86361 | نماز کا بیان | نماز کےمتفرق مسائل |
سوال
محلے کی عمومی مسجد کو چھوڑ کر انفرادی جماعت گھر میں ہی کرا لینے پر کوئی وعید ہے کیا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مردوں کے لیے جماعت سے نماز پڑھنا ایسی سنتِ مؤکدہ ہے، جو حکم کے اعتبار سے واجب کے قریب ہے، اور مسجد میں جماعت کا اہتمام واجبِ کفایہ ہے۔بلا عذر گھر میں نماز پڑھنے والوں سے متعلق شدید وعید ارشاد فرمائی ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک میرے دل میں یہ ارادہ ہوا کہ کسی کو حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کرے، پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کے گھروں پر جاؤں، جو جماعت میں نہیں آتے اور ان کے گھروں کو جلادوں۔"
لہذا مرد کے لیے بلا عذر گھر میں نماز پڑھنے کا معمول بنا لینا گناہ ہے، البتہ اگر کبھی عذر (بیماری، سفر، سخت بارش وغیرہ) کی وجہ سے جماعت رہ جائے، تو گھر میں پڑھنے کی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
صحیح البخاری: (131/1):
عن نافع، عن عبد الله بن عمر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة»
صحیح مسلم: (453/1):
عن أبی الأحوص قال: قال عبداللہ لقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاة إلا منافق قد علم نفاقہ أو مریض إن کان المریض لیمشی بین رجلین حتی یأتی الصلاة. وقال: إن رسول اللہ صلی الله عليه وسلم علَّمَنا سنن الھدی وإن من سنن الھدی الصلاۃ فی المسجد الذی یؤذن فیہ.
و فیه أیضاً: (453/1):
حدثنا أبوھریرة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال رسول اللہ صلی الله عليه وسلم :لقد ھممت أن آمر فتیاني أن یستعدوإ لی بحزم من حطب ثم آمر رجلا یصلی بالناس ثم تحرق بیوت علی من فیھا.
الدر المختار: (554/1):
(فتسن او تجب) ثمرتہ تظھر فی الإثم بترکھا مرۃ (الجماعۃ) علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلوٰۃ بالجماعۃ من غیر حرج.
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
11/ رجب 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |