86193 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ : حاجی قمر الدین نے دو شادیاں کیں، پہلی بیوی میں سے دو بیٹیاں متولد ہوئیں،1:زرینہ 2:نسرین دوسری بیوی سے بھی دو بیٹیاں متولد ہوئیں،1: سلطانہ 2: مقدس حاجی صاحب کے پاس ملکیت بمد رقبہ زمین تھی، جس کو وہ استعمال میں لاتے رہے،حاجی صاحب کے پاس جو زمین رہ گئی اس کو حاجی صاحب نے آخر الذکر(سلطانہ اور مقدس) دونوں بیٹیوں کے نام لکھوا دیا،دونوں بیٹیاں حاجی صاحب کے پاس آئیں اور کہا کہ ہمارا حصہ کہاں ہے ؟ حاجی صاحب نے کہا دیکھو میں تمہیں بطور رقم اور اسی طرح تمہارے بچوں کے شادی بیاہ میں خطیر رقم اور سامان تمہیں دے چکا ہوں،اب میرے پاس جو رہ گیا ہے وہ تمہاری دوسری دونوں بہنوں کا حق ہے اس لیے میں تمہیں نہیں دے سکتا،مگر اول الذکر چیں بجبیں ہیں،حاجی صاحب اب فوت ہوچکے ہیں زمین آخر الذکر دونوں بیٹیوں کے نام ہے،اول الذکر اب مطالبہ کرتی ہیں کہ ہمیں بھی زمین دو،ہرچند کہ انہیں سمجھایا کہ شرعاً آپ کا حق نہیں ہے مگر وہ ماننے کو تیار نہیں ہیں، اب آپ حضرات سے شرعی رہنمائی درکار ہے کہ آیا شرعاً ان کا مطالبہ کرنا درست ہے ؟ جب کہ حاجی صاحب اپنی زندگی میں خود ہی آخر الذکر دختران کے نام زمین لکھوا گئے ؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرما کر شرعی راہنمائی فرماویں۔
تنقیح سوال:والد صاحب نے اپنی زندگی ہی میں عدالت جاکر زمین ان دو بہنوں کے نام کرادی تھی اور وہ زمین ٹھیکے پر تھی جو ٹھیکہ آتا تھا ان ہی دو بہنوں پر خرچ ہو تا تھا اور والد صاحب بھی ان دو بہنوں کے ساتھ رہتے تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والد نے اپنی زندگی ہی میں جن دو بیٹیوں کے نام زمین کر دی تھی اور مالکانہ تصرف بھی دے دیا تھا تو اس صورت میں اس زمین میں ان دوبیٹیوں کی ملکیت ثابت ہو چکی ہے،دوسری بیٹیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
البتہ والد صاحب کا اپنی زندگی میں بعض ورثہ کومحروم کر نا اور بعض کوزیادہ دینا کسی معقول وجہ کے بغیر جائز نہیں،اور حدیث میں بھی اس کی ممانعت آئی ہے ،لہذا مرحوم والد اس سلسلہ میں قیا مت کے دن جواب دہ ہوں گے،ان دو بیٹیوں کو چاہیے کہ اپنے والد صاحب کی آخرت کو سنوارنے کے لیے اس تر کہ کو شرعی حصوں میں تقسیم کر کے ان دو بہنوں کو بھی حصہ دیں تا کہ والد آخرت کے مؤاخذے سے بچ جائے۔اگر وہ بخوشی نہ دینا چاہیں تو انہیں شرعا اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتاہے۔
حوالہ جات
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية .... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ مشکوۃمصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمی)
(فَقَالَ: آكُلَّ وَلَدِكَ) : بِنَصْبِ كُلَّ (نَحَلْتَ مِثْلَهُ) أَيْ: مِثْلَ هَذَا الْوَلَدِ دَلَّ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ........بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ....قَالَ النَّوَوِيُّ: " فِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْأَوْلَادِ فِي الْهِبَةِ فَلَا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ سَوَاءٌ كَانُوا ذُكُورًا أَوْ إِنَاثًا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَلَوْ وَهَبَ بَعْضَهُمْ دُونَ بَعْضٍ فَمَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ وَالْهِبَةُ صَحِيحَةٌ، وَقَالَ أَحْمَدُ وَالثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - وَغَيْرُهُمْ: هُوَ حَرَامٌ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ: «لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ».( مرقاة المفاتيح: 2008/5، ط: دار الفكر)
"فالذي يظهر لهذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،....أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد... ( تكملة فتح الملهم: 71/5)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوي بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوي ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم. ( الدر المختار: 696/5)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم. (البحر الرائق: 288/7)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب. (الهندية: 374/4)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".(الدر المختار: 690/5)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".(الھندیة: 378/4)
محمد اسماعیل بن محمداقبال
دارالا فتاء جامعۃ الرشید کراچی
5رجب/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن محمد اقبال | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |