03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باغ کوٹھیکہ پر دینا
86156کھیتی باڑی اور بٹائی کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

آج کل باغ کے مالکان مثلا آم کےباغ کو تین  یا چار سال کے لئے کسی کوٹھیکہ پردیتے ہیں اور قیمت اس طرح متعین کرتےہیں کہ ایک درخت کی قیمت متعین کرکے تمام درختوں کی قیمت اسی کے مطابق لگاتے ہیں یا جملہ کوئی بھی قیمت باعتبار فیصد کےمتعین کردیتے ہیں،اورباغ کا مالک ان کو کہتا ہےکہ مثلا ًسالانہ ان آم کے درختوں پر مجھے تین لاکھ روپے دینا ہوگا، چاہے اس پر پھل آئے،نہ آئے ،کچھ بھی مسئلہ درپیش ہومیں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں،پیداوار کی تمام ذمہ داریاں مثلاً  ہل چلانا، پانی دینا، اگر اس پر پھل آئے تو اس کو توڑکر بیچنا وغیرہ سب ٹھیکہ دار پر ہوتی ہیں،اور جس وقت مالک دوسری فریق کوباغ  حوالہ کررہا ہوتا ہےباغ کی صورتحال ایسی ہوتی ہے کے نہ ان‌ درختوں پر پھل ہوتاہے اور نہ یہ معلوم ہوتا ہےکہ  پھل آئے گایا نہیں  ۔

 یہ طریقۂ کار بہت زیادہ عام بھی ہوچکاہے،یہاں تک کہ اگر ٹھیکہ دارکا نقصان بھی ہوجائے پھربھی عاقدین کے درمیان یہ مفضی الی المنازعہ  نہیں ہوتا ، تو یہ صورت عموم بلوی کے تحت آسکتی ہے یانہیں؟

 باغ کا مالک باغ کو اسی طرح دینا چاہتا ہے کہ اس کو سالانہ کے حساب سے تین لاکھ روپےچاہئے،اورزیادہ عمر اور بیمار ہونے کی وجہ سے اس کے پاس  اتنا وقت موجود نہیں ہے، تو ایسی صورتحال میں شرعی اعتبار سے کن شرائط و قیود کے ساتھ اس طرح معاملہ کرنے کی اجازت مل سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں پوچھی گئی صورت" بیع المعاومہ" ہے،جس کو بیع السنین بھی کہتے ہیں کہ درختوں کے پھلوں کو کئی سالوں تک کےلئےفروخت کردیاجاتاہے،حدیث مبارک میں اس کی ممانعت واردہوئی ہے،شرعاًیہ جائزنہیں ہے،کیوں کہ  اس میں پھل بالکل معدوم ہوتے ہیں اور معدوم کی بیع ناجائز ہے،علامہ ابن منذر رحمہ اللہ علیہ نےبیع السنین کے عدمِ جواز پر اجماع نقل فرمایا ہے۔

پھلوں کی خرید و فروخت کا مذکورہ طریقہ رواج عام ہونے کی وجہ سےبھی جائز نہیں ہوگا،کیوں کہ عرف کے مقابل اگر نص ِشرعی آجائےتو ایسے عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔

البتہ اس معاملہ کی جواز کی صورت یہ ممکن ہے کہ مالک اپناباغ جس شخص کوٹھیکہ پر دینا چاہتاہے،اسی شخص سےمساقات(  باغ کامالک زمین اوردرختوں کی سیرابی ونگرانی کےلئےکسی کوپیداوارکےمتعین فیصدی حصے کے عوض دے دیں ) کا معاملہ  کرلیں اور اپنےلئے  پھلوں کا  ایک معمولی سا  حصّہ مثلاًایک فیصداور ٹھیکہ دارکےلئےننانوے( ۹۹ )فیصدمتعین کرلیں، اس کے بعد  ایک علیحدہ عقد کے ذریعے اُس زمین کو(جس میں  باغ ہے)اسی شخص کو) جس کے ساتھ مساقات کا معاملہ کیا ہے(سالانہ مثلاًتین لاکھ کی اجرت پرتین یاچارسال کی مدت کےلئےکرایہ پر دےدیں،نیز  اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ پہلے مساقات کا عقد ہواور پھر  زمین کے اجارہ کا  عقدہو،اور زمین کا قابل ِ زراعت ہونا شرط ہے،اگر زمین زراعت کے قابل نہیں ہے تو پھر اسے زراعت کےلئے کرایہ پر دینا جائز نہیں ہوگا۔چونکہ اجرت کا پیشگی مطالبہ کرنا جائز ہے،اس لئے باغ کا مالک ٹھیکہ دار سے زمین کی اجرت کاپیشگی مطالبہ کرسکتا ہے،اسی طرح  باغ کی دیکھ بھال  عامل (مساقی) کے ذمہ ہوتی ہے،اس لئے مالکِ باغ کو دیکھ بھال بھی نہیں کرنی پڑے گی اورحاصل شدہ پھل بھی دونوں فریقوں کے درمیان طے شدہ فیصدی حصے کےمطابق تقسیم ہو  جائیں گے،بعدمیں اگر باغ کا مالک چاہےتو اپنے ایک فیصدپھلوں کوبھی دوسرےفریق کوہبہ کردے۔

حوالہ جات

(مستفاداز تبویب:75211)

«‏‏‏‏صحیح مسلم/ البیوع 17 (1536):

عن جابر بن عبد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم"نهى عن المعاومة، وقال: احدهما بيع السنين"

«الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي» (5/ 3476):

«أجمع العلماء على أن بيع الثمار قبل أن تخلق لا ينعقد؛ لأنه من باب النهي عن بيع ما لم يخلق ومن باب ‌بيع ‌السنين والمعاومة»

«الأوسط لابن المنذر» (10/ 60):

«‌قال ‌أبو ‌بكر:‌وأجمع‌أهل ‌العلم ‌على ‌أن ‌بيع ‌الرجل ‌ثمر [نخله] سنين غير جائز، وهو يبطل من وجوه:يبطل من نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع السنين،وأنه من بيوع الغرر الذي نهى عنه، وهو بيع ما لم يخلق، فلا يدرى أيكون أم لا؟ وإذا كان كيف يكون: كثيرا أو قليلا أم وسطا؟ وقد تحول دونه الآفات إن حصلت النخل، فلا يصل إلى المشتري شيء ينتفع به. »

«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 8):

(قوله فيستأجر أرضه الخالية) أي بياضها بدون الأشجار، وإنما لا يصح استئجار الأشجار أيضا لما مر أنها تمليك منفعة، فلو وقعت على استهلاك العين قصدا فهي باطلة، قال الرملي: وسيأتي في إجارة الظئر أن عقد الإجارة على استهلاك الأعيان مقصود كمن استأجر بقرة ليشرب لبنها لا يصح، وكذا لو استأجر بستانا ليأكل ثمره.قال: وبه علم حكم إجارات الأراضي والقرى التي في يد المزارعين لا كل خراج المقاسمة منها، ولا شك في بطلانها والحال هذه، وقد أفتيت بذلك مرارا اهـ.

«فيستأجر أرضه الخالية من الأشجار بمبلغ كثير،ويساقي على أشجارها بسهم من ألف سهم، فالحظ ظاهر في الإجارة لا في المساقاة فمفاده فساد المساقاة بالأولى؛ لأن كلا منهما عقد على حد.... وقال الرافعي رحمه الله تعالى : " ( قوله : فلا تصح كما سيأتى الذى ذكره الحموى أخر السابع عشر من فن الحيل نقلا عن المحيط الرضوى استيجار الأشجار لا يجوز، وحيلته أن يؤاجر الأرض البيضاء التي تصلح للزراعة فيما بين الأشجار بأجر مثلها وزيادة قيمة الثمار ثم يدفع رب الأرض الأشجار معاملة اليه على أن يكون لرب الأرض جزء من ألف جزء ويأمره أن يضع ذلك الجزء حيث أراد ، لأن مقصود رب الأرض أن تحصل له زيادة أجر المثل بقيمة الثمار ومقصود المستأجر أن يحصل له ثمار الأشجار مع الأرض وقد حصل مقصودهما بذلك فيجوز. »

الدر المختار وحاشية ابن عابدين(8/6):

 (قوله بمبلغ كثير) أي بمقدار مايساوي أجرة الأرض وثمن الثمار (قوله ويساقي على أشجارها) يعني قبل عقد الإجارة وإلاكانتإجارة الأرض مشغولة فلا تصح كما سيأتي.وفي فتاوى الحانوتي التنصيص في الإجارة على بياض الأرض لا يفيد الصحة حيث تقدم عقدالإجارة على عقد المساقاة أما إذا تقدم عقد المساقاة بشروطه كانت الإجارة صحيحة.

«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (4/ 183):

«وأما في ‌إجارة ‌الأرض فلا بد فيها من بيان ما تستأجر له من الزراعة والغرس والبناء وغير ذلك، فإن لم يبين كانت الإجارة فاسدة، إلا إذا جعل له أن ينتفع بها بما شاء، وكذا إذا استأجرها للزراعة فلا بد من بيان ما يزرع فيها أو يجعل له أن يزرع فيها ما شاء، وإلا فلا يجوز العقد؛ لأن منافع الأرض تختلف باختلاف البناء والغرس والزراعة، وكذا المزروع يختلف، منه ما يفسد الأرض، ومنه ما يصلحها، فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فلا بد من البيان بخلاف السكنى فإنها لا تختلف.

«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (4/ 411):

«وأما في ‌إجارة ‌الأرض فلا بد من بيان ما يستأجر له»

مہیم وقاص

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

1/رجب /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

مہیم وقاص بن حافظ عبد العزیز

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب