86297 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
میرا ایک کزن ہےاس کی کمپیوٹر کی دکان ہے یعنی لوگ یو ایس بی اور میموری کارڈ میں فلم،ڈرامے،اور ساز و گانےڈالواتے ہیں ،تو میں نے اس کے ساتھ لین دین ختم کر دیا ہے صرف سلام کرتا ہوں ،اور اگر ضرورتا میں اس سے قرض حسنہ لے لوں تو کیا میں اس کو استعمال کر سکتا ہوں ؟مثلاً میں نے اپنے موٹر سائیکل میں ٹیوب و ٹائر ڈال دیئے ہیں اب مجھے یہ وہم آتا ہے کہ اس کی کمائی تو حرام ہے، میں نے علماء سے پوچھا تھا تو علماء نے مجھے بتایا کہ اس کی کمائی حرام ہے۔ اور اس کا قرضہ تقریباً 10دن بعد ادا بھی کردیا ہے ،لیکن میں نے وہ ٹائر و ٹیوب اس کے پیسے سے ڈالوا دئیے ہیں ،تو اب میں کیا کروں اس ٹائر و ٹیوب کو ضائع کردو ں اور اپنے پیسے سے نیا ٹائر و ٹیوب ڈالوا دوں۔
اس ٹائر و ٹیوب ڈالنے کے بعد اس موٹر سائیکل پر جانے میں مجھے بہت سے وسوسے اور خیالات ذہن میں آتے ہیں ۔
ا۔ جب میں اس موٹر سائیکل پر کپڑے یا جوتے خریدنے جاتا ہوں تو مجھے یہ وہم آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ میرے لیے حرام ہو جائے ۔کیا واقعی یہ میرے لیے حرام ہو جاتا ہے یا یہ میرا وہم ہے ؟
ب۔ جب اس موٹر سائیکل پر ابوجان تنخواہ لینے کےلئے جاتا ہے تو مجھے یہ وہم آتا ہے کہ یہ پیسے حرام ہو جاتے ہیں ۔شریعت میں اس کے بارے میں کیا حکم ہے یا یہ میرا وہم ہے؟
ج۔ ایسا شخص مثلاً کمپیوٹر والے ،بینک والے ،سود والے شخص کے ساتھ موٹر سائیکل یا کار پر تنخواہ لینے کے لیے جانا یا اس سے موٹر سائیکل لینا اور اس پر خود پیسے لینے کے لیے جانا کیا یہ اس سے پوری تنخواہ حرام ہو جاتی ہے۔ شریعت مطہرہ میں اس کا کیا حکم ہے کیا یہ میری وہم ہے ۔اس ایک ایک مسئلے کے بارے میں تفصیلاً رہنمائی فرمائیں۔اگر آپ صاحبان کو میرا یہ مسئلہ موصول ہوا ہو تو آپ مجھے آگاہ کریں ۔اور سارے سوالات کے جوابات واضح طور پر تفصیلاً بیان کریں ۔جزاک اللہ خیرا ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ایسا شخص جس کی آمدنی حرام ہونے کا یقینی علم ہو ،اس سے قرض لینا اور اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ،اس سے احتراز لازم ہے۔البتہ اگر وہ شخص خود صراحت کردے کہ یہ قرض کی رقم حلال مال سے دی ہے تو قرض لیا جاسکتا ہے۔اوراگر قرض لینے والے کو یقینی طور پر معلوم نہیں کہ وہ شخص حلال مال سے قرض دے رہا ہے یا حرام سے ،تو اس میں غلبے کا اعتبار ہے اگر اکثر مال حرام ہے تو بہتر یہ ہے کہ اس شخص سے قرض نہ لیا جائے ،تاکہ اس کے ناجائز عمل کی حوصلہ شکنی ہو ،اور اگر اکثر مال حلال ہے تو قرض لینا جائز ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کواپنے کزن کےسارے مال کے حرام ہونے کا یقینی طور پر معلوم تھا تو آپ کا قرض لینا اور اس سے ٹائرو ٹیوب خریدنا جائز نہیں تھا ، البتہ جب آپ نے اس رقم کو استعمال کرلیا ہے اور بعد میں حلال آمدن سے اپنے کزن کو قرض کی رقم واپس کردی ہے ،تو اب اس کا استعمال جائز ہے۔ لہذا اس موٹر سائیکل کو استعمال کرسکتے ہیں ،ٹائر وٹیوب تبدیل کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔تاہم آئندہ اس سے اجتناب کریں ،اور اس سے زیادہ وہم میں نہ پڑیں۔ اور ایسا شخص جس کی کمائی حرام ہو اس کے ساتھ موٹر سائیکل یا کار پر سوار ہوکر تنخواہ کے لیے جانے سے آپ کی تنخواہ حرام نہیں ہوگی ،کیونکہ آپ کی تنخواہ آپ کی اپنی محنت اور عمل کے عوض ہے ، آپ کی تنخواہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔البتہ جب آپ کو معلوم ہے کہ اس کی کمائی حرام ہے تو ایسے شخص کے ساتھ نہ جانا بہتر ہے ۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله : وفي الاشباه: الحرمة تنتقل مع العلم إلا للوارث.
(الدرالمختار:659)
قال الشيخ تقي العثماني حفظه الله:وإن علم الآخذ أن الحلال والحرام متمیزان عندہ، لکن لم یعلم أن ما یأخذہ من الحلال أو من الحرام، فالعبرة عند الحنفیة للغلبة، فإن کان الغلبة فی مال المعطی الحرام لم یجز لہ وإن کان الغالب فی مالہ الحلال، وسع لہ ذلک".(فقه البيوع:1021/2)
قال الشيخ تقي العثماني حفظه الله:وماورد في بعض كلام الفقهاء الحنفية أن الحرمة لا تتعدى إلى ذمتين،فهو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك. (فقه البيوع:1007/2)
قال العلامة أفندي رحمه الله : "آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".(مجمع الأنهر:529/2)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله :والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه.(رد المحتار:99/5)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله :وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله. (رد المحتار:99/5)
محمد فیاض بن عطاءالرحمن
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
10/رجب المرجب1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد فیاض بن عطاءالرحمن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |