يقول :إن منى ليس بمصر جامع بل هو قرية فلا تجوز الجمعة بها كما لا تجوز بعرفات ،وهما يقولان: إنها تتمصر في أيام الموسم؛ لأن لها بناء وينقل إليها الأسواق ويحضرها وال يقيم الحدود وينفذ الأحكام فالتحق بسائر الأمصار بخلاف عرفات فإنها مفازة ،فلا تتمصر باجتماع الناس وحضرة السلطان.(بدائع الصنائع :1/ 260(
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(وجازت) الجمعة (بمنى في الموسم) فقط؛(ل) وجود (الخليفة) أو أمير الحجاز أو العراق أو مكة ووجود الأسواق والسكك(ولا بعرفات) لأنها مفازة.
وقال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ تعالی:قوله:(لأنها مفازة) أي برية لا أبنية فيها بخلاف منى.(رد المحتار: 2/ 143)
جنید صلاح الدین
دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
27/جمادی الثانیہ6144ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جنید صلاح الدین ولد صلاح الدین | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |