86177 | پاکی کے مسائل | حیض،نفاس اور استحاضہ کا بیان |
سوال
مفتی صاحب! میں شادی شدہ ہوں ، لیکن کچھ مسائل کے حوالے سے رہنمائی چاہیے ، تحریراً پوچھنا آسان ہے ، ویسے کسی عالم سے پوچھنا مشکل ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں ۔۔ حیض کی حالت میں شوہر کا بیوی سے جسمانی قربت اختیار کرنے کے لیے کون سے شرعی حدود ہیں، اور کن اعمال سے اجتناب کرنا ضروری ہے؟ ۔۔کیا حیض کے دوران شوہر اور بیوی ایک ہی بستر پر سو سکتے ہیں، اور کیا ان کے درمیان کسی قسم کا جسمانی لمس جائز ہے؟ ۔۔. کیا حیض کے دوران شوہر کے لیے بیوی کے جسم کے ان حصوں کو چھونا جائز ہے جن پر خون کا اثر نہیں ہوتا؟ اگر ہاں، تو کن شرائط کے ساتھ؟ . ۔۔کیا حیض کے دوران بیوی کا اپنے شوہر کو مباشرت سے ہٹ کر تسکین دینا جائز ہے؟ اور اس سلسلے میں کن حدود کا خیال رکھنا چاہیے؟ ۔۔. اگر شوہر لاعلمی میں حیض کی حالت میں بیوی سے مباشرت کر لے تو کیا اس پر کوئی کفارہ لازم ہوگا؟ اگر ہاں، تو کفارے کی نوعیت کیا ہے؟ کیا حیض کے دنوں میں شوہر کے لیے بیوی کو بوسہ دینا یا گلے لگانا جائز ہے؟ اور اس دوران اگر جذبات زیادہ شدت اختیار کر جائیں تو کیا حکم ہوگا؟ مطلب شوہر کو تسکین کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
حالتِ حیض میں بیوی سے ہم بستری کرنا شرعاً حرام اورکبیرہ گناہ ہے،تاہم بیوی کو گلے لگانا، بوسہ لینا ،ایک ساتھ سونا اور ناف سے لیکر گھٹنوں تک کے حصے کے سوا بیوی کے باقی جسم سے لذت حاصل کرنا شرعاً جائزہے ،لیکن ناف سے گھٹنوں تک کے حصے سے بلاحائل استمتاع کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر شوہر کے جذبات شدت اختیار کرجائیں توناف سے گھٹنوں تک بلا حائل لذت حاصل کرنا جائز نہیں ۔
اگرایامِ حیض میں باہمی رضامندی سے لاعلمی یا غفلت کی بناء پر میاں بیوی نے ہم بستری کرلی تو اس پر کفارہ لازم نہیں، البتہ سخت ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے،نیز کچھ رقم صدقہ بھی کرے تاکہ آئندہ کے لیے احتیاط کا اہتمام کیا جاسکے ۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن جریر طبري رحمہ اللہ:قالوا: فما فعل النبي صلى الله عليه وسلم من ذلك فجائز، وهو مباشرة الحائض ما دون الإزار وفوقه، وذلك دون الركبة وفوق السرة، وما عدا ذلك من جسد الحائض، فواجب اعتزاله لعموم الآية.(تفسير الطبري (3/ 730):
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:(وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا. وهل يحل النظر ومباشرتها له؟ فيه تردد.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله:( وقربان ما تحت إزار) من إضافة المصدر إلى مفعوله، والتقدير: ويمنع الحيض قربان زوجها ما تحت إزارها كما في البحر ،قوله:( يعني ما بين سرة وركبة) فيجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل، وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دما، ولا يكره طبخها ولا استعمال ما مسته من عجين أو ماء أو نحوهما إلا إذا توضأت بقصد القربة كما هو المستحب فإنه يصير مستعملا.وفي الولوالجية: ولا ينبغي أن يعزل عن فراشها؛ لأن ذلك يشبه فعل اليهود بحر.وفي السراج: يكره أن يعزلها في موضع لا يخالطها فيه. هذا، واعلم أن المصرح به عندنا في كتاب الحظر والإباحة أن الركبة من العورة، ومقتضاه كما أفاده الرحمتي حرمة الاستمتاع بالركبة لاستدلالهم لهم هنا بقوله عليه الصلاة والسلام’’ما دون الإزار‘‘ ومحله العورة التي يدخل فيها الركبة تأمل. «يدها على فرجه كما اقتضاه كلام البحر، لا إذا كانت ما بين سرتها وركبتها؛ كما إذا وضعت فرجها على يده فهذا كما ترى تحقيق لكلام البحر لا اعتراض عليه فافهم، وهو تحقيق وجيه؛ لأنه يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه حتى ذكره، وإلا فلو كان لمسها لذكره حراما لحرم عليها تمكينه من لمسه بذكره لما عدا ما تحت الإزار منها، وإذا حرم عليه مباشرة ما تحت إزارها حرم عليها تمكينه منها فيحرم عليها مباشرتها له بما تحت إزارها بالأولى.
(الدر المختار مع رد المحتار :1/ 292)
وفیہ ایضاً: قوله:( ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعا في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار، ثم قيل إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دما أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار. (رد المحتار :1/ 298)
احسان اللہ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
/27جمادی الآخرۃ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان اللہ بن سحرگل | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |