86097 | نماز کا بیان | مسافر کی نماز کابیان |
سوال
مجھے ٹرین سے سفر کرنا ہوتا ہے کیا ٹرین میں نماز پڑھ سکتا ہوں ۔۔۔ مفتی صاحب مزید کچھ مسائل ہیں ان کے جواب بھی دے دیں ، جزاک اللّہ خیر۔اگر کوئی شخص سفر کی نیت سے نکلے لیکن راستے میں اس کا ارادہ بدل جائے یا وہ واپس لوٹ آئے تو کیا وہ قصر نماز ادا کرے گا یا مکمل نماز؟ نیز، اگر سفر کے دوران کسی کو نماز کا وقت قضا ہو جائے تو اس کی قضا کا حکم کیا ہوگا؟ --- کیا سفر کے دوران جماعت کے قیام کے لیے کوئی خاص حکم ہے، اور کیا مسافر کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اتنا ہی اہتمام کرنا چاہیے جتنا مقیم افراد کو؟ اگر سفر کے دوران جماعت نہ ملے تو اکیلے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ -- کیا مسافر جمعہ کی نماز ادا کرے گا یا صرف ظہر کی قصر نماز کافی ہوگی؟ نیز، اگر مسافر ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں جمعہ کی نماز ہو رہی ہو تو کیا اس پر جمعہ میں شریک ہونا واجب ہے؟ ---سفر کے دوران عورتوں کی نماز کے احکامات میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کیا ان پر بھی قصر کے وہی احکام لاگو ہوتے ہیں جو مردوں پر ہیں؟ اور اگر عورت کسی مرد مسافر کے پیچھے نماز پڑھے تو کیا وہ بھی مکمل نماز ادا کرے گی؟ ---کیا کسی مسافر کو ایسی حالت میں بھی قصر نماز ادا کرنا چاہیے جب اس کے سفر میں مشقت کم ہو، جیسے آرام دہ سواری یا ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنا؟ کیا سہولت یا مشقت کا نماز کے قصر پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ -- سفر کے دوران اگر کسی شخص کو راستے میں ٹھہرنا پڑے، جیسے کہ کسی ہوٹل میں قیام یا کسی دوست کے گھر رکنا، تو وہ قصر نماز کب تک ادا کرے گا؟ اور اگر قیام کی نیت نہ ہو لیکن قیام طویل ہو جائے تو اس کے احکام کیا ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1. ریل گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے، البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنےمیں استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، لیکن سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتے ہیں۔
2. اگر کوئی شخص شرعی مسافت جتنے سفر کی نیت سے نکلے لیکن راستے میں اس کا ارادہ بدل جائے اور وہ واپس لوٹ آئے تو اس صورت میں اگر ابھی تک مسافتِ سفر (78 کلو میٹر )طے نہیں کی کہ راستے میں اس کا ارادہ بدل گیا یاور واپس لوٹ آیا تو اس صورت میں واپسی پر قصر نماز نہیں پڑھی جائے گی بلکہ پوری نماز پڑھی جائے گی۔اگر مسافتِ سفر طے کر لی تھی یعنی تقریباً 78 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کی مسافت طے کر لی تھی پھر اس کے بعد ارادہ بدل گیا یاور واپس لوٹ آیا، تو اس صورت میں جب تک وہ اپنے شہر واپس نہیں پہنچا قصر نماز پڑھتا رہے گا ۔
3. قضاء کا تعلق نماز کے آخری وقت کی حالت پر ہے نماز جس حالت میں قضاء ہو ،اسی حالت پر اس کی قضاء کرنا واجب ہے،یعنی اگر سفر کی حالت میں نماز قضاء ہوگئی ہو تو اس کو قصر ہی پڑھا جائے خواہ سفر میں پڑھے یا گھر آکر پڑھے ،اسی طرح اگر حضریعنی اگراقامت کی حالت میں نماز قضاء ہوگئی ہوتو پوری نماز چار رکعتیں ہی قضاء کی جائیں گی ، خواہ گھر میں پڑھے یا کسی سفر کے دوران پڑھے۔
4. مسافر کے لیے نماز باجماعت کا حکم وہی ہے جو مقیم کے لیے ہے ۔لہذا سفر میں بھی جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے ، البتہ اگر سفر کے دوران جماعت سے نماز پڑھنا ممكن نہ ہو یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں ساتھیوں سے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہو یا گاڑی وغیرہ کی روانگی کا ایسا وقت ہو کہ جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جاسکتی ہو تو ان اعذار کی وجہ سے جماعت کے بغیر اکیلے نماز پڑھنا جائز ہے ۔
5. مسافر پر جمعہ کی نماز ٖفرض نہیں ،لیکن اس کے لیے شہر میں ہوتے ہوئے جمعہ کی نماز ادا کرنا افضل ہے، اگر وہ جمعہ کی نماز کے لیےحاضر نہ ہو اور اپنی قیام گاہ میں ظہر کی قصر ادا کرلے تو شرعاً اس کی اجازت ہے۔ایسی صورت میں ظہر کی جماعت نہیں کرے گا ۔
6. اگر مسافر ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں جمعہ کی نماز ہو رہی ہو تو اس پر اگر چہ نماز جمعہ واجب نہیں ہے لیکن عزیمت پر عمل کرتے ہوئے جمعہ کی نماز پڑھے تو پڑھ سکتا ہے ۔
7. کوئی شخص تقریبا 78 کلومیٹر یا اس سے زیادہ مسافت کا قصد کرکے اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے نکل جائے تو مسافر شمار ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ پھر جہاں کا قصد ہو اگر وہاں پر پندرہ دن اقامت کی نیت نہ ہو تو نماز قصر ادا کرے گا۔اور اگر وہاں پندرہ دن یا اس سے زیادہ وقت گزارنے کا ارادہ ہو تو پھر پوری نماز ادا کرےگا۔عورت اور مرد دونوں کے لیے یکساں حکم ہے،البتہ شرعی سفر میں عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے ۔
8. سفر میں نماز قصر کا حکم کا دارو مدار مشقت پر نہیں ہے بلکہ شرعی سفر تقریبا (۷۸ کلو میٹر ) کرنے پر ہے ،جہاں بھی سفر شرعی پایا جائے گا وہاں قصر کا حکم ہو گا چاہے مشقت ہو یا آسانی ہو۔
9. اگر کسی نے سفر شرعی شروع کیا اور راستے میں کسی جگہ پر ٹھہرا تو اگر ۱۵ دن رات سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو وہاں قصر نماز ادا کرے گا اوراگر ۱۵ دن رات یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو پھر پوری نماز ادا کرے گا ۔
حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه الله تعالي :وعلى هذا يخرج الصلاة في السفينة إذا صلى فيها قاعدا بركوع وسجود أن يجوز إذا كان عاجزا عن القيام والسفينة جارية، ولو قام يدور رأسه، وجملة الكلام في الصلاة في السفينة أن السفينة لا تخلو أما إن كانت واقفة أو سائرة، فإن كانت واقفة في الماء أو كانت مستقرة على الأرض جازت الصلاة فيها وإن أمكنه الخروج منها؛ لأنها إذا استقرت كان حكمها حكم الأرض، ولا تجوز إلا قائما بركوع وسجود متوجها إلى القبلة؛ لأنه قادر على تحصيل الأركان والشرائط.وإن كانت مربوطة غير مستقرة على الأرض فإن أمكنه الخروج منها لا تجوز الصلاة فيها قاعدا؛ لأنها إذا لم تكن مستقرة على الأرض فهي بمنزلة الدابة، ولا يجوز أداء الفرض على الدابة مع إمكان النزول كذا هذ،ا وإن كانت سائرة فإن أمكنه الخروج إلى الشط يستحب له الخروج إليه؛ لأنه يخاف دوران الرأس في السفينة فيحتاج إلى القعود، وهو آمن عن الدوران في الشط، فإن لم يخرج وصلى فيها قائما بركوع وسجود أجزأه الخ .
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: 1/ 109)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالي :ويلزم استقبال القبلة عند الافتتاح وكلما دارت الخ .
(رد المحتار: 2/ 102)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالي :(حتى يدخل موضع مقامه) إن سار مدة السفر، وإلا فيتم بمجرد نية العود؛ لعدم استحكام' السفر.(قوله إن سار إلخ) قيد لقوله حتى يدخل أي إنما يدوم على القصر إلى الدخول إن سار ثلاثة أيام. (قوله: وإلا فيتم إلخ) أي ولو في المفازة .
( الدر المختار مع رد المحتار:124/2)
(والقضاء يحكي) أي يشابه (الأداء سفرا وحضرا) لأنه بعدما تقرر لا يتغير.(قوله سفرا وحضرا) أي فلو فاتته صلاة السفر وقضاها في الحضر يقضيها مقصورة كما لو أداها وكذا فائتة الحضر تقضى في السفر تامة.(قوله لأنه بعدما تقرر) أي بخروج الوقت، فإن الفرض بعد خروج وقته لا يتغير عما وجب أما قبله فإنه قابل للتغير بنية الإقامة أو إنشاء السفر وباقتداء المسافر بالمقيم.) الدر المختار مع رد المحتار: (2/ 135)
فالأصل أن كل صلاة ثبت وجوبها في الوقت وفاتت عن وقتها أنه يعتبر في كيفية قضائها وقت الوجوب وتقضى على الصفة التي فاتت عن وقتها؛ لأن قضاءها بعد سابقية الوجوب، والفوت يكون تسليم مثل الواجب الفائت فلا بد وأن يكون على صفة الفائت لتكون مثله إلا لعذر وضرورة.وعلى هذا يخرج المسافر إذا كان عليه فوائت في الإقامة أنه يقضيها أربعا؛ لأنها وجبت في الوقت كذلك وفاتته كذلك فيراعى وقت الوجوب لا وقت القضاء وكذا المقيم إذا كان عليه فوائت السفر يقضيها ركعتين؛ لأنها فاتته بعد وجوبها كذلك. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: 1/ 247)
وأما المسافرون فالأفضل لهم أن يؤذنوا ويقيموا، ويصلوا جماعة؛ لأن الأذان والإقامة من لوازم الجماعة المستحبة، والسفر لم يسقط الجماعة فلا يسقط ما هو من لوازمها، فإن صلوا بجماعة وأقاموا وتركوا الأذان - أجزأهم ولا يكره، ويكره لهم ترك الإقامة بخلاف أهل المصر إذا تركوا الأذان وأقاموا أنه يكره لهم ذلك؛ لأن السفر سبب الرخصة.( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :1/ 153)
وأما المسافرون فالأفضل لهم أن يؤذنوا ويقيموا ويصلوا بالجماعة إذ السفر لا يسقط الجماعة فلا يسقط ما هو من لوازمها ولا يكره لهم ترك الإقامة.( الهداية في شرح بداية المبتدي:2/ 109)
أو بعضها (إن) اختار العزيمة . قوله: إن اختار العزيمة) أي صلاة الجمعة؛ لأنه رخص له في تركها إلى الظهر فصارت الظهر في حقه رخصة، والجمعة عزيمة كالفطر للمسافر هو رخصة له والصوم عزيمة في حقه لأنه أشق فافهم. ( رد المحتار :2/ 155)
قوله لئلا يعود على موضوعه بالنقض) يعني لو لم نقل بوقوعها فرضا بل ألزمناه بصلاة الظهر لعاد على موضوعه بالنقض، وذلك لأن صلاة الظهر في حقه رخصة، فإذا أتى بالعزيمة وتحمل المشقة صح، ولو ألزمناه بالظهر بعدها لحملناه مشقة ونقضنا الموضوع في حقه وهو التسهيل. قلت: فالمراد بالموضوع الأصل الذي بني عليه سقوط الجمعة هنا وهو التسهيل والترخيص الذي استدعاه العذر. (رد المحتار :2/ 155)
من خرج من عمارة موضع إقامته قاصدامسيرة ثلاثة أيام ولياليها بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة،صلى الفرض الرباعي ركعتين.( الدر المختار مع رد المحتار:( 599/2
ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر وإن نوى أقل من ذلك قصر. ( الهداية في شرح بداية المبتدي :1/ 80)
عبدالوحید طاہر
دارالافتاءجامعہ الرشید ،کراچی
۲۸جمادی الثانیہ ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالوحید بن محمد طاہر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |