03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نابالغ بچے کے حصے کا حکم
86122میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا،اس کے بعدوراثت کی تقسیم سے پہلے اس کے بیٹے کا انتقال ہوگیا،فوت ہونے والے بیٹے کے ورثا میں ایک بیوہ اور تین چھوٹے بچے ہیں،بڑے بیٹے کی عمر دس سال ہے،سوال یہ ہے کہ ان کی دادا کی جائیداد میں سے ان کا حصہ ابھی ان کے حوالے کرنا ضروری ہے،یا بالغ ہونے کے بعد دیا جائے؟

میرا بڑا بیٹا زندہ ہے،کیا سرپرست کے طور پر ان کا حصہ اسے دیا جاسکتا ہے،تاکہ بالغ ہونے کے بعد وہ ان کے حوالے کردے ؟

ان بچوں کے حوالے کرنے میں یہ خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ماں دوسری شادی کرلے اور ان کا حصہ دوسرے شوہر کے حوالے کردے اور پھر وہ ان بچوں کی کفالت بھی نہ کرے اور ہمارے حوالے کردے،کیونکہ ماں قابل اعتبار نہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نابالغ لڑکے کو اپنے باپ کے میراث میں جو مال ملا ہو اس کی حفاظت کی ذمہ داری با پ کے مقرر کردہ وصی کی ہو گی،وصی سے مراد وہ شخص ہے جس کو کوئی اپنی موت کے بعد اپنے مال کی نگرانی یا نابالغ اولاد سے متعلق ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے نگران مقرر کرے، اگرباپ  نے کسی کووصی  مقرر نہ کیا  ہو تو پھر دادا  کو اس کے مال کی حفاظت کرنی ہو گی، اگر دادا نہ ہو تو اس کے مقرر کردہ وصی کی ذمہ داری ہو گی  اور اگر دادا نے بھی کسی کو  مقرر نہ کیا ہو تو  پھر عدالت  جس کو مقرر کرے وہ حفاظت کرے گا۔

اگر عدالت سے رجوع مشکل ہو تو خاندان یا برادری کے بڑے اور تجربہ کار افرادباہمی مشورہ سے تجویز کرلیں کہ بچوں کے  حق میں کیا صورت زیادہ مفید اور قابل اطمینان ہے کہ اس کا مال کس کے پاس رہنا چاہیے،پھر اس کے مطابق عمل کرلیا جائے۔

حوالہ جات

"رد المحتار"(6/ 771):

"الخامسة: لو ترك أولادا صغارا ومالا فالولاية للأب فهو كوصي الميت بخلاف الجد.

السادسة: في ولاية النكاح لو كان للصغير أخ وجد فعلى قول أبي يوسف يشتركان وعلى قول الإمام يختص الجد ولو كان مكانه أب اختص اتفاقا.

السابعة: إذا مات أبوه صار يتيما ولا يقوم الجد مقام الأب لإزالة اليتيم عنه.

الثامنة: لو مات وترك أولادا صغارا، ولا مال له وله أم وجد أبو الأب، فالنفقة عليهما أثلاثا الثلث على الأم، والثلثان على الجد ولو كان كالأب كان كلها عليه اهـ ح.

أقول: وفي الخامسة نظر لما تقدم قبيل شهادة الأوصياء أن الولاية في مال الصغير لأبيه، ثم لوصي الأب، ثم للجد، ثم لوصيه، ثم للقاضي، ثم لوصيه فالجد يقوم مقام الأب عند عدم الأب، ووصيه فلم يخالف الجد فيها الأب تأمل".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

29/جمادی الثانیہ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب