03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انشورنس کمپنی میں نوکری کرنے کا حکم
86158سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

السلام علیکم ! میرا سوال یہ ہے کہ میں نے الحمدللہ میٹرک پاس کیا ہے اور حافظ قران بھی ہوں اور دینی علم حاصل کر رہا تھا ، درجہ اولی پڑھ لیا تھا اور درجہ ثانیہ میں تھا ،لیکن کچھ مصروفیت اور کچھ بیماریاں تھیں جن کی وجہ سے  فی الحال  یہ سلسلہ چھوڑنا پڑا ۔اب میں ایف -ایس-سی کمپیوٹر سائنس میں کر رہا ہوں۔ میرے والد صاحب مجھے کہہ رہےہیں کہ آپ ایف-ایس-سی کے بعد سی-اے کر لیں ،پھر اس کے بعد دبئی میں یا پاکستان میں آپ کو فائنانس اور انشورنش کمپنیوں میں اچھی جاب ملے گی۔ میرا سوال یہ ہے کہ میرے لیے سی-اےکرنا  مناسب ہو گا  یانہیں اور اگر میرے لیے  سی-اے کرنا مناسب ہے تو سی-اے کرنے کے بعد کون سی جاب میرے لیے شریعت کے مطابق جائز ہوگی ؟جو مذکور ہے  جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ جائز نہیں ہے تو ان کے علاوہ کون کون سے کام جو میں سی-اے کی مدد سے کر سکتا ہو ں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کا سی-اے کرنا یا نہ کرنا انتظامی نوعیت کا مسئلہ ہے، البتہ  سی -اے کرنا  فی نفسہ جائز ہے ۔ سی- اے کرنے کے بعد   ضروری نہیں کہ سودی بینک اور انشورنس کمپنی میں ملازمت کریں۔ سودی بینک یا انشورنس کمپنی دونوں کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ وہ ملازمتیں جن کا تعلق براہ راست سود یا جوے کے کام سےنہ ہو، ان ملازمتوں کی گنجائش ہے ، البتہ ان ملازمتوں سے بھی اجتناب کرنا بہتر ہے۔مسلمان کے لیے جس طرح گناہ کے کام کرنا جائز نہیں ، اسی طرح ان میں معاونت کرنا بھی درست نہیں۔حدیث مبارک کا مفہوم ہے:

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔‘‘  (رواہ مسلم)

نیز موجودہ زمانے میں اسلامی بینکوں اور  شریعت کے مطابق کام کرنے والی کمپنیوں کی کمی نہیں ہے،لہذا اسلامی بینکوں اور ایسی کمپنیوں  میں ملازمت اختیار کی جا سکتی ہے جو شریعت کے مطابق کام کرتی ہیں۔

حوالہ جات

صحيح مسلم للنيسابوري (5/ 50):

عن عبد الله قال لعن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- آكل الربا ومؤكله. قال قلت وكاتبه وشاهديه قال إنما نحدث بما سمعنا.

فقہ البیوع(2/1065):

أما إذا كانت الوظيفة ليس لها علاقة مباشرة بالعمليات الربوية، مثل وظيفة الحارس أو سائق السيارة، أو العامل على الهاتف أو الموظف المسئول عن صيانة البناء، أو المعدات أو الكهرباء، أو الموظف الذى يتمحض عمله في الخدمات المصرفية المباحة، مثل تحويل المبالغ، والصرف العاجل للعملات، وإصدار الشيك المصرفي،أو حفظ مستندات الشحن أو تحويلها من بلد إلى بلد، فلا يحرم قبولها إن لم يكن بنية الإعانة على العمليات المحرمة، وإن كان الاجتناب عنها أولى، ولا يُحكم في راتبه بالحرمة، لما ذكرنا من التفصيل فى الإعانة والتسبب، وفى كون مال البنك مختلطاً بالحلال والحرام. ويجوز التعامل مع مثل هؤلاء الموظفين هبة أو بيعاً أو شراء.

فقه البيوع(1068/2):

وأما قبول الوظيفة فيها،فحكمه  و حكم التعامل مع الموظفين  فيها مثل حكم الوظائف في البنوك الربوية.

 ارسلان نصیر

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

  03 /رجب/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب