03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر پڑھے تین طلاقوں والے طلاق نامے پر دستخط کرنا
86107طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میرا نام افشاں عزیز ہے، میری شادی سترہ سال پہلے ہوئی تھی،میرے چار بچے ہیں،دو بیٹیاں اور دو بیٹے،میری صحت کچھ ٹھیک نہیں رہتی تھی،جس کی وجہ سے میں گھر کے کام نہیں کر پاتی تھی اور اکثر ہماری لڑائی ہوجاتی تھی تو میں کچھ دنوں کے لئے اپنی بہن کے گھر چلی جاتی تھی اور پھر آجاتی تھی،پھر ایک بار جب میں اپنے گھر سے بہن کے گھر گئی تو میرے شوہر نے مجھ سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی کرلی،جس کی وجہ سے میں اپنی بہن کے گھر رہنے لگ گئی،لیکن میں اپنے بچوں سے ملنے کے لئے چلی جاتی تھی۔

 پھر میرے شوہر مجھے گھر لے گئے تھے اور میں پندرہ سے بیس دن تک اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہی،لیکن پھر دوبارہ لڑائی ہوئی تو میں اپنے بھائی کے گھر چلی گئی،کچھ مہینوں بعد میرے گھر والوں نے مجھ پر خلع کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کردیا،حالانکہ میں خلع کے لئے راضی نہیں تھی، لیکن کئی مہینوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر بالآخر گھر والوں کے دباؤ سے میں نے خلع کے پیپر پر دستخط کردیئے جنہیں میں نے پڑھا بھی نہیں تھا اور میں راضی بھی نہیں تھی،پھر میرے شوہر نے بھی خلع کے پیپر پڑھے بغیر اور دیکھے بغیر دستخط کر دیئے،وہ بھی راضی نہیں تھے اور زبانی طلاق نہیں دی،دستخط کے وقت بھی ہم الگ الگ تھے۔

اب میرے شوہر اور میں اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کے لئے آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری راہنمائی فرمائیں اور اب میرے شوہر دوسری بیوی کو طلاق دینا چاہتے ہیں۔

تنقیح :جس پیپر پرشوہر اور بیوی نے دستخط کئے ہیں،اس میں تین مرتبہ یہ جملے درج ہیں:

میں ندیم علی ،ولد محمد علی، بہ ہوش و حواس، روبرو گواہان افشاں بنت محمد عزیز خان کو طلاق دیتا ہوں۔

میں ندیم علی ،ولد محمد علی، بہ ہوش و حواس، روبرو گواہان افشاں بنت محمد عزیز خان کو طلاق دیتا ہوں۔

میں ندیم علی ،ولد محمد علی، بہ ہوش و حواس، روبرو گواہان افشاں بنت محمد عزیز خان کو طلاق دیتا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مذکورہ صورت خلع کی نہیں ہے،بلکہ صریح طلاق کی ہے،اس لئے اس کے نافذ ہونے کے لئے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں،لہذااگر آپ کے شوہر کو یہ معلوم تھا کہ جس طلاق نامے پر وہ دستخط کررہے ہیں اس  میں تین طلاقیں درج ہیں،توپھرمذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس کے بعد اب موجودہ حالت میں آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ممکن نہیں رہا۔

البتہ اگر عدت گزارنے کے بعدآپ کسی اور سے نکاح کرلیں اور نکاح کےبعد ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوجائیں،اس کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ کسی وجہ سے آپ کو طلاق دیدے،پھر آپ عدت گزاریں،توپھرعدت گزارنے کے بعد آپ کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ممکن ہوسکے گا۔

لیکن اگر آپ کے شوہر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس میں تین طلاقیں درج ہیں اور انہوں نے ایک طلاق کی نیت سے دستخط کئے تو قضاءً پھر بھی تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،البتہ دیانةً ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔

قضاء واقع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی اس طلاق نامے کو دلیل بنا کے کہہ دے یا کورٹ میں پیش کرے کہ اس کو تین طلاقیں ہوئی ہیں ، تو اس کی بات معتبر ہوگی، البتہ اگرشوہر اس بات پر حلف اٹھائے کہ اسے طلاق نامہ میں درج تعدادِ طلاق کا علم نہیں تھا ،تو ایسی صورت میں  دیانۃً صرف ایک ہی طلاق واقع ہوگی ، دیانۃ ًکا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے اس حلفیہ بیان کو بیوی تسلیم کرے اور بیوی کو اطمینان ہو کہ شوہر کا حلفیہ بیان درست ہےتو بیوی  اس کے مطابق عمل کرسکتی ہے، اس صورت میں عدت کے اندر شوہر زبانی یا عملی طور پر رجوع کرسکتا ہے، نئے نکاح کی ضرورت نہیں ، البتہ اگر شوہر نے عدت کے اند رجوع نہیں کیا، تو عدت گزرتے ہی نکاح  ختم ہوجائے گا، اور مطلقہ  عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،لیکن اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرنا چاہیں، توکم از کم  دو گواہوں  کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ  نکاح کرنا پڑے گا۔

نیز آپ کے لئے اپنے شوہر سے دوسری بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کا مفہوم ہے کہ کوئی عورت اس مقصد کے لئے اپنی مسلمان بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے کہ اس کا حصہ بھی اسے مل جائے،کیونکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کے مقدر میں ہے۔

حوالہ جات

{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 230]

"صفوة التفاسير" (1/ 131):

"{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} أي فإن طلق الرجل المرأة ثالث مرة فلا تحل له بعد ذلك حتى تتزوج غيره وتطلق منه، بعد أن يذوق عسيلتها وتذوق عسيلته كما صرح به الحديث الشريف، وفي ذلك زجر عن طلاق المرأة ثلاثا لمن له رغبة في زوجته لأن كل شخص ذو مروءة يكره أن يفترش امرأته آخر .

{فإن طلقها فلا جناح عليهمآ أن يتراجعآ إن ظنآ أن يقيما حدود َﷲ} أي إن طلقها الزوج الثاني فلا بأس أن تعود إلى زوجها الأول بعد انقضاء العدة إن كان ثمة دلائل تشير إلى الوفاق وحسن العشرة".

"البحر الرائق " (3/ 257):                                                                                                                                                    

"ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة لأنه مخالف للإجماع كما حكاه في المعراج ولذا قالوا: لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه؛لأنه لا يسوغ فيه الاجتهاد لأنه خلاف لا اختلاف".

"الفتاوى الهندية "(1/ 379):

"رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها وكذلك لو قال لذلك الرجل: ابعث بهذا الكتاب إليها، أو قال له :اكتب نسخة وابعث بها إليها .

وإن لم تقم عليه البينة ولم يقر أنه كتابه لكنه وصف الأمر على وجهه فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين ﷲتعالى وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه ،كذا في المحيط. وﷲ أعلم بالصواب".

"صحيح البخاري" (7/ 21):

"عن أبي هريرة رضي ﷲ عنه، عن النبي صلى ﷲ عليه وسلم قال: «لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها، لتستفرغ صحفتها، فإنما لها ما قدر لها»".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

27/جمادی الثانیہ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب