03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہر کی ادائیگی میں سونے کی کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟
86164نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

ایک شخص کی شادی 2016 میں ہوئی تھی، جب سونے کی قیمت تقریباً 70,000 روپے فی تولہ تھی، اور انہوں نے دس تولے سونا بطور مہر مقرر کیا تھا، جس میں سے دو تولے ادا کیے گئے ہیں، جبکہ آٹھ تولے ابھی واجب الادا ہیں۔ اب شوہر نے بیوی کو طلاق دی ہے،تو کیا باقی مہر اسی وقت کی قیمت کے مطابق ادا کیا جائے گا یا موجودہ قیمت کے مطابق؟اور اگر اس وقت کی قیمت کے مطابق مہر ادا کیا جائے تو کیا یہ سود کے زمرے میں شمار ہوگا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مہرچونکہ خود سونے کی مخصوص مقدارمیں طے ہوا ہے، لہٰذااگرشوہر حق مہر میں سے باقی ماندہ آٹھ  تولےسونادینا چاہےتو  بعینہ آٹھ تولےسونا دےگا،چاہے مہر معجل تھا یا مؤجل،اور اگر قیمت دینا چاہےتو اس کی ادائیگی کےوقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا خواہ قیمت جتنی بھی ہو ۔لیکن اگر بیوی شوہر کو کچھ حصہ معاف کرنے مثلا وقت ِعقد نکاح کے اعتبار سے کم قیمت لینے پر راضی ہو تو بھی جائزہے،اور یہ سود شمار نہیں ہوگا۔

حوالہ جات

(رد المحتار:  3/ 789)

قلت: والجواب الواضح أن يقال: قد قالوا: إن الديون ‌تقضى ‌بأمثالها أي: إذا دفع الدين إلى دائنه ثبت للمديون بذمة دائنه مثل ما للدائن بذمة المديون، فيلتقيان قصاصا؛ لعدم الفائدة في المطالبة.

 (تاتارخانیة:163/(4

المھر لا یخلو اما أن یکون دینا أو عینا ، نعنی بالعین العروض ...ونعنی بالدین الدراھم والدنانیر ، أما اذا کان المھر عینا فلیس للزوج أن یدفع الیھا غیرھا وان کان دینا کان للزوج أن یحبسہ ویدفع غیرہ.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 153):

فالحاصل أن الاعتبار ليوم العقد في حق التسمية وليوم القبض في حق دخوله في ضمانها وفي الذخيرة النكاح إذا أضيف إلى دراهم عين لا يتعلق بعينها، وإنما يتعلق بمثلها دينا في الذمة.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 113):

(‌وصح ‌حطها) ‌لكله ‌أو ‌بعضه (‌عنه) ‌قبل ‌أو ‌لا، ويرتد بالرد كما في البحر.... (قوله وصح حطها) الحط: الإسقاط كما في المغرب، وقيد بحطها لأن حط أبيها غير صحيح لو صغيرة...(قوله لكله أو بعضه) قيده في البدائع بما إذا كان المهر دينا أي دراهم أو دنانير لأن الحط في الأعيان لا يصح بحر.

محمد اسماعیل بن اعظم خان

دار الافتا ء جامعہ الرشید ،کراچی

04/رجب المرجب1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسماعیل بن اعظم خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب